نیشنل ایکشن پلان کی اصل ناکامی کیا ہے؟


\"\"ہم کیسے بیدار مغز لوگ ہیں۔ دسمبر 2016 میں بیٹھ کر 2014 کے نیشنل ایکشن پلان کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کو آٹھ اگست 2016 کے سانحہ کوئٹہ کی تحقیق پر مامور کیا گیا تھا۔ اس واقعے میں پاکستان کے بہترین قانون دان بیٹے اور بھائی مارے گئے تھے۔ جسٹس عیسیٰ کی رپورٹ منظر عام پر آ گئی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان مرتب کرتے ہوئے مناسب غور فکر کیا گیا اور نہ اس پر عمل درآمد میں سنجیدگی دکھائی گئی۔ اس رپورٹ پر ایک رد عمل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے آیا۔ انہوں نے اپنی ذات اقدس کا دفاع کرتے ہوئے انکوائری رپورٹ کو یکطرفہ اور اس کے مندرجات کو مینڈیٹ سے انحراف قرار دیا۔ چوہدری صاحب کے لب و لہجے سے ہم ایسے نیازمند خوب واقف ہیں۔ محترم جناب فضل الرحمٰن صاحب فرماتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان آسمان سے اترا ہوا لفظ نہیں۔ مولانا کی قادر الکلامی تسلیم، مشکل یہ ہے کہ قوموں کے فیصلے آسمان سے نہیں اترتے، یہ معاملات گوشت پوست سے بنے فانی انسان پارلیمنٹ وغیرہ جیسے زمینی اداروں میں طے کرتے ہیں۔ ایک بہت اہم خبر ریٹائرڈ جنرل شعیب امجد نے دی ہے۔ ہمارے مقتدر ترین خفیہ ادارے کے سربراہ نے سال رواں میں وزیراعظم کو ایک خط لکھ کر تجویز کیا تھا کہ \”پرامن جہادی تنظیموں\” کے ارکان کو سرکاری ملازمتیں دی جائیں اور جو جہادی عناصر اس پر آمادہ نہ ہوں، انہیں ’ڈی ریڈیکلائز‘کر کے سکیورٹی اداروں کا حصہ بنا دیا جائے۔ سبحان اللہ! کیسی مثبت سوچ ہے۔ گویا تجویز یہ تھی کہ ریاست دشمن سوچ سے لڑنے کی بجائے قاتل کو گھر میں رہنے کی اجازت دے دی جائے، اسے جینے اور نقل حرکت کی پوری آزادی ہو۔ پرامن شہریوں کو اس کی سوچ پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہ ہو۔ غیر واضح سوچ رکھنے والا سپہ سالار ہمیشہ بین بین راستہ نکالتا ہے۔ اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے…. محترم وزیراعظم نے بوسنیا میں فرمایا کہ ہم نے طالبان اور القاعدہ کا خاتمہ کر دیا ہے اور یہ کہ داعش کا کوئی وجود ہماری زمین پر نہیں۔ یہ اعلان قبل از وقت ہے۔ آگ دوڑی رگ احساس میں گھر سے پہلے….

نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی یا ناکامی پر غور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ دہشت گردی ہے کیا؟ دہشت گردی کا یہ عفریت پاکستان سے کیسے منسوب ہوا؟ وطن کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے کیا اصولی فیصلے ضروری ہیں؟ سیاسی مقصد کے لئے تشدد کے ذریعے خوف و ہراس پھیلا کر معمول کے ریاستی بندوبست کو مفلوج کرنے کا نام دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی میں تشدد کا خوف تشدد کے حقیقی حجم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ایک شخص کو قتل کر کے پورے شہر کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ ریاست، شہری اور اداروں کے درمیان اعتماد کا پل اڑایا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ لارنس آف عریبیا سلطنت عثمانیہ کے اردن پار علاقوں میں کیا کر رہا تھا؟ بنگال کے آزادی پسند اور بھگت سنگھ کے رفقا کیا کر رہے تھے؟ کیا 1948 میں اسرائیل اور عربوں کے درمیان کیا دہشت گردی نہیں ہو رہی تھی؟ کیا قومی آزادی کی تحریکوں میں دہشت گردی اختیار نہیں کی گئی۔ کیا نیلسن منڈیلا نے ہتھیار نہیں اٹھائے؟ ہوا یہ کہ تاریخ، معیشت اور ٹیکنالوجی میں ارتقا کے ساتھ ساتھ دہشت گردی ایک جائز سیاسی طریقہ کار کے طور پر رد کر دی گئی ہے۔ گاندھی جی سے نیلسن منڈیلا اور یاسر عرفات سے آئرلینڈ تک تشدد سے پرامن سیاسی جدوجہد کا سفر بالکل واضح ہے۔ ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ جمہوری بندوبست کے مستحکم ہونے کے بعد دہشت گردی کے ایک جائز سیاسی حربے کے طور پر استعمال پر سوال اٹھنے لگے۔
پاکستان میں یہ معاملہ کچھ مختلف راستوں سے گزرا ہے۔ 1948 میں ہم نے کشمیر کی لڑائی میں قبائلیوں کی اصطلاح استعمال کی۔ آج جنرل اکبر خان اور دوسرے مورخین ہمارے حکومتی مو¿قف کی تردید کرتے ہیں۔ ہم نے افغانستان میں سوویت قبضے کے بعد سیاسی اور اخلاقی حمایت کی ایک ترکیب استعمال کرنا شروع کی۔ اب چالیس برس بعد بتایئے کہ کیا پاکستان کی زمین اسلحہ، تربیت اور مالی مدد فراہم کرنے کے لئے استعمال نہیں ہورہی تھی۔ نوے کی دہائی میں ہم نے کشمیری حریت پسندوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کا مو¿قف اپنایا، کارگل اور قندھار طیارہ اغوا سے ہمارا مو¿قف منہدم ہوگیا۔ نائن الیون کے بعد ہم نے کہا کہ ہماری زمین پر طالبان اور القاعدہ کا کوئی وجود نہیں۔ اسامہ بن لادن اور ملا منصور اختر ہمارے ہاں مارے گئے۔ ملا عمر کے مرقد کی کوئی خبر نہیں، البتہ ہمارے قبرستانوں میں ستر ہزار قبریں ہمارے شہیدوں کی موجود ہیں۔ جولائی 2015 میں مری کے مقام پر ہونے والے مذاکرات میں طالبان پیراشوٹ کے ذریعے نمودار نہیں ہوئے تھے۔ یوں غیر ریاستی تشدد کے ضمن میں اہم ترین مراحل پر ہمارا مو¿قف اپنا اعتبار کھو بیٹھا اور اس کے اسباب محض انتظامی نہیں۔ اگر دہشت گردی محض انتظامی معاملہ ہوتی تو اس پر قابو پانے کے لئے ہماری پولیس کافی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد ہم نے ریاست کے تشخص پر فکری انتشار پیدا کیا تو ایک نادیدہ مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کہ ہماری افواج دفاع پاکستان کے لئے ہیں یا ہماری سلامتی کے علاوہ کچھ ماورائے جغرافیہ نظریاتی مقاصد بھی موجود ہیں۔ ملک کے دفاع اور نظریاتی خود راستی کو خلط ملط کر دیا جائے تو بالآخر وہ مرحلہ آ جاتا ہے جہاں یک جماعتی آمریت کی علمبردار ریاست اور عسکری اداروں میں حد فاصل مٹ جاتی ہے۔ روس میں کمیونسٹ پارٹی اور سرخ فوج ایک ہی فریق قرار پائیں۔ آج بھی بہت سے آمرانہ ممالک میں ایسا ہی ہے۔ ہمارے ملک میں نظریاتی اجارہ داری کے دعوے داروں اور سلامتی کے اداروں میں گٹھ جوڑ کا پہلا واضح اعلان الشمس اور البدر کی صورت میں نظر میں آیا۔ اسی کی دہائی میں سیاسی کارکنوں کو تخریب کار کہا جاتا تھا لیکن فرقے اور مذہب کے نام پر مسلح سرگرمیوں پر پابندی نہیں تھی۔ نوے کے عشرے میں جمہوریت اور صوبائی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں پر ملک دشمنی کا الزام لگایا جاتا تھا البتہ مذہب کے نام پہ ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں کو کھلی چھٹی تھی۔ پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملے 9/11 کے بعد شروع نہیں ہوئے۔ مصر کے سفارت خانے پر حملہ 1995 میں ہوا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان ایک غیر واضح دستاویز سہی، ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کا بنیادی اعلان یہ تھا کہ پاکستان دہشت گردی کو ایک جائز سیاسی طریقہ کر کے طور پر رد کرتا ہے۔ کسی کو مذہب کے نام پر اپنی رائے مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ پاکستان کے اداروں کا کام ہے، غیر ریاستی عناصر کو یہ ذمہ داری نہیں دی جا سکتی۔ ہمارے ملک کے دستور، عدالتوں، پارلیمنٹ اور جمہوری نظام کی مخالفت کرنے والے دہشت گردوں کے حامی ہیں۔ صاحبان، نیکٹا کا غیر فعال ہونا نیشنل ایکشن پلان کی اصل ناکامی نہیں۔ اسی طرح دہشت گردی کے واقعات میں کمی نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کا ثبوت نہیں۔ خود کش بمبار کے سینے پر بارود باندھنے سے پہلے ذہنوں میں بارود بھرا جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان ہمارے ذہنوں میں رکھی بارودی سرنگوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں غیر فعال کرنے میں ناکام رہا ہے۔


نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی اور نجی عسکری تنظیمیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments