دو دھاری تصویر


\"raziدو دھاری تلوار کا ذکر تو ہم نے اور آپ نے بارہا سن رکھا ہے لیکن دور وز سے محفلوں میں ایک تصویر کا تذکرہ جاری ہے اور یار لوگ اسے دو دھاری تصویر قرار دے رہے ہیں۔ پہلے پہل تو ہمیں بھی یہ اصطلاح سمجھ نہ آئی کہ زبان و بیا ن کے معاملے میں ہمارا علم بھی اردو کے پروفیسروں جتنا ہی ہے ۔ آپ اگر اسے طنز نہ سمجھیں تو ہمیں یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ روز مرہ اور محاورے کے معاملے میں ہماری معلومات اس قدر ناقص ہیں کہ ہم اگر محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوتے تو آج کسی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ ہوتے وگرنہ اب تک کسی کالج میں پرنسپل کے عہدے پر تو فائز ہو ہی جاتے ۔ سو جب ہمیں دو دھاری تصویر والی اصطلاح سمجھ نہ آئی توہم نے ایک سیانے سے مدد طلب کی ۔ سیانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اول تو انہیں کوئی گھاس نہیں ڈالتا ا ور اگر کوئی ہم جیسا بھولا بھٹکا اپنی ناقص معلومات کو بہتر بنانے کے لئے ان سے رابطہ کر ہی لے تو وہ اسے ایسے حقارت سے دیکھتے ہیں جیسے تبلیغی جماعت والے مسجد سے نکل کر بے نمازیوں کو یا افطاری کے وقت روزہ نہ رکھنے والوں کو دیکھتے ہیں ۔

سو اس سیانے نے بھی ہماری کم علمی پر پہلے تو کفِ افسوس ملا اور پھر بتایا کہ دو دھاری تلوار کبھی میدانِ جنگ میں استعمال ہوتی تھی ۔ اب زمانہ ترقی کر چکا ہے اور تلوار کا کام میڈیا سے لیا جانے لگا ہے ۔ جنگیں اب میدان میں نہیں سکرینوں اور اخباروں کے صفحات پر لڑی جاتی ہیں ۔ یہ تصویر جسے دو دھاری تصویر کا نام دیا جا رہا ہے چونکہ فوج کے شعبہ¿ تعلقات عامہ نے اخبارات کو جاری کی ہے اس لئے اس کا شمار بھی آلاتِ حرب میں ہوتا ہے اور اسی لئے اسے دو دھاری تصویر قرار دیا جا رہا ہے ۔ ہم نے تصویر دیکھی تو اس میں ہمیں کوئی قابلِ اعتراض بات دکھائی نہ دی ۔ ویسے بھی ہم سیدھے سادھے بھولے بھالے عام سے شہری ہیں ہمیں تو آج تک قابلِ اعتراض بات اور قابلِ اعتراض حالت میں فرق معلوم نہیں ہو سکا ۔ ہم تو صرف ناقابلِ اشاعت کو سمجھتے ہیں اور اس کا 30سالہ تجربہ بھی رکھتے ہیں ۔ لطف یہ ہے کہ ان تیس برسوں کے دوران ہمیں قابلِ اشاعت اور نا قابلِ اشاعت میں فرق بھی معلوم نہیں ہو سکا ۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے بہت سے ناقابلِ اشاعت افکار و خیالات جب کسی اور زبان سے ادا یا کسی اور کے قلم سے رقم ہوں تو وہ قابلِ اشاعت قرار پاتے ہیں ۔ یہی تصویر جس میں وزیرِ اعظم گوادر موٹر وے کے افتتاح کے بعد \"2016-02-05سپہ سالار کے ساتھ فوجی گاڑی میں سوار ہیں اور سپہ سالار بہت وقار اور تمکنت کے ساتھ گاڑی کا سٹئیرنگ سنبھالے ہوئے ہیں ہمارے خیال میں تو اسے نیک نیتی سے ہی شائع کرایا گیا ہے ۔ ایسی ہی کوئی اور تصویر ہوتی جس میں ڈرائیونگ سیٹ پر وزیرِ اعظم تشریف فرما ہوتے تو شاید ہم اسے غیر منطقی قرارر دے کر ناقابلِ اشاعت قرار دے چکے ہوتے ۔ لیکن یہ تصویر تو حقیقت سے بہت قریب ہے اور یہ بھی ظاہر کر رہی ہے حکومت اور فوج ہر محاذ پر قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہے ۔ ایسی صورتِ حال کے لئے آج کل یہ اصطلاح بھی استعمال ہو رہی ہے کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں ۔ سو اس تصویر کے ذریعے ایک واضح پیغام دیا گیاا ن قوتوں کو جو حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کی کہانیاں گھڑتی رہتی ہیں ۔ ویسے بھی اس تصویر میں صا ف نظر آ رہا ہے کہ سپہ سالار نے چند روز قبل مدتِ ملامت میں توسیع نہ لینے کا جو عزم ظاہر کیاتھا وہ اس پر سختی سے کاربند ہیں اور اب ڈرائیونگ پر توجہ دے رہے ہیں ۔ وزیرِ اعظم کا اطمینان بھی ان کے چہرے سے نمایاں ہے اور وہ زیرِ لب یہ بھی گنگنا رہے ہیں ’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے ۔۔ کہیں من کا جام نہ چھلکے‘ ۔

کچھ عاقبت نا اندیش اگر اس تصویر کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ جمہوریت کی گاڑی فوج ہی چلا رہی ہے تواس بھی کوئی حرج نہیں تصویر تو تصویر ہوتی ہے اور ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ جمہوریت کی گاڑی محفوظ ہاتھوں ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments