آخری قہقہہ آصف زرداری کا ہو گا


\"\"23 دسمبر کو آصف علی زرداری کی پاکستان آمد کے وقت ہی رینجرز نے اِن کے اِنتہائی قریبی دوست انور مجید کے دفاتر پر چھاپے مار کر ریکارڈز کو اپنی تحویل میں لیا اور پانچ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ علاوہ ازیں، رینجرز نے زرداری کے منہ بولے بھائی مظفر حسین ٹپی کے دوست کے گھر پر بھی چھاپہ مارا اور تلاشی کے بعد ایک شخص گرفتار کر لیا۔ آثار یہ بتاتے ہیں کہ یہ چھاپے مارنے کا فیصلہ کہیں افراتفری میں کیا گیا ہے، تبھی تو رینجرز نے اپنی \”مصدقہ اطلاعات\” کے عین مطابق یونائنٹڈ بینک اومنی پر چھاپہ دے مارا اور روایت کے عین مطابق وہاں سے اسلحہ بھی برآمد کر لیا۔ جب بینک مینیجمنٹ نے شور مچایا تو پھر انور مجید کے اومنی گروپ کے دفاتر ڈھونڈنے کے بعد چھاپے مار کر بالکل اُسی طرح اسلحہ برآمد کیا گیا، جیسا کہ یونائنٹڈ بنک اومنی سے برآمد کیا گیا تھا۔ یہ بالکل عیاں ہے کہ جانبدار \”بے وقاروں\” کی طرف سے یہ چھاپے زرداری کے لیے ایک واضح پیغام ہیں۔

ماضی میں زرداری کے خلاف تمام مقدمات بنانے والے معافیاں مانگ چکے اور اقرار کر چکے کہ اُنھوں نے جھوٹے مقدمے بنائے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین کے لیے یہ ایک بڑی مشکل صورت حال تھی کیونکہ جب ان سے یہ سوال تکرار کے ساتھ پوچھا جاتا تھا کہ:

کوئی ایک مقدمہ یا الزام جو آصف علی زرداری پر عدالت میں سچ ثابت ہوا ہو؟ مقدمہ بنانے والے یا بہتان تھوپنے والے نے زرداری سے معافی نہ مانگی ہو؟ اقرار نہ کیا ہو کہ مقدمہ یا الزام جھوٹا تھا اور اپنے عمل سے یہ ثابت نہ کیا ہو کہ وہ جھوٹا اور زرداری سچا ہے؟ فقط ایک مثال درکار ہے۔ اِن کے لاجواب ہونے پر جب سوال میں ایک اور آپشن دیا جاتا کہ چلیں یہ بتائیں کہ زرداری نے کبھی کوئی آئین شکنی یا کسی آئینی ادارے کی توہین کی ہو، بھلے اُس ادارے میں بیٹھے ہوئے اشخاص نے زرداری کے خلاف کتنے بڑے غیر آئینی اقدامات کیوں نہ کیے ہوں؟ اِس بارے میں ہی کوئی ایک مثال دے دیں۔

مگر ہزار حُجتوں سے لیس اہلکار ان دونوں آپشنز میں سے فقط ایک مثال بھی نہیں دے سکتے تھے۔ اِس صورت حال میں مئی 2013ء کے الیکشنز کے بعد آئین شکنوں اور ان کے جَمُوروں نے نئی صف بندی کی۔ جس کے بعد قومی اداروں میں بیٹھی کالی بھیڑوں کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی و میڈیائی بھونپو راکھ سے مانجھ کر میدان میں اُتار دیئے۔

سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے سندھ میں صوبائی اِداروں پر غیرقانونی طور پر چھاپے مار کر ہزاروں فائلوں پر ڈاکا مارا، پوری باریک بینی کے بعد کیا نکلا؟ کَکھ نہیں!

زرداری کے سکول کے زمانے سے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم پر جھوٹے مقدمات بنا کر بے پناہ تشدد کے ذریعے اپنے گھناؤنے مقاصد حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی گئیں، جھوٹی پریس ریلیزز اور پریس کانفرنسس کے ذریعے اداروں کی پُرزور توہین کی گئی، لیکن حاصل وصول؟ ذِلت!

میڈیا پر تنویر زمانی کا زرداری سے نکاح رچا کر خُوب پرچار کیا گیا۔ سجاول بھٹو کا اشتہار بھی باکمال انداز میں چلایا گیا مگر چار پانچ سال کے بعد جب تک اِس پروپیگنڈے کی ہانڈی بیچ چوراہے میں نہیں پُھوٹی، طنبوروں نے خوب رش لیا۔

مُدت سے ماڈل آیان کا زرداری سے تعلق جوڑ کر دولے شاہی چُوہوں کے سر میڈیائی شکنجے میں کَس کر باکمال انداز میں برین واشنگ کی جا رہی ہے۔ مگر میناکاری کی زیادتی کی وجہ سے اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ماڈل آیان آئین شکنوں سمیت اِن کے سہولت کاروں کے تھوبڑوں پر آئے روز زناٹے دار تھپڑ رسید کر رہی ہے، جس کی آواز پورے پاکستان میں گُونجتی ہے۔ یعنی یہاں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ اِس معاملے میں سب سے زیادہ بھداُن کی اُڑ رہی ہے جو آئین شکن پرویز مشرف کے سہولت کار ہیں۔

\"\"میمو گیٹ لشکر کے بغیر وردی کے حوالدار پچھلے ایک سال سے منادی کر رہے ہیں کہ زرداری سابق آرمی چیف راحیل شریف کے ڈر کی وجہ سے پاکستان سے بھاگ گیا تھا۔ دراصل یہ جہالت اور مضحکہ خیزی پر مبنی بچگانہ باتیں کر کے آرمی چیف کے ساتھ ساتھ پاک فوج کی بطور ادارہ توہین کرتے ہیں کیونکہ کوئی محب وطن آرمی چیف آئین شکن نہیں ہو سکتا کہ اس طرح ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کے ساتھ غیر قانونی طور پر بدمعاشی کرے۔ یہاں ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کا شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کافی متحرک ہے، جسے اس انداز میں پاک فوج کی توہین کرنے والوں سے قطعی لاتعلقی کا واضح اعلان کرنا چاہیئے۔ اِس کے علاوہ پاک فوج میں تعیناتیوں اور تبادلوں کو اپنی کامیابی قرار دینے اور ایمپائر کی اُنگلی کو دھمکی کا استعارہ بنانے والی سیاسی جماعتوں کے بارے میں بھی پاک فوج کی پوزیشن واضح کرنی چاہیئے۔

آصف علی زرداری کتنے بُزدل یا بہادر ہیں، اس کی تاریخ گواہ ہے۔ کون ہے جو اس بات کا انکار کرے کہ زرداری نے آئین شکنوں اور ان کے حواریوں کو قدم قدم پر مایوس کیا ہے۔ جس نے ہر وار کو مردارنہ وار سینے پر سہا ہے۔ اُنھیں عدلیہ، میڈیا، ملٹری اور حزب اختلاف سے چومکھی لڑنا پڑی۔ یہ زرداری کا تحمل، صبر اور دُوراندیشی تھی جو جمہوریت بچاتی رہی۔ اُنھوں نے ہر اُوچھے وار کو بڑے تحمل سے برداشت کیا۔ آصف علی زرداری تقریباً بارہ برس جیل (عمر قید کا برابر عرصہ) بغیر کسی جُرم کے، صرف انتقامی سیاسی مقاصد کے طفیل کاٹ چکے ہیں۔ اُن کی قید کے دوران کئی حکومتیں بدلیں، کئی وزرائے اعظم آئے اور گئے، کئی چیف جسٹس انصاف کی مسند پر پدھارے اور \”عدل\” بانٹتے ہوئے چلے گئے، لیکن زرداری جیل سے باہر نہ نکل سکے۔

اُنھوں نے تقریباً دو درجن عیدیں اپنے خاندان اور پیاروں سے دور جیل کی تنہائیوں کے ساتھ گذاریں۔ وہ اپنے بچوں کا بچپن نہ دیکھ سکے، قید کے دوران ان کی والدہ سمیت کئی قریبی رشتہ دار وفات پا گئے، لیکن حکومت اور عدلیہ نے انہیں ہردفعہ پیرول پر عبوری رہائی کا حق تک دینے سے انکار کر دیا۔ اسیر زرداری پر دورانِ قید بد ترین غیر قانونی جسمانی تشدد بجائے خود ایک الگ داستان ہے کہ کیسے انھیں ذلت آمیز طریقے سے رات بھر سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ انھیں گھنٹوں کھڑا رکھ کر ان کی آنکھوں میں مسلسل تیز روشنی ماری جاتی تھی۔ انہیں دہشت زدہ رکھنے کے لئے تشدد کے نت نئے طریقے آزمائے جاتے رہے، زبان اور گردن پر کٹ تک لگائے گئے۔ انھیں جیل میں ہی دل کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، مگر آصف علی زرداری فوجی اور سویلین، ہر قسم کی حکمرانوں کے تشدد کا بہادری سے سامنا کرتے رہے۔ اپنی ہر تکلیف صبر، خاموشی، شجاعت اور حُسن توازن پر مبنی عظمت ِکردار سے جھیلی اور کسی لمحے بھی خوف اور ناامیدی کو خود پر طاری نہیں ہونے دیا اور اس طرح اِس مردِ آہن نے مخالفین کو اُن کے مذموم ارادوں میں کبھی بھی کامیاب نہ ہونے دِیا۔ اب بغض کی لپکتی ہوئی زبانیں یہ کہتی ہیں کہ زرداری ایک آرمی چیف سے ڈر کر بھاگ گیا، حیرت سی حیرت ہے۔

یاد رہے کہ زرداری کو آرمی چیف سے ڈر کر بھاگنے کا طعنہ دینے والے وہ ہیں، جو زرداری کے برعکس آئین شکن پرویز مشرف کو پاکستان سے بھگانے میں ذاتی طور پر ملوث ہیں۔ ڈکٹیٹر مشرف آئین شکنی اور قتل ایسے سنگین مقدمات کے سلسلے میں عدلیہ کو درکار ہیں۔ اب تو خیر سے اشتہاری بھی ہو چکے ہیں۔ مزید برآں، زرداری پر بھاگنے کا طعنہ دینے والے ڈکٹیٹر پرویز مشرف پر ایک لفظ بھی نہیں بولتے، جو پاکستان سے جاتے ہوئے وہیل چیئر کے ذریعے جہاز پر سوار ہوئے مگر جب جہاز دبئی اُترا تو موصوف چھلانگیں لگاتے ہوئے ہشاش بشاش اُترے۔ جن کا بیرونِ ملک آج کل ہر روز عید اور رات شب برات ہوتی ہے۔ کیف و سرود اور رقص و نغمے میں مشغولیت کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔

اب تو آئین شکن پرویز مشرف نے بھی اپنے سہولت کاروں کا پیرہن تار تار کر دیا ہے۔ جس کے بعد ایک ایک پردہ نشیں کا نقاب پوری طرح اُترا ہے۔

آثار بتاتے ہیں کہ ماضی کی طرح اب بھی جمہوریت و پاکستان دُشمن آئین شکنوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے عزائم قطعاً پورے نہیں ہوں گے۔ مگر یہ پوری طرح واضح ہے کہ 1967ء سے ذِلت اُٹھانے والوں کے مقدر میں ابھی مزید ذلت باقی ہے۔

یاد رہے کہ اِن ذلتوں کی تاریخ مرتب ہو رہی ہے۔ جیسا کہ تاریخ کا ماجرا ہے کہ یہ اپنے سینے میں کوئی راز چھپا کر نہیں رکھتی۔ آخر کار سب کچھ اُگل دیتی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ ملک دُشمن آئین شکن اپنے معنوی آباؤں کے ساتھ تاریخ کے کُوڑے دان میں پڑے گل سڑ رہے ہوں گے۔ لیکن اِن کے برعکس ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح آخری قہقہہ مردِّ حُر آصف علی زرداری کا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments