نائٹ شفٹ – (امین صدرالدین بھایانی)۔


\"\"

میں ںے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔ جنرل وارڈ کی نیم تاریکی میں اُس کی ہلکے سبز رنگ کی چمکتی سوئیاں تین بج کر بیس منٹ کا وقت دکھا رہیں تھیں۔ \”اوہ، ابھی تو میری ڈیوٹی ختم ہونے میں کوئی چھہ گھنٹے باقی ہیں\”۔ میں نے سوچا۔

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں کراچی کے ڈاو میڈکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے فوراً بعد ہی سول اسپتال میں اپنا ہاوس جاب مکمل کررہا تھا۔ اُس روز بھی میری نائٹ شفٹ تھی اور رات نو بجے میں نے ڈیوٹی جائن کی اور پورے بارہ گھنٹوں کے بعد میری ڈیوٹی آف ہونا تھی۔ میرا شمار ان معدودے چند جونئیر ڈاکڑوں میں ہوتا تھا، جو کہ ڈیوٹی روسٹر پر اپنا نام نائٹ شفٹ میں درج دیکھ کر کبھی بدمزا نہ ہوتے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو میں پورے اسپتال کو وہ واحد جونئیر ڈاکٹر تھا، جسے درحقیقت نائٹ شفٹ میں بطور ڈیوٹی ڈاکٹر کام کرکے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی تھی۔ اِس لیے نہیں کہ میں کوئی کام چور قسم کا انسان تھا اور نائٹ شفٹ سوتے ہوئے یا پھر کوئی ناول یا ڈائجسٹ پڑھ کر اپنی ڈیوٹی پوری کیا کرتا تھا۔ نائٹ شفٹ تو عموماً عملے کی کمی کے سبب زیادہ بڑا دردِ سر ثابت ہوا کرتی اور ڈیوٹی ڈاکٹر کو ہر وقت کسی بھی شبعے میں اچانک وقوع پذیر ہونے والی ایمرجنسی پر فوری طلب کیے جانے کے لیے بھی تیار رہنا ہوتا تھا۔

لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ ہر رات ہی کوئی غیر معمولی ایمرجنسی نکل آئے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ میری ساری رات متعلقہ وارڈوں میں داخل مریضوں کے روٹین چیک اپ اور اس بات کی جانچ پڑتال ہی میں گزر جاتی کہ ڈیوٹی نرس نے شیڈول کے مطابق ہر مریض کو اُس کی ادویات، ٹیکے یا ڈِرپ لگا دی ہے اور کسی مریض کی اچانک حالت خراب ہوجانے پر متعلقہ سینئر ڈاکڑ کو بذریعہ فون اطلاع کروا کر اُن کے آنے تک ہر ممکنہ طور پرحالات پر قابو رکھنے کی کوششیں کرتے اور پھر سینئر ڈاکٹر کے آ موجود ہونے پر انھیں اسسٹ کرتے کرتے ہی گزر جاتی۔

نائٹ شفٹوں کے دوران رات بھر اسپتال کی خاموش و نیم تاریک روشوں میں ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ جاتے ہوئے مجھے ہمیشہ ہی ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے میں زمانہِ حال کے کسی اسپتال کی بجائے کسی عہدِ رفتاء کے پراسرار قلعے میں قائم شاہی شفا خانے کی غلام گردشوں میں دھیرے دھیرے سر جھکائے چلتا ہوا کوئی حکیم یا طبیب ہوں، جسے بادشاہ یا ملکہ کے حکم پر راتوں کو جاگ جاگ کر شاہی خاندان کے کسی بیمار فرد کی نگہ داشت کے فرائض سونپے گئے ہوں۔ اس کیفیت کو اسپتال کی روشوں کی چھتوں پر دور دور نصب کیے گئے اندھیرے میں اپنی زرد زرد روشنی سے نحوست سی پھیلاتے ہوئے وہ بڑے بڑے گلوب نما بلب مزید مہمیز دیتے۔

نیم اندھیرے وارڈ میں مریضوں کی کیفیات کے چارٹوں پر نرسوں کی طرف سے کیے گئے مندرجات کو پڑھتے ہوئے، جب سفید چادریں اوڑھے مریضوں میں سے کوئی سوتے میں دھیرے سے کراہ یا کھانس کر خاموشی کے دامن کو چاک کرتا تو میں یک لخت یوں چونک پڑتا کہ جیسے مجھ پر اُسی لمحے یہ حقیقت آشکارہ ہوئی ہو کہ اِس سارے اسپتال میں صرف میں ہی اکیلا ذی روح نہیں ہوں۔

اُن سارے کاموں سے فارغ ہو کر میں ڈیوٹی روم میں اپنے لیے چائے بنانے کے لیے بجلی کی کیتلی کا پلگ لگا کر کچھ دیر کے لیے اُسے یونھی چھوڑ دیتا اور پانی اس قدر کھول جاتا کہ کیتلی کے منّہ سے بھاپ کے ساتھ ساتھ سیٹی نما شوں شوں شوں کی آوازیں برآمد ہونے لگتیں۔ پھر میں کھولتا ہوا پانی ٹی بیگ والے کپ میں انڈیلتا تو وہ چائے کی تیز مہک اڑاتا ہوا ڈوبتے سورج کی سنہری رنگت اختیار کرلیتا۔ اس میں تھوڑا سا گاڑھا دودھ ٹپکاتا اور جب وہ سنہری رنگت والے چائے کے پانی میں مدغم ہوتا تو بالکل ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے غروبِ آفتاب کے وقت سرخی مائل سنہرے آسمان پر گہرے پردار دودھیا بادل امنڈ رہے ہوں۔

اسپتال کی نائٹ شفٹ کی یہ ہی وہ پراسراریت، سکون و خموشی اور رات کے پچھلے پہر میں بنتی چائے کی تیز مہک تھی جو مجھے بخوشی نائٹ شفٹ کرنے پر اُکساتی تھی۔ بحرحال اُس روز جب میں صبح نو بجے مارننگ شفٹ کے ڈیوٹی ڈاکٹر کو چارج دینے کے بعد شبعہِ ایڈمنسٹریشن میں ڈیوٹی سائن آف کرنے اور اگلے روز کے لیئے روسٹر چیک کرنے پہنچا تو وہاں موجود کلرک نے مجھے دیکھتے ہی کہا: \”ڈاکٹر وحید آپ کے لیے ڈاکٹر انیس الرحمٰن کا پیغام ہے کہ آپ جیسے ہی ڈیوٹی آف کریں فوراً اُن کے پاس پہنچیں\”۔

میں فوراً وہاں سے نکلا اور تیز تیز چلتا ہوا سیدھا پیتھالوجی ڈپارٹ منٹ کی جانب بڑھنے لگا۔ شبعے میں داخل ہوتے ہی میرا رُخ پوسٹ مارٹم روم کی طرف ہوگیا۔ ویسے میں ڈاکٹر انیسِ الرحمٰن کے بلاوے کی وجہ سے کسی حد تک تو سمجھ ہی چکا تھا۔ وہ اسپتال کے چیف پیتھالوجسٹ تھے اور میں نے اُن سمیت سارے ہی شعبہ جات کے سربراہان سے درخواست کر رکھی تھی کہ وہ مجھے میرے فارغ اوقات میں کسی بھی کیس میں مدد کے لیے طلب کرسکتے ہیں۔ اِس سے دراصل میرا مقصد شبعہ طب کے تمام تر پہلو سے ہر ممکنہ طور پر مکمل واقفیت حاصل کرنا تھی؛ کیوں کہ میرا پکا ارادہ تھا کہ میں اپنی ہاوس جاب کی مدت پوری ہونے کے بعد شہر ہی میں کہیں جنرل پریکٹیشنر کے طور پر اپنا ذاتی کلینک کروں گا اور بطور ایک جی پی میری معلومات کو ہر طرح سے وسیع ہونا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے جب کبھی کوئی فارغ وقت میسر ہوتا تو میں کبھی تو سرجن واحدی کے زیرِنگرانی ہونے والے چھوٹے یا بڑے آپریشنز کو آبزرو کررہا ہوتا، تو کبھی شعبہ اطفال کے ان چارج ڈاکٹر نقوی کے پاس جا کر ان سے کسی مریض بچے کا کیس ڈسکس کررہا ہوتا۔ لہذا ڈاکٹر انیسِ الرحمن کے پاس یا تو کوئی مددگار جونیئر ڈاکٹر موجود نہ ہوگا، یا پھر وہ کوئی اہم پوسٹ مارٹم کررہے ہوں گے، کہ جسے دیکھ کر میری معلومات اور تجربے میں کچھ خاص اضافہ ہوسکتا ہے۔ گو کہ میں بارہ گھنٹے کی طویل شفٹ کرکے تھکا ہوا تھا، لیکن بس کچھ نہ کچھ سیکھنے کی لگن مجھے مزید ایک دو اور گھنٹہ اسپتال ہی میں روکے ہوئے تھی۔

میں جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو میری نظر پوسٹ مارٹم ٹیبل پر جھکے ڈاکٹر انیسِ الرحمن پر پڑی۔ اِن کی پیٹھ داخلی دروازے کی طرف تھی اور وہ لاش پر کچھ یوں جھکے ہوئے تھے، کہ انھوں نے لاش کے اوپری حصے کو ڈھانپ لیا تھا اور مجھے صرف لاش کی ٹانگیں اور پیر ہی نظر آرہے تھے۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر ڈاکٹر انیسِ الرحمن مڑے اور ان کے مڑتے ہی لاش کا اوپری حصہ عیاں ہوگیا اور میری نظر لاش کے چہرے پر پڑی اور اُس کے ساتھ ہی میری آنکھوں میں ایک دُھند سی چھا گئی۔

پھر اگلے ہی لمحےاُس دھند میں سے ایک منظر اُبھرا۔ اِس منظر میں تیرہ چودہ سال کے دو لڑکے اسکول کی یونیفارم میں ملبوس کسی ہرے بھرے باغ میں گھوم رہے ہیں۔ منظر زرا صاف ہوا تو میں نے دیکھا کہ اِن دو لڑکوں میں سے ایک لڑکا تو خود میں اور دوسرا مدثر ہے۔ مدثر ابراہیم، میرا کلاس فیلو اور جس پارک میں ہم دونوں گھوم رہے ہیں، وہ کراچی کا چڑیا گھر \”گاندھی گارڈن\” ہے۔ اچانک ہم دونوں ہی کی نظر بیک وقت پاس ہی بنے ایک گول چبوترے پر پڑتی ہے، جس پر ایسبسٹاس کی چھت پڑی ہوئی ہے اور اُس پر لگے بورڈ پر بڑے بڑے حروف میں لکھا ہے \”ممتاز بیگم\”۔ بورڈ کو دیکھ کر مدثر کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی۔ اُس کے قدم بےاختیار اُس جانب اٹھنے لگے اور میں بھی اُس کے ساتھ ساتھ چل پڑا۔ قریب پہنچ کر بورڈ پر لکھی تحریر کے نیچے قدرے چھوٹے حروف میں لکھی سطر پر میری نظر پڑی: \”آدھا دھڑ عورت کا آدھا لومڑی کا\”۔ جب ہم ممتاز بیگم جس کے چہرے پر نہایت ہی گہرا تھیٹریکل انداز کا میک اپ کیا ہوا اور نچلا دھڑ ایک لومڑی کا سا ہے۔ وہ تماشائیوں کی فرمایش پر کبھی اپنی دُم کو اِدھر اُدھر لہراتی تو کبھی اپنی ٹانگوں اور دیگر اعضا کو ہلا ہلا کر انھیں محضوظ کرتی ہے کو دیکھ کر باہر نکلے تو مدثر کے چہرے پر ایک عجب سی سرشاری کی کیفیت ہے۔ باتیں تو وہ مجھی سے کررہا ہے، لیکن اس کی نگاہیں دور کہیں آسمانوں سے بھی پرے نہ جانے کن ان جانی دنیاوں میں بھٹک رہیں ہیں۔ وہ کہ رہا ہے: \”یار وحید، دیکھا تم نے ممتاز بیگم کو ۔ ۔ ۔، وہ کس اعتماد کے ساتھ ہر کسی کے پوچھے گئے سوالات کا اس کی اپنی مادری زبان میں اصلی تلفظ کے ساتھ ہی جواب دیتی ہے۔ دیکھا تو تھا ہی نہ تم نے کہ وہ میمنی، سندھی، گجراتی، پنجابی، پشتو، بلوچی، براہوی، سرائیکی، پوٹھوہاری، ہندکو، بنگالی کیسے فر فر اپنے اصل لہجہ میں بولتی ہے۔ یہی تو ایک اچھے اور مکمل فن کار کی نشانی ہے۔ یار وحید میں بھی ایک فن کار بننا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ !، ایک مکمل فن کار!\”۔

منظر بدلتا ہے، اب ہم دونوں اپنے اسکول کے پرنسپل کے کمرے کے ایک کونے میں کھڑے ہیں۔ پرنسپل صاحب اپنی میز پر براجمان ہیں اور سامنے لگیں کرسیوں میں سے ایک پر میرے ابو اور دوسری پر مدثر کے ابو سر جھکائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمارے چہرے ستے ہوئے ہیں، ایک رنگ آ رہا ہے ایک جارہا ہے۔ پرنسپل ہمدانی صاحب کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہورہا ہے اور طیش کے عالم میں زور زور سے بول رہے ہیں:۔ \”غضب خدا کا ابراہیم صاحب، آپ کے اس آوارہ لڑکے نے تو حد ہی کردی۔ کم بخت خود تو کچھ پڑھتا لکھتا ہے نہیں اور ہمارے اسکول کے ایک ہونہار لڑکے کو بھی اپنے رنگ میں رنگ رہا ہے۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وحید جیسا ہونہار بچہ مدثر جیسے سدا کے نالائق اور کند زہن لڑکے کی باتوں میں آ کر اسکول کا بھگوڑا بن جائے گا\”۔ اتنا کہ کر پرنسپل صاحب اٹھ کر ہماری طرف بڑھے اور تابڑ توڑ تین چار زناٹےدار تمانچے مدثر کے چہرے پر جڑ دیے۔ مدثر کا سارا چہرہ لال ہوگیا۔ پرنسپل صاحب کی یہ حرکت دیکھ کر میرے ابو کی غیریت نے بھی جوش مارا۔ وہ اپنی نشست سے اٹھے اور انھوں نے بھی ایک ایسا چانٹا میرے چہرے پر رسید کیا کہ میں تلملا اٹھا اور میری آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا۔

منظر پھر بدلتا ہے۔ اب ہم اپنے کلاس روم میں موجود ہیں۔ ہمارے کلاس ٹیچر سر طاہرعلی اپنی میز کے پاس کھڑے ہیں اور اُن کے ساتھ ہی مدثر بھی کھڑا ہوا ہے۔ سر طاہر علی کہ رہے ہیں:۔ \”مدثر کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا اور اب تک تو اِس کی نشست اپنے ہی جیسے طالب علموں کے ساتھ رہی ہے لیکن آج سے میں اسے تجرباتی طور پر اپنی کلاس کے ایک ہونہار طالب علم وحید الدین اقبال کے ساتھ بٹھا رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ایسے ہونہار، پڑھاکو اور ذہین طالب علم کی صحبت میں بیٹھ کر مدثر ابراہیم میں بھی تعلیم سے کچھ تو رغبت قائم ہوگی\”۔

منظر پھر بدلتا ہے۔ اردو کے استاد ظفر ہمایوں صاحب درسی کتاب میں سے ایک کہانی کے سیاق و سباق پر بحث کررہے ہیں۔ ان کا انداز ہی کچھ ایسا ہے کہ کلاس کہ ہر بچہ مکمل انہماک کے ساتھ اُن کا ایک ایک لفظ بغور سن رہا ہے۔ مدثر میرے ساتھ بیٹھا ہوا ہے، اس کی نظریں کلاس کی بائیں جانب نصب بڑی بڑی کھڑکیوں سے باہر نظر آنے والے ایک ہرے بھرے درخت پر لگیں ہوئیں ہیں جس پر کچھ پرندے کبھی آکر بیٹھتے تو کبھی اڑ جاتے۔ اُس کا ہاتھ بڑی تیزی اور نفاست کے ساتھ یہ سارا منظر پینسل سے بینچ کے نیچے رکھی اپنی فیوریٹ اسکیچ بک پر منتقل کررہا ہے۔ بے شک اس کا دل پڑھائی میں بھلے ہی نہ لگتا ہو لیکن وہ پینسل اسکیچز ایسے غضب کے بناتا تھا کہ دیکھنے والا بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ مدثر اسکیچ بنانے میں مشغول ہے اور میں اُس کے تیزی سے مکمل ہوتے اسکیچ کو دیکھنے میں، کہ اچانک سر ظفر، مدثر کو اس کی گدی سے پکڑ کر گھسیٹے ہوئے اپنی میز تک لاتے ہیں؛ ایک ہاتھ سے انھوں نے مدثر کی گردن اور دوسرے ہاتھ میں اسکیچ بک ہے۔ سر ظفر اس پر بنے ہوئے اسکیچ کو پہلے تو بڑی ہی طنز بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور پھر اُس کی گردن کو چھوڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی اسکیچ بک کو پھاڑ کر پرزہ پرزہ کردیتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر مدثر کی موٹی موٹی آنکھیں آنسووں سے بھر آتیں ہیں۔ سر ظفر، مدثر کی جانب مڑے۔ اب کی بار اُن کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثار ہیں۔ انھوں نے آو دیکھا نہ تاو اور مدثر پر پل پڑے۔ چانٹے کھا کھا کر اُس کا چہرہ سوج گیا ہے مگر وہ تو پتھر کے بت کی طرح بس مار کھائے چلا جارہا ہے۔

منظر پھر بدلتا ہے۔ میں اور مدثر دونوں ریسیس کے دوران اسکول کے میدان کے ایک گوشے میں لگی بینچ پر بیٹھے ہیں۔ مدثر کا چہرہ اداس ہے۔ میں اُس سے پوچھ رہا ہوں: \”کیا بات ہے آج بڑے اداس نظر آرہے ہو؟\”۔ اس کا لہجہ مایوسی سے لب ریز ہے: \”یار وحید، میرے ابو میری بات مانتے ہی نہیں، میں اُن سے کہہ کہہ کر تھک گیا ہوں کہ میرا جی پڑھائی میں بالکل نہیں لگتا۔ مجھےفائن آرٹس، ڈرائنگ، مصوری اور اداکاری میں بہت زیادہ دل چسپی ہے۔ وہ مجھے کسی اچھےفائن آرٹس اسکول میں داخل کروا دیں، لیکن ان کی ضد ہے کہ نہیں میں نے اِسی اسکول میں رہنا ہے اور پھر کامرس لے کر آگے بزنس ہی سے متعلق تعلیم حاصل کرنی ہے تاکہ میں نہ صرف اُن کے چھوٹے بزنس کو سنبھال سکوں اور اُسے اور آگے لے جاوں اور تو اور ہمارے اسکول کا ایک بھی استاد یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ ہر انسان ایک جداگانہ ذہن اور رجحانات لیے اس دنیا میں آتا ہے۔ جیسے ہر کوئی صادقین، گل جی، چغتائی، محمد علی، وحید مراد اور ندیم نہیں بن سکتا، اسی طرح ضروری نہیں کہ محض ماں باپ اور اساتذہ کے چاہنے ہی سے کوئی ڈاکٹر، انجنیئر، بزنس مین یا سائنس دان بن جائے\”۔

منظر پھر بدلتا ہے۔ اب میں میٹرک کا طالب علم ہوں اور میرے مضامین سائنس سے متعلق ہیں۔ دو سال ہوئے میری اور مدثر کی کلاسیں بدل چکیں ہیں۔ میں سائنس اور وہ کامرس کے شعبے میں جانے کے سبب علاحدہ کلاسوں میں بیٹھتے ہیں۔ میری تعلیم بے حد مشکل ہوچکی ہے، لہذا میری مکمل توجہ تعلیم کی جانب ہے لیکن کبھی کبھار مجھے مدثر کے متعلق اڑتی اڑتی خبریں دیگر ساتھی طالب علموں کے توسط سے مل جایا کرتیں ہیں۔ کبھی کوئی بتاتا ہے کہ اب تو اس نے اسکول کے دیگر چھٹے ہوئے آوارہ لڑکوں کے ساتھ اسکول سے تواتر کے ساتھ بھاگنا شروع کردیا ہے۔ وہ اب بھی پکڑا جاتا ہے لیکن روز روز کی مار اور اساتذہ کے ذلیل کیے جانے کے سبب اس قدر ڈھیٹ ہوچکا ہے کہ اب کسی مار اور تذلیل کا اُس پر کوئی اثر تک نہیں ہوتا۔

منظر پھر بدلتا ہے۔ میٹرک کے بورڈ کے امتحانات میں کوئی تین ماہ ہی کا عرصہ رہ گیا ہے۔ اچانک ایک روز سارے اسکول میں ایک شور سا اٹھتا ہے کہ مدثر کو اسکول کے چند آوارہ، بدخصلت اور چھٹے ہوئے لڑکوں کے ساتھ اسکول سے بھاگ کر سڑکوں پر خواتین کے پرس چھینتے ہوئے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اور پولیس اُسے اور دوسرے لڑکوں کو پکڑ کر اسکول لائی تو شدید غصے کے عالم میں پرنسپل ہمدانی صاحب نے ان سب کا نام ہی اسکول سے خارج کردیتے ہیں۔ پولیس مارتے مارتے اُن سب کو پھر تھانے لے جاتی ہے۔

میں اِنھی مناظر میں کھویا ہوا تھا کہ کسی نے میرا کندھا پکر کر جھنجھوڑا۔ \”وحید کہاں گھو گئے۔ دیکھو یہ پوسٹ مارٹم کا ایک کلاسک کیس ہے۔ اِس نوجوان جس کا تعلق ایک جراِئم پیشہ گروہ سے تھا، جو شہر میں لوٹ مار اور مزاحمت پر قتل تک کردینے سے گریز نہیں کرتے۔ آپسی اختلافات اور چپقلش پر اُس کے اپنے گروہ نے عین اُس کے دل پر گولی مار کر ہلاک کرکے اِس کی لاش کو سڑک پر پھینک دیا۔ لاش ابھی کچھ دیر پہلے ہی لائی گئی ہے\”۔

ڈاکٹر انیسِ الرحمن بول رہے تھے لیکن میرے نگاہیں تو سامنے پڑی مدثر کی لاش پر جیسے گڑی ہوئیں تھیں اور میرے کانوں میں مدثر کہے جملے گونج رہے تھے: \”جیسے ہر کوئی صادقین، گل جی، چغتائی، محمد علی، وحید مراد اور ندیم نہیں بن سکتا اسی طرح ضروری نہیں کہ محض ماں باپ اور اساتذہ کے چاہنے ہی سے کوئی ڈاکٹر، انجنیئر، بزنس مین یا سائنس دان بن جائے\”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments