جب ملا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کو دیے گئے


(پہلا حصہ: طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں)

ملا عبدالسلام ضعیف کی کتاب مائی لائف ود دا طالبان سے تلخیص و ترجمہ

جب ہم پشاور پہنچے تو ہمیں ایک خوب آراستہ دفتر میں لے جایا گیا۔ ایک پشتون ڈیسک کے پیچھے بیٹھا تھا۔ وہ کھڑا ہوا اور اس نے خود کو متعارف کروایا اور مجھے خوش آمدید کہا۔ وہ آئی ایس آئی کے مقامی دفتر کا سربراہ تھا۔

اس نے مجھے بتایا کہ میں ان کے لئے ایک قریبی دوست اور مہمان تھا جس کا وہ بہت لحاظ کرتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس کا کیا مطلب تھا، کیونکہ یہ مجھ پر واضح تھا کہ میں ان کو اس لئے پیارا ہوں کہ جب وہ مجھے بیچتے تو ایک اچھی قیمت پا سکتے تھے۔ وہ انسانوں کے تاجر تھے، جیسا بکروں کے ساتھ ہوتا ہے کہ جتنی بکرے کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اس کا مالک خوش ہوتا ہے۔

رات کے کھانے کے بعد میں نے اس افسر کے ساتھ ہی نماز ادا کی اور ایک آرام دہ کمرے میں لے جایا گیا جس میں گیس ہیٹر، بجلی اور ٹائلٹ تھا۔ مجھے کھانا اور مشروب دیا گیا، حتی کہ قرآن مجید کا ایک نسخہ بھی پڑھنے کے لئے دیا گیا، اور ایک کاپی پینسل بھی۔ دروازے پر تعینات محافظ بہت مددگار تھا اور اس نے رات بھر مجھے ہر وہ چیز دی جس کی میں نے درخواست کی۔

پشاور میں قید کے دوران مجھے سے تفتیش نہیں کی گئی۔ صرف ایک شخص ہی ہر روز آتا تھا جس کو پشتو نہیں آتی تھی اور اس کی اردو مجھے سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ ایک ہی سوال بار بار پوچھتا تھا کہ اب کیا ہو گا؟ میرا جواب ہر مرتبہ ایک ہی ہوا کرتا تھا، ’صرف خدائے بزرگ و برتر جانتا ہے، اور وہی میری قسمت کا فیصلہ کرے گا۔ جو بھی ہوتا ہے اسی کی مرضی سے ہوتا ہے‘۔ ہم سب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے۔

\"\"میری قید کے دوران جو بھی افسران مجھے ملنے آتے تھے وہ میرے ساتھ عزت سے پیش آتے تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مجھ سے کھل کر گفتگو نہیں کرتا تھا۔ وہ مجھے خاموشی سے دیکھتے تھے مگر ان کے چہرے اس سے کہیں زیادہ واضح انداز میں مجھ سے وہ بات کرتے تھے جو ان کے الفاظ کر سکتے تھے۔ ان کے چہروں پر میرے لئے رحم دکھائی دیتا تھا اور ان کی آنکھوں میں آنسو چھلکتے تھے۔

آخر کئی دن بعد میرے کمرے میں ایک شخص آیا جس کے گالوں پر آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ غم سے غش کھا گیا اور شرم سے اس کی بری حالت ہو گئی۔ وہ آخری شخص تھا جو اس کمرے میں میں نے دیکھا۔ مجھے اس کے نام کا کبھی علم نہیں ہوا مگر اس کے فوراً بعد، شاید اس کے جانے کے چار گھنٹے کے بعد، مجھے امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا۔

اس وقت رات کے گیارہ بجے تھے اور میں سونے کی تیاری کر رہا تھا جب اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک شخص اندر داخل ہوا۔ وہ شائستہ انداز میں بات کر رہا تھا اور ہم نے تہنیتی کلمات کا تبادلہ کیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے علم ہے کہ میرے ساتھ کیا ہو گا؟ میں نے جواب دیا کہ مجھے کچھ علم نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ مجھے جلد ہی منتقل کر دیا جائے گا۔ اتنا جلد کہ مجھے فوراً وضو کر لینی چاہیے اور حاجت پوری کر لینی چاہیے۔ کوئی سوال کیے بغیر میں اٹھا اور وضو کر لی۔

پانچ منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ ایک اور شخص اندر داخل ہوا جس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور ایک کالا کپڑا تھا۔ اس نے مجھے ہتھکڑیاں پہنا کر میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ میرے ساتھ ایسا سلوک ہوا تھا۔ جب وہ مجھے عمارت سے باہر لا رہے تھے تو انہوں نے مجھے لاتیں ماریں اور گاڑی کے اندر دھکیل دیا۔ انہوں نے اب تک ایک لفظ بھِی ادا نہیں کیا تھا۔ گاڑی تقریباً ایک گھنٹے تک چلتی رہی اور پھر رک گئی۔ مجھے ہیلی کاپٹر کے پنکھوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ میں ہوائی اڈے پر ہوں جہاں مجھے امریکیوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ کسی نے مجھے پکڑا اور میری کلائی سے میری قیمتی گھڑی اتار لی۔

جب میں ہیلی کاپٹر کے قریب پہنچا تو ایک گارڈ نے میرے کانوں میں سرگوشی کی ’خدا حافظ‘۔ جس انداز سے اس نے یہ کہا تھا اس سے لگتا تھا کہ میں کسی خوشگوار سفر پر روانہ ہو رہا ہوں۔ ہم سب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے۔

ہیلی کاپٹر تک پہنچنے سے پہلے ہی مجھ پر ہر طرف سے حملہ کر دیا گیا۔ لوگوں نے مجھے ٹھڈے مارے، مجھے پر چیخے چلائے اور چاقو سے میرے کپڑے پھاڑ ڈالے گئے۔ انہوں نے میری آنکھوں سے پٹی نوچ لی اور پہلی مرتبہ میں دیکھ پایا کہ میں کہاں ہوں۔ پاکستانی اور امریکی سپاہی میرے گرد کھڑے تھے۔ ان سپاہیوں کے پیچھے میں ایک فوجی گاڑی دیکھ سکتا تھا جس ایک جنرل کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔

پاکستانی سپاہی مجھے دیکھتے رہے جب امریکی فوجیوں نے مارتے ہوئے میرے باقی ماندہ کپڑے میرے بدن سے نوچ ڈالے۔ حتی کہ میں الف ننگا ہو گیا لیکن پاکستانی سپاہی مسکراتے ہوئے مجھے دیکھتے رہے گویا وہ امریکیوں کے اس کریہہ فعل کی داد دے رہے ہوں۔ انہوں نے مجھے امریکیوں کو سپرد کرنے کی رسم میری آنکھوں کے سامنے ہی ادا کی۔ وہ لمحہ میری یادوں میں ایک دھبے کی طرح نقش ہو گیا ہے۔

اگر پاکستانی ان ملحد امریکیوں کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے، تو مجھے کم از کم یہ توقع ضرور تھی کہ وہ یہ اصرار کرتے کہ میرے ساتھ ایسا سلوک ان کی آنکھوں کے سامنے یا ان کے خود مختار علاقے میں نہ کیا جاتا۔

میں ننگا ہی تھا جب کھردرے ہاتھوں والے ایک امریکی نے مجھے گھسیٹ کر ہیلی کاپٹر میں ڈال دیا۔ انہوں نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ ڈالے اور میرے منہ پر ایک ٹیپ لگا کر میرے سر پر ایک کالا کپڑا لپیٹ دیا۔ اس کپڑے کو میری گردن کے ساتھ ٹیپ سے لگا دیا گیا اور مجھے ہیلی کاپٹر کے فرش سے باندھ دیا گیا۔

اس تمام دورانیے میں میں نہ تو چیخ سکا اور نہ ہی سانس لے پایا۔ جب بھی میں سانس قابو میں کرنے کی کوشش کرتا یا ایک طرف ہونے کی کوشش کرتا تو مجھے زور سے ٹھڈا رسید کیا جاتا۔ ہیلی کاپٹر پر میں نے مار پیٹ کا خوف ذہن سے نکال دیا۔ مجھے یقین تھا کہ کچھ دیر میں ہی میری روح میرے جسم کو چھوڑ دے گی۔ میں نے خود کو تسلی دی کہ میں جلد ہی اس تشدد کی وجہ سے مر جاؤں گا۔ لیکن میری خواہش پوری نہ ہوئی۔ سارا راستہ یہ سپاہی مجھ پر چیختے رہے اور مجھے مارتے رہے حتی کہ ہیلی کاپٹر اتر گیا۔ جب تک میں وقت کا شمار کھو چکا تھا۔ ایک فوجی نے مجھے ہیلی کاپٹر سے باہر گھسیٹا۔ باہر کئی فوجیوں نے مجھے مارا پیٹا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مجھے کئی گھنٹوں تک مارتے رہے۔ اس کے بعد وہ فوجی میرے اوپر ایسے بیٹھ گئے جیسے وہ پارک کے بینچ پر بیٹھے ہوں اور مزے سے باتیں کرنے لگے۔

میں دو گھنٹے تک گٹھڑی بنا ہوا فرش پر پڑا رہا اور پھر انہوں نے مجھے گھسیٹ کر ایک اور ہیلی کاپٹر میں ڈال دیا۔ یہ پرانے والے سے زیادہ جدید دکھائی دے رہا تھا۔ فوجیوں نے مجھے ایک سیٹ سے باندھ دیا اور سارے راستے مجھے نہیں چھِیڑا گیا۔ ہیلی کاپٹر بیس منٹ بعد اتر گیا۔ فوجیوں نے مجھے اتار کر چلانا شروع کیا۔ یہ ایک لمبا راستہ تھا، میری آنکھوں پر ابھی بھی پٹی بندھی ہوئی تھی، لیکن میں اپنے ارد گرد کئی لوگوں کے وجود کا احساس رکھتا تھا۔ ایک ترجمان نے مجھے بتایا کہ مجھے سامنے موجود سیڑھیوں سے نیچے اترنا تھا۔ نیچے جا کر آہستہ آہستہ لوگوں کی آوازیں سنائی دینا بند ہو گئیں۔ شاید سیڑھیوں کی چھے منزلیں اترنے کے بعد ہم ایک جگہ رکے اور میرے سر سے کالا تھیلا اتار دیا گیا۔ میرے چہرے سے ٹیپ بھی اتار دی گئی اور میرے ہاتھ کھول دیے گئے۔

میرے ارد گرد چار امریکی فوجی کھڑے تھے اور بائیں جانب مجھے پنجروں کی مانند بنائے گئے قید خانے دکھائی دے رہے تھے جن میں لوگ موجود تھے۔


طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں
گرفتاری کے وقت ملا عبدالسلام ضعیف سفیر نہیں تھے
جب ملا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کو دیے گئے
ملا عبدالسلام ضعیف: امریکی بحری جہاز کا قیدی
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments