بدھو، اور بھوت ودیا (انور جمال انور)۔


\"\"

پارکنگ لاٹ میں گاڑی کھڑی کر کے جب میں واپس آیا، تو وہ اپنی جگہ پر موجود نہیں تھی۔ اُف یہ لڑکی اور اس کی شرارتیں، اب میں اسے کہاں ڈھونڈوں؟ میں نے خود کلامی کی۔ ہم الہ دین پارک کے باہر کھڑے ہوئے تھے یعنی اب وہ نہیں تھی تو میں اکیلا وہاں کھڑا تھا۔ یہ کراچی کی ایک مشہور تفریح گاہ تھی۔ میں نے ادھر نظر دوڑائی جدھر پارک میں ٹکٹیں فروخت ہو رہی تھیں اور تبھی ہماری آنکھیں چار ہو گئیں وہ کھلکھلا کر ہنسی اور ایک ستون کے پیچھے سے نکل آئی۔ یار تمھاری معصومیت کو نظر نہ لگے، میں نے دل ہی دل میں دعا مانگی وہ بلیک کلر کے سوٹ میں تھی، جس پہ قیمتی ستارے اور نگ لگے ہوئے تھے۔ اس کا دُپٹا ہوا میں خوش بوئیں بکھیرتا ہوا، گردن میں حمائل تھا۔ اس کا چہرہ اور کھلی ہوئی بانھوں کا رنگ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ میں نے دو ٹکٹ لیے اور اس کے ساتھ پارک میں داخل ہو گیا۔ یہاں تفریح کا ہر سامان موجود تھا۔

چھوٹے بڑے جھولے، مصنوعی جھیل، کشتیاں، ہوا میں اُڑتی ہوئی چیئر لفٹ، کھانے پینے کی اشیا، جیسے دہی بڑے، گول گپے، بن کباب، برگر اور پتا نہیں کیا کیا۔ بہت سارے جھولے جھولنے اور بہت ساری چیزیں کھانے کے بعد بھی ہم ایک دوسرے کے قریب نہ ہو سکے۔ ہمارے درمیان ایک دیوار سی قائم رہی؛ گو دل چیخ رہا تھا کہ میں بے تکلفی سے اس کا ہاتھ تھام لوں. مگر اتنی ہمت کہاں تھی پھر ایک خوف یہ بھی تھا کہ اگر اس نے ہاتھ جھٹک دیا تو کیا عزت رہ جائے گی۔ بزدل عاشقوں والا احوال تھا میرا۔ پارک میں ایک جگہ ٹھیر کر میں نے سوال کیا. ”تم نے کبھی بھوت دیکھا ہے؟“
”بھوت؟“ اس نے حیرانی سے پوچھا اور حیرانی کے تاثر سے اس کی آنکھیں مزید خوب صورت لگنے لگیں۔
”ہاں بھوت! وہ سامنے دیکھو، وہاں ایک بھوت بنگلا ہے، چلو گی؟“
”چلو یہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔“ اس نے ہامی بھری۔ میں نے پچاس رُپے کے دو ٹکٹ حاصل کیے اور ہم دونوں بھوت بنگلے میں داخل ہو گئے۔ وہاں کچھ مرد و زن اور بچے پہلے سے موجود تھے۔ بھوت بنگلے میں شو شروع ہوا تو لائٹیں بجھا دی گئیں۔ تاہم ایک زیرو پاور کا بلب اندھیرے سے لڑنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ پھر بیک گراونڈ میوزک کے ساتھ ڈراونی آوازیں نشر ہونے لگیں۔ وہ آوازیں واقعی خوف ناک تھیں۔ خود مجھے بھی تھوڑا تھوڑا ڈر لگنے لگا؛ پھر اندھیرے میں کوئی پرچھائیں سی لپکی اور اچانک ایک بھوت نکل کر سامنے آ گیا۔ خواتین اور بچے چیخ مار کر ایک دوسرے سے لپٹ گئے. خود میرے ساتھ ایک وجود آ کے چپک گیا تھا۔ ”یار کیا ہو گیا ہے۔“ میں نے اسے تسلی دی، ”یہ کوئی سچ مچ کا بھوت تھوڑی ہے؛ انسان ہے۔ اس نے ماسک پہنا ہوا ہے بس۔“ میرے سمجھانے پر اس نے ہمت کر کے آنکھیں کھولیں اور بھوت کی طرف دیکھا، ”ارے؟ بھوت کہاں ہے؟“ میں نے بھی حیرت سے دیکھا، بھوت اچانک غائب ہو گیا تھا۔ عجیب طرح کی نظر بندی یا چالاکی تھی۔ کچھ کمال ملگجے اندھیرے کا بھی تھا۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ شاید شو ختم ہو چکا ہے، یکا یک دو اطراف سے دو بھوت نکل کر سامنے آ گئے۔ وہ زور سے چلائی اور مجھ سے کسی بھوت ہی کی طرح چمٹ گئی۔ دو منٹ بعد شو ختم ہو گیا۔ میں اسے لے کر باہر نکلا؛ ”پاگل! اس میں اتنا ڈرنے والی کیا بات تھی؟“ میں نے اسے پیار سے ڈانٹا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چلنے لگا۔

شادی کے بعد جب ہم دوبارہ الہ دین پارک میں آئے تو اسی جگہ رک کر میں نے کہا، ”یاد ہے یہ بھوت بنگلا؟ پچھلی بار تم کتنا ڈر گئی تھیں، کتنی مشکلوں سے میں نے تمھیں سنبھالا تھا! یاد ہے ناں وہ سب کچھ ؟“ آخری جملہ کہہ کر میں نے گویا سارے رومانی مناظر اسے دکھا دییے۔ وہ مسکرانے لگی، کچھ جھینپ سی گئی۔
”ایک بات بتاؤں؟“ اس نے آنکھیں چمکا کر کہا۔
”ہاں بتاؤ؟“ میں نے شوق سے پوچھا۔
وہ بولی، ”اس دن مجھے کوئی ڈر ور نہیں لگا تھا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments