عالم رویا میں قبلہ، مولانا اور منظور وسان


\"\"

ہمارے ایک رشتہ دار مرحوم بہت باکمال آدمی تھے۔ جب بھی ٹبر برادری میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا اور ان سے کوئی رائے طلب کی جاتی یا ان پہ کوئی ذمہ داری ڈالی جاتی تو عموماً اس وقت وہ خاموش ہوجاتا کرتے۔ دراصل انہوں نے ایک ”آستانے“ پر زانوائے تلمذ تہہ کیا تو راہ ِ سلوک کی وہ منزلیں بڑی ہی سبک رفتاری سے طے کرلیں جن تک پہنچتے پہنچتے ” قبلہ“ و ”مولانا“ کو کچھ وقت لگا۔ وہ اگلے دن آتے اور بتلاتے ” ابے ہوری راتی خواب وچ آئے سن تے اوہ ناں حکم فرمایا کہ اس مسئلے وچ تو اینج کر ( ابا جان رات کو خواب میں آئے تھے اور انہوں نے فرمایا تھا کہ متعلقہ مسئلہ مین تم یہ لائحہ عمل اختیار کرو)“۔ سازشی ذہن اس دور میں بھی موجود تھے جو آج کے دور میں بھی ہیں۔ ہمارے سازشی ناعاقبت اندیش رشتہ دار اس ابا جان کے ” عالمِ رویا“ والے سلسلہ ہدایت پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا کرتے اور وہ اس خواب اور رشد و ہدایت کا منبع موصوف کی ”بیوی“ کو گردانتے۔ ان کے خیال میں بیوی کی ہدایات اور احکامات کو موصوف ” ابا جان کے خواب“ کی شکل دے دیتے ہیں۔

ویسے بھی ” گھر دا پیر ہولا ہوندا اے“ ( گھر کے پیر کی قدر کم ہوتی ہے) یعنی عموماً لوگ اپنے عزیز و اقارب کو وہ مقام نہیں دیتے اور نہ انہیں تسلیم کرتے ہیں۔ ( میرا موقف ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ صاحب کی اصلیت پہنچاتے ہوتے ہیں اسی لئے متاثر نہیں ہوتے)۔

قبلہ ( کِی بَلا ) کے خوابوں اور عالم میں رویا میں حصول علم و فیض سے متاثر ہوکر غالباً مولانا نے بھی سوچا کہ اس سے اچھی حکمت عملی کیا ہوسکتی ہے۔ نہ کوئی پکڑ نہ کوئی سوال۔ صاحب خواب، خواب یوں بیان فرماتے کہ جیسے سب حقیقت مین پیش آیا ہو اور دوسروں پر یہ تاثر بھی پوری طرح سے قائم ہو کہ ان کا خواب درحقیقت ایک اعجاز و کرامت سے کم نہیں۔ اور ان کی دسترس اس قد ر دراز ہے کہ ” ٹائم اینڈ اسپیس“ سے بالاتر، گذرے اور آنے والے کل پر یکساں گرفت، اِس اور اگلے جہان کا علم اتنا کامل ہے کہ بوقت بیان یوں ہی محسوس ہو کہ بس عین الیقین۔ پر نور چہرے، مخصوص دلننشین لہجے، دھیمی آواز، احتیاط سے چنے الفاظ، ہائے ہائے کون کافر ہے جو یہ گمان بھی کرے کہ خواب تو نامکمل خواہشات، دن بھر سوچی باتوں کا ملغوبہ، کیمیکل لوچا سے لے کر ذہنی و نفسیاتی عارضہ اور فتور تک بھی ہوسکتا ہے۔

میں نے خوابوں اور ان سے جڑی تعبیروں کو کبھی سنجیدگی سے نہ لیا تھا اور بیان کبھی اس لئے نہیں کیا تھا کہ اگر اسے سنسر کرتا تو پیچھے کچھ نہ بچتا۔ اور اب خوابوں پر PG تو لاگو ہونے سے رہی۔

مجھے اکثر قلق رہتا کہ اگر قبلہ و مولانا کے خوابوں کی حقانیت پر بند آنکھوں سے یقین کیا جا سکتا ہے تو بیچارہ منظور وسان ہی کیوں ملعون و مطعون اور تشنیع کا شکار ہوتا ہے۔ میڈیا اس کے خوابوں کا ہی مذاق کیوں بناتا ہے۔ کیا صرف اس لئے کہ اس کی لمبی داڑھی، مذہبی جماعت سے تعلق یا مدرسے کی تعلیم نہیں؟

لیکن اچانک کل ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مجھے ہلا کے رکھ دیا۔ میں نے مولانا کے تین چار خوابوں والے بیان سنے اور میں رات ”موت کا منظر مع مرنے کا بعد کیا ہوگا؟ ” پڑھتے پڑھتے سوگیا، کیا دیکھتا ہوں کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اعمال نامے پکڑ آئے جارہے ہیں۔ وہاں میری لائن میں قبلہ و مولانا بھی کھڑے ہیں۔ مجھے باقی باتیں بھول گئیں اور شدید حیرت ہوئی کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کہاں مجھ سا عصیاں کار و گناہ گار اور کہاں ان جیسی پاکیزہ و متبرک شخصیات، یہ ہم سب کو ایک ہی لائن میں کیوں حاضر کردیا گیا ہے؟ میں نے ہمت پکڑی اور دوزخی فرشتے سے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ جناب یہ دونوں کیوں ”لائن حاضر“ ہیں تو اس نے خلاف توقع مسکرا کر جواب دیا ” ان کیخلاف امام ابو حنیفہ، حوروں آور قائداعظم نے مبالغے اور دروغ گوئی کا مقدمہ کیا تھا جو یہ ہار گئے۔ میں نے پھر سوال کیا تو منظور وسان کا کیا ہوا؟ فرشتہ بولا لوگوں کو ہنسانے کا ثواب اتنا ملا کہ اسے جنت میں وزیر ظرافت و داستان گوئی لگا دیا گیا ہے۔ خوابوں کا کیا ہے، وہ تو ہمیں بھی آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments