ظلم سرِعام کیا جا رہا ہے (صداقت حسین)۔


\"\"

مجھے اب بھی اس کی چیخوں آہوں پکار کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، عورت کے ساتھ ظلم کی داستان یقیناکوئی آج کی بات نہیں، صدیوں سے یہ ظلم بے ہنگم انداز میں کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا آیا ہے، کچھ لوگ اس کو جہالت کا نام دیتے ہیں، کچھ لوگ اسے ذہنی امراض سے منسلک کرتے ہیں، ایسے ظالمانہ رویوں کی بات کی جائے تو یہ انفرادی اور معاشی تربیت کی وہ بدترین مثال ہے، جو معاشرے کے با اثر ترین عوامل کی وجہ سے پھلتی پھولتی ہے۔

ماہرین کے مطابق انسان وہ کچھ کرتا ہے، جو اس نے دیکھا، سنا، سمجھا اور سیکھا ہوتا ہے، یقینا پھر جو دکھایا اور سنایا جاتا ہے، اس کا سب سے زیادہ اور گہرا اثر ہوتا ہے، جیسے آج کل ہمیں جو جو دکھایا جارہا ہے وہ دیکھنے کے ہرگز قابل نہیں اور جو میں نے دیکھا وہ تو یقینا کسی کی بھی طبیعت، مزاج، حواس اور سوچ پر گراں گذرے۔

پروگرام سر عام میں ایک مظلوم بیوی کی داستان دکھائی گئی، جس کے چہرے پر زخموں کے اتنے گھاؤ تھے کہ اب وہ گہرے نشان بن چکے تھے اور اس ہر نشان کی نشاندہی کے لئے ایک رینیکمنٹ ڈاکومینٹری بھی پیش کی گئی جس میں ظلم کے طور طریقوں سے عوام الناس کو بخوبی آگاہ کیاگیا، کہ کیسے زنجیروں سے جکڑکر عورت ذات کو جبر کے سنگین مراحل سے گزارا جاتا ہے، ہاتھوں، لاتوں، اور دیگر آلات سے چوٹ کیسے پہنچائی جاسکتی ہے۔

رینیکمنٹ کے ساتھ ساتھ اس مظلوم اور معصوم عورت کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا، بار بار ایسے سوالات کیے گئے جس سے اس کے زخموں کو کریدا جا سکے، اس کے روتے چہرے، کٹے ہوئے بالوں کو بار بار زوم کر کہ دکھایا جاتا، ناجانے اس عورت کے چہرے کو دنیا کے سامنے منظر عام پر لانے سے کیا مقصود تھا اور اس طرح کی دل دہلانے والی رینیکمنٹ اور ایسے سفاک سوالات سے کون سا انصاف مل سکتا تھا؟ ہاں البتہ اب وہ دنیا کے سامنے ہمیشہ ظلم کی ایک داستان کا منظر ضرور پیش کرے گی، لوگ اسے ترس کی نگاہوں سے ضرور دیکھیں گے، ہوسکتا ہے یہ سب کرنے سے اسے عالمی شہرت بھی مل جائے مگر کیا آج کے بعد وہ ایک عام زندگی گزار پائے گی؟

دوسری جانب سر عام چھاپے کے بعد اس کے شوہر اور ظالم صفت انسان کو عوام کی عدالت میں پیش کردیا گیا، جی عوام کی عدالت؟ جو آن دی اسپاٹ انصاف فراہم کرنے میں مشہور ہے، درگت لگانے کے بھی بھرپور شاٹ دکھائے گئے، نیز تشدد کرنے کے کسی بھی کلپ کو رائیگاں جانے نہیں دیاگیا۔

آخر میں اس واقع کا کریڈیٹ دیا گیا ایک سماجی رہنما کو جن کا نام لے کر میں ان کی شہرت جو کہ مورننگ شوز اور کرائم شوز میں خواتین کی ایسی کہانیاں پیش کرنے سے بڑھی ہے مزید نہیں بڑھانا چاہتا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جرائم کی تمثیل کاری اور کرائم شوز پر پیمرا نے پابندی بھی عائد کی تھی، جس پر اب تک عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اور رہی بات ان کرائم شوز کی جو کہ مظلوموں کا چہرہ دکھاتے ہیں، وہ ان پر ظلم سے کم نہیں، عوام کو تو تشدد دکھانے کا عادی کیا ہی جا چکا ہے، مگر ایسا مظلوم جسے پہلے ہی اتنی درندگی کا شکار کیا گیا ہو، اس کے لئے معاشرے میں ہمیشہ کے لئے ایک مظلوم ہونے لیبل لگانا بھی کوئی خاطر خیر بات نہیں اور یہ عمل قانون کے بھی منفی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments