انصاف کے تقاضے اور گھاٹے کا سودا


\"\"سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ کوئی دباؤ قبول نہیں کرے گی۔ نہ اس کی شفافیت پر کسی کو انگلی اٹھانے دی جائے گی اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی لحاظ کیا جائے گا۔ یہ باتیں انہوں نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سلور جوبلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہیں جہاں وکلا نواز شریف کی حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ نامزد چیف جسٹس نے وکیلوں سے اپیل کی کہ وہ ہڑتالیں کرنے اور عدالتوں کے کام میں مداخلت کرنے کی بجائے اپنا کام ذمہ داری اور محنت سے انجام دیں اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں۔ یہ گفتگو اس پس منظر میں بے حد اہمیت رکھتی ہے کہ سپریم کورٹ پاناما پیپرز کے حوالے سے نواز شریف اور ان کے اہل خاندان کے خلاف مقدمہ کی سماعت کر رہی ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے گزشتہ سماعت کے دوران واضح کر دیا تھا کہ نئے سال میں نئے چیف جسٹس نیا بنچ بنائیں گے اور اس مقدمہ کی سماعت از سر نو ہو گی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب تک جو دلائل اور شواہد عدالت کے سامنے پیش کئے گئے ہیں، انہیں ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا بلکہ فریقین کو دوبارہ اپنا مقدمہ پیش کرنا پڑے گا۔ اس دوران قومی اسمبلی سے لے کر سیاسی جلسوں تک میں نامزد چیف جسٹس کی جانبداری پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے جسٹس ثاقب نثار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے گزشتہ دنوں وزیراعظم کے ایک بیان کے خلاف تحریک التوا اور تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’اب چیف جسٹس بھی اپنا آ رہا ہے‘‘۔ یہ واضح طور سے جسٹس ثاقب نثار کی بطور چیف جسٹس نامزدگی کی طرف اشارہ تھا حالانکہ وہ سپریم کورٹ کے اپنے طے کردہ سنیارٹی کے اصول کے مطابق عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ انہیں وزیراعظم نے نامزد نہیں کیا ہے۔ اسی قسم کی بات تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی کہی ہے کہ مجھ پر فوج کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کا الزام غلط ہے۔ بلکہ وزیراعظم کی صاحبزادی ’’طوفان گزر گیا‘‘ جیسے ٹوئٹ کر کے یہ تاثر دے رہی ہیں کہ اب ملک میں آرمی چیف اور چیف جسٹس حکومت کے حامی ہیں۔

اس سیاسی ماحول میں آرمی چیف کے کردار پر انگلی اٹھانے کا حوصلہ تو کوئی سیاستدان نہیں کرے گا لیکن سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کر اپنی مرضی کے فیصلے نہ دینے پر ’’مشتبہ‘‘ قرار دینے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں ہی ماضی میں اس قسم کی حکمت عملی اختیار کرتی رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو علی الاعلان پیپلز پارٹی کا دشمن قرار دیتی رہی ہے۔ اسی طرح جب سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کی کارروائی کو نظر انداز کرتے ہوئے عمران خان کی طرف سے چار حلقوں میں ووٹوں کی از سر نو جانچ پڑتال کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا تھا تو عمران خان افتخار چوہدری کی ’’ناانصافی‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے تھے۔ پیپلز پارٹی پاناما پیپرز کے معاملہ میں براہ راست عدالت میں فریق نہیں۔ اس نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی طرح سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں حل کرنا چاہتی ہے۔ اسی لئے بلاول بھٹو زرداری کے چار مطالبات میں پاناما پیپرز کی تحقیقات سے متعلق سینیٹ سے منظور شدہ بل کی قومی اسمبلی میں منظوری کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کی مرضی کے بغیر قومی اسمبلی سے یہ بل منظور نہیں کروا سکتی۔ اس طرح پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف پاناما پیپرز کے حوالے سے وزیراعظم پر بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کےلئے علیحدہ علیحدہ طریقے اختیار کرنا چاہتی ہیں۔

تحریک انصاف نے ساری امیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ کی ہوئی ہیں اور عمران خان اعلان کر رہے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے انصاف نہ دیا تو ہم پھر سے سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ عدالت اس معاملہ پر فیصلہ دینے کی مجاز نہیں ہے یا فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ لہٰذا اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ قواعد پر مبنی بل کو قومی اسمبلی میں منظور کرکے قانون بنایا جائے اور اس کے تحت تحقیقاتی کمیشن قائم ہو۔ مسلم لیگ (ن) اس بل کی مخالفت کر رہی ہے کیونکہ اس کے خیال میں یہ قانون صرف وزیراعظم پر الزامات کا ذکر کرتا ہے اور ملک میں کرپشن کرنے والے سب لوگوں کا احاطہ نہیں کرتا۔

ان حالات میں جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس بننے کے بعد پاناما پیپرز کے مقدمات پر غور کرنے کےلئے بنچ قائم کریں گے۔ یکم نومبر کو سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کی سماعت کا فیصلہ کرتے ہوئے اشارہ دیا تھا کہ وہ اپنے طور پر بااختیار کمیشن قائم کرنے اور الزامات کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس کمیشن کے اختیار کو کوئی چیلنج نہیں کر سکے گا۔ اس کے قواعد و ضوابط بھی سپریم کورٹ ہی مقرر کرے گی۔ لیکن دسمبر کے شروع میں اس حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران جب عدالت نے فریقین سے کمیشن قائم کرنے کے بارے میں براہ راست سوال کیا تو حکومت نے تو عدالت کا ہر فیصلہ ماننے پر رضا مندی ظاہر کی لیکن عمران خان کا تقاضہ ہے کہ سپریم کورٹ خود ہی فیصلہ صادر کرے۔ اب وہ تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ سے فیصلہ کرنے کے مطالبہ کا مقصد ہی یہ ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ پاناما پیپرز کی فراہم کردہ معلومات ’’مصدقہ‘‘ ہیں اور ان کے مطابق نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاناما پیپرز سامنے لانے والا انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس ICIJ بھی یہ دعویٰ نہیں کرتا اور نہ ہی قانون کا کوئی طالب علم اس دعویٰ کی تائید کر سکتا ہے۔ لیکن تحریک انصاف اور عمران خان کی قانونی تفہیم کے مطابق اگر سپریم کورٹ ان شواہد کی موجودگی میں بھی نواز شریف کو نااہل قرار دینے میں ناکام رہتی ہے تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔

نامزد چیف جسٹس کو ایسے سیاسی ماحول اور بعض سیاسی لیڈروں کی حد سے بڑھتی ہوئی توقعات کی روشنی میں پاناما پیپرز کے مقدمہ پر کارروائی کرنا ہوگی۔ اگرچہ موجودہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی واضح کر چکے ہیں کہ عدالت ہی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ وہ کمیشن بنائے یا خود فیصلہ صادر کرے۔ ان انکشافات میں سامنے آنے والے الزامات کو ثابت کرنے کےلئے تحریک انصاف ٹھوس اور قابل قبول ثبوت اور شواہد سامنے لانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ چونکہ پاناما پیپرز کی معلومات کو ہی حتمی دلیل مانتی ہے، اس لئے اس نے تو اپنی دانست میں یہ مقدمہ جیت لیا ہے۔ دوسری طرف نواز شریف اور ان کے اہل خاندان بھی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کےلئے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگرچہ اب بھی ان کے پاس موقع ہوگا کہ وہ لندن میں خریدے گئے فلیٹس کی قیمت اور خریداری کے حوالے سے ساری معلومات دستاویزی شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کر دیں۔ اگر ایسا نہ کیا جا سکا تو نواز شریف کےلئے تو مشکل ہوگی ہی لیکن سپریم کورٹ کےلئے بھی اس مشکل سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ عدالت اگر کمیشن قائم کرے گی تو تحریک انصاف اسے حکومت نوازی کو نام دے گی اور اگر کوئی فیصلہ دینے کی کوشش کرے گی تو شواہد کی عدم موجودگی میں کوئی بھی فیصلہ یک طرفہ کہلائے گا۔ قانون کے مطابق شک کا فائدہ اپنا دفاع کرنے والے (یعنی نواز شریف اور ان کے بچے) کو دینا پڑے گا لیکن یہ قدم اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ جانبداری کا الزام قبول کرنے پر مجبور ہوگی۔

اس حوالے سے ایک اہم معاملہ قومی اسمبلی میں نواز شریف کا بیان ہے۔ وزیراعظم کے وکیل اور وزیر اسے سیاسی بیان قرار دے کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا بیان مکمل سچائی کا پرتو نہیں ہو سکتا۔ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو ملک کی پارلیمنٹ اور سیاسی نظام ناقابل اعتبار ہو جائے گا۔ پھر جمہوریت کے فروغ اور تحفظ کی باتیں بے معنی ہو کر رہ جائیں گی۔ اسپیکر قوی اسمبلی سردار ایاز صادق ابھی تک اس معاملہ پر بحث کروانے سے اجتناب کر رہے ہیں لیکن یہ رویہ وزیراعظم کی سرخروئی کی بجائے ان پر شکوک میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ وزیراعظم قومی اسمبلی میں اپنے بیان کی وضاحت کریں، اپوزیشن کے سوالوں کے جواب دیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ انہوں نے ایوان میں ’’جھوٹ‘‘ نہیں بولا تھا۔ یہ اقدام پارلیمنٹ کے تقدس کی حفاظت کے علاوہ سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران خود کو سچا ثابت کرنے کےلئے بھی ضروری ہوگا۔ اگر تحریک انصاف سپریم کورٹ کے ججوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا تھا یا پورا سچ نہیں بتایا تھا تو پاناما پیپرز کے مقدمہ کا فیصلہ جو بھی ہو، نواز شریف سیاسی لحاظ سے اپنا مقدمہ ہار جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ 2018 کئ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو ہی پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں حاصل ہو جائیں لیکن پاناما پیپرز کے حوالے سے ملک کے عوام کی اکثریت انہیں غلط ہی سمجھے گی۔

وزیراعظم کےلئے اس مشکل سے نکلنے کا ایک تیر بہدف حل یہ ہو سکتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے چار مطالبوں کو قبول کرلے اور اس قانون کو اسمبلی میں منظور کر لیا جائے جس کے تحت پاناما پیپرز کی تحقیقات کمیشن کے حوالے کی جا سکتی ہیں۔ اس صورت میں سپریم کورٹ سے پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہوئے پاناما پپپرز پر کارروائی روکنے کی درخواست کی جا سکے گی۔ لیکن اس صورت میں بھی نواز شریف پر پارلیمنٹ میں مکمل سچ نہ بولنے اور لندن فلیٹس کی خریداری کےلئے وسائل کی فراہمی کے حوالے سے شبہات موجود رہیں گے۔

پورا سچ بتانے سے ہو سکتا ہے وزیراعظم کی سیاسی حیثیت متاثر ہو لیکن اگر وہ ایسا حوصلہ کر سکیں تو ملک کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایسے فیصلے گھاٹے کا سودا سمجھے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments