ڈاکٹر عبد السلام اور پانی سے چلنے والی کار ….


\"\"قوموں کی تقدیر کے فیصلے کے اندر سائنس کا کردار شہنشاہ جہانگیر کے زمانے سے شروع ہوا۔ بادشاہ سلامت سر درد کا شکار ہوئے تو انگریز معالج نے ایلو پیتھک دوائی کے ذریعے ان کا علاج کیا۔ معالج ایک قوم پرست اور اجتماعی سوچ کا علمبردار تھا لہذا معاوضے کے طور پر سونے، چاندی، زیورات یا نقد رقم کی بجائے اپنی قوم کے لئے کاروبارکی اجا زت مانگی۔ پھر چشم فلک نے وہ دور بھی دیکھا جب ایک لاکھ انگریز مہاجر ہندوستان پر قابض ہوئے اور کروڑوں مسلمانوں کے اوپر حکومت کی۔ یہ قریباً اس دور کی باتیں ہیں جب سراج الدولہ بنگال کے اوپر حکومت کے دوران دن کے 12 بجے اٹھتے تھے اور رات کنیزوں اور لونڈیوں کے بیچ گزارتے تھے اور ان کے بر عکس لارڈ کلائیو دن چڑھنے سے پہلے گھوڑے پر سوار ہوتے اور رات کی تاریکی میں اترتے تھے۔کچھ بے قرار سانسوں اور تڑپتی روحوں کے سبب اللہ کا نظام ایک بار پھر حرکت میں آ گیا اور 14 اگست 1947 کو مسلمانوں کے لئے زمین کا ٹکڑا الگ کر دیا گیا۔

یہاں مقصد تاریخ بیان کرنا نہیں بلکہ مسلمانوں کے رویوں کو بالعموم اور مسلمان بادشاہوں کا بالخصوص تجزیہ کرنا مقصود ہے۔اور عروج و زوال کے اس سفر اور ادوار کو دلائل کی روشنی میں بیان کرنا مطلوب ہے تا کہ حقائق کو سامنے لایا جا سکے۔

آج اسلامی دنیا کے اندر اس سرزمین کو منفرد مقام حاصل ہے۔ آج اگر اس سرزمین کے باسی عراق ، شام، فلسطین، \"\"افغانستان اور دوسرے کئی اسلامی ممالک کے برعکس بے خوف و خطر زندگی گزار رہے ہیں تو اس میں بھی سائنس کا ہی کردار ہے۔ اس اسلامی ملک کا ایٹمی طاقت ہونا ہی مخالف قوتوں کو کسی بھی کارروائی سے پہلے ہزار دفعہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس سائنسی دور کے اندر سائنسی ہیروز کے بارے میں صحیح معلومات بھی ایک ضروری امر ہے۔کسی کے عقائد و نظریات کی بنیاد پر اگر ان کے سائنسی کارناموں اور خدمات سے انکار کیا جائے تو یہ سراسر نا انصافی اور زیادتی ہے اور تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ جی ہاں میری مراد ڈاکٹر عبد السلام ہے جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی تھے اور جنہوں نے اس پروگرام کی بنیاد رکھی۔ 1960 ءسے 1974 ءتک کے اس چودہ سالہ عرصے کے دوران ان کے فیصلوں اور حکمت عملیوں کا پھل ابھی تک ہم کھا رہے ہیں۔ آج پاکستان دنیا کے نوایٹمی طاقت والے ممالک کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔

جنرل ایوب خان کے دور میں ڈاکٹر عبدالسلام کو ایٹمی پروگرام کا بیڑہ حوالے کیا گیا۔ اس دور میں ایٹمی افزودگی\"\" کا پلانٹ (nuclear enrichment plant )  کینیڈا کے پاس تھا اور اس پلانٹ کو حاصل کرنا ڈاکٹر عبدالسلام کے بغیرمشکل نہیں بلکہ نا ممکن تھا۔ ڈاکٹرصاحب انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایسوسی ایشن (IAEA)کے ممبر تھے اور اس پلانٹ تک رسائی اور اس کے حصول کا واحد ذریعہ تھے۔ 1965ء میں اس پلانٹ کے حوالے سے ڈاکٹر سلام کی سرپرستی میں پاکستان اور کینیڈا کے درمیان جوہری توانائی میں تعاون (Nuclear energy co-operation) کے سودے کے معاہدے کے اوپر دستخط ہوئے اور اسی سال امریکہ پاکستان کو چھوٹا تحقیقی ری ایکٹر (Research reactor) دینے پر راضی ہو گیا۔

ڈاکٹر ریاض الدین (جو ڈاکٹر عبد السلام کے شاگرد تھے) بھی اس پروگرام کا حصہ رہے اور جن کے ذمے نیوکلیئر افزودگی سے متعلق mathematical modelling کا کام حوالے تھا۔ ڈاکٹر ریاض الدین 1974ء سے 1984 ء تک پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC)میں غیر عملی طبیعات (Theoretical physics) گروپ کے ڈائیریکٹر کے حوالے سے خدمات سر انجام دیتے رہے۔

یہاں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کو بالکل بھی فراموش نہیں کیا جا رہا۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان اس میدان میں 1974ء کے بعد اترے جب کہ اس حوالے سے ابتدائی کام 1960 ءسے شروع ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر سلام کے حوالے سے ہمارے انکار کرنے سے حقائق تبدیل نہیں ہوں گے بلکہ سائنسی دنیا اور خصوصاً طبیعات کے میدان میں ہر سائنس دان اور ہر سائنس کا طالب علم ان کے سائنسی کارناموں کا قائل اور معترف ہے۔

ڈاکٹر صاحب وہی شخصیت ہیں جن سے جنوبی کوریا کے صدر نے درخواست کی کہ ہمارے سائنس دانوں کو نوبل\"\" پرائز جیتنے کے حوالے سے ایک تقریر کریں اور ان کو تربیت دیں تا کہ ہمارے سائنس دان آپ کو دیکھیں اور ان کی حوصلہ افزائی (Motivation) ہو کہ تیسری دنیا کا یہ سائنس دان اگر نوبل انعام جیت سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی کے سائنسی کارناموں یا سائنسی علم کو پرکھنے والے حضرات خود میٹرک اور انٹر لیول کے سائنس اور خصوصاً طبیعات کے علاوہ جدےد طبیعات سے ناواقف ہیں اور جو صحافت کی روشنی میں سائنس دانوں کے سائنسی علوم اور خدمات کے اوپر تجزیہ کرتے ہیں ۔

رہی بات غداری اور مخبری کی تو ایران، شمالی کوریا اور لیبیا کو ایٹمی پروگرام کے حوالے سے علوم اور مواد فراہم کرتے وقت تو ڈاکٹر عبد السلام ملک میں ہی نہیں تھے! آیا ان مذکورہ ممالک کو ٹیکنالوجی ہماری طرف سے دی بھی گئی تھی یا نہیں؟ اور اگر دی ہے تو کس نے دی؟ کس کے کہنے پر دی؟ اور اس کے بدلے ملک کو کیا ملا؟ اور اگر نہیں دی گئی تو صدر مشرف کے دور میں پاکستان ٹیلی وژن پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو معافی مانگنے پر کیوں مجبور کیا گیا؟ اس حوالے سے وضاحت اور مستند معلومات وہی حضرات فراہم کر سکتے ہیں جن کو اس معاملے کی پوری معلومات ہیں اور جو با لواسطہ اور بلا واسطہ اس میں شامل رہے۔

قوم کو اصل سائنسی ہیروز کے بارے میں نا بتانے کی بدولت پانی سے چلنے والی گاڑیوں کے انجن بنانے والے، جیل سے بھاگے ہوئے مجرم ، دفتر سے بھاگے ہوئے کلرک اور فراڈیے ہی ملک کے ہیرو ہوں گے اور اداروں کو جہالت کی یونیورسٹیاں کہنے والے رہنماء بھی ان فراڈیوں کے ہاتھوں سادہ لوحی کا شکار ہوتے رہیں گے ۔

یہاں یہ بتانا ضروری سمجھوں گا کہ میں ایک مسلمان ہوں۔ اللہ کو وحدہ لا شریک اور حضورؐ کو آخری نبی مانتا ہوں۔

( محمد نعمان کاکا خیل کینگ پوک نیشنل یونیورسٹی جنوبی کوریا میں پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر ہیں جب کہ یونیورسٹی آف واہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments