اے سالِ کہن، تیرا شکریہ


\"\"

ویسے اسے خود کلامی کہا جاسکتا ہے؛ یوں بھی جب سے ہمیں انٹر پرسنل کمیونیکشن کے بارے میں معلوم پڑا ہے، اپنا آپ ہیمنگوے کا کوئی کردار سا لگنے لگا ہے، جو دریا کی لہروں پر ڈولتی کشتی میں بیٹھا یا کسی پہاڑ پر چڑھتا خود سے باتیں کرتا ہو؛ روز شب کے قصے ماہ و سال کی باتیں.

لکھنے کو تو یہ خط ہم خود کو بھی لکھ سکتے تھے. نہ صرف لکھ، بل کہ اپنے ہی نام پوسٹ بھی کرا سکتے تھے، لیکن اب آپ ہی کہیں کیا اچھا لگتا ڈور بیل بجنے پر ہم دروازہ کھول آنے والے کو گھورنے کا شغل فرما رہے ہوتے؟ اور وہ کہتا، ”سحرش عثمان صاحبہ کا خط آیا ہے۔“ پوچھتے کس نے بھیجا ہے، تو جواب ہوتا، ”سحرش عثمان صاحبہ نے۔“ ایسے بندہ تھوڑا سا شوخا لگتا ہے— نہیں؟
لہذا ہم نے فیصلہ کیا، یہ دل کی کتھا؛ جانے والے سال کے نام خط لکھ کر بیان کی جائے۔ ایسے بندہ سیریس قسم کا کنسرنڈ رائٹر بھی تو لگتا ہے. سیریس تو خیر ہم یوں بھی بہت ہیں، جیسا کہ آپ سب لوگوں کو اندازہ ہے.

سو! پیارے دو ہزار سولہ، اچھا برا ساتھ رہا ہمارا؛ اب جا ہی رہے ہو، تو کچھ سنتے جاو. دیکھو! جیسے زرداری نے کہا تھا کہ تین سال والے ہمیشہ والوں کو تنگ نہ کیا کریں، تو ٹھیک ہے، بالکل ویسے ہی تم، جو ہم سے اتنی بد سلوکیاں روا نہ رکھتے، تو ہم آج یہ خامہ فرسائی کرتے؟ دیکھو بھئی سالو! خود بھی سمجھو، زندگی کو بھی سمجھاو؛ بھئی تم لوگ دوبارہ نہیں آنے کے؛ جب کہ ہم ایک زمینی حقیقت ہیں .. ارے! ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا. لہذا تم زرا اپنی اداوں پر غور کرو.
اب ان باتوں سے یہ مت سمجھ لینا، کہ بہت ہی کوئی اخیر ٹف ٹائم دیا ہے، تم نے ہمیں؛ اب ایسی بھی کوئی لٹ نہیں مچی، نہ تم ہی پٹواری تھے، نہ ہم پاکستانی قوم خزانہ؛ بچت ممکن تھی سو رہی.
وہ ہم سا ہی ایک کردار خود کلامی کرتا ہے نا، کہ ”انسان کو مارا جا سکتا ہے، ہرایا نہیں جا سکتا.“ سو تم بھی ہمیں شکست دینے میں ناکام رہے ہو۔
البتہ تمھاری موجودگی میں بہت سے رویوں کی خاک چھانی، ہم نے؛ بہت سے لہجوں کے دشت دیکھے، بہت سے تعلق مٹھی میں سے ریت کی طرح پھسلتے محسوس کیے؛ بہت سی آنکھوں میں اپنا عکس دھندلاتے دیکھا؛ کئی لفظوں میں لپٹے تیر اور لہجوں میں بچھے زہر بھی برداشت کیے. بے حسی کے مختصر زمانی اور صدیوں پر محیط ذہنی لمحے گزار کر ہم نے ناگوار چیزوں باتوں اور تلخ رویوں سے اوپر اٹھنا سیکھا. اور ہارے نہیں ہم. ہم نے اسی بکھری ہوئی خاک میں نئے منظر تراش لیے۔ انھی ٹھیرے ہوئے پانیوں میں امید کے پتھر پھینک کے زندگی کی ہلچل پیدا کی، اور پھر اس ہلچل میں خوابوں کی کشتیاں بھی چلائیں.

دیکھو تو! ہم آج بھی اتنے ہی خواب پرست ہیں؛ جتنے تمھارے آنے پر تھے. ہم نے کئی تعلقات کی امید نو پر مسکرانا سیکھا اور کئی رشتوں کی بے غرضی محسوس کی.
نئے خواب دیکھے نئے سپنوں کی کاشت کاری کی.
سو مختصر یہ کہ تمھارا شکریہ
تم نے ہمیں نئے خواب دیکھنا، ان پر یقین رکھنا سکھایا.
تمھارا شکریہ تم نے تلخیوں کو گوارا کرنا سکھایا.
خود غرضیوں سے اوپر اٹھنا سکھایا.
تمھارا شکریہ، کہ تم نے مجھے، میرے تعصبات کے دائروں سے باہر کی دنیا دیکھنا سکھائی.
اور تمھارا شکریہ، تم نے بہت سے غلط توقعات کو جلد توڑ دیا؛ تاکہ زندگی اپنے own پر جینا سیکھی جائے.
اور تمھارا شکریہ، کہ تم نے ہارنے نہیں دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments