جناح کسی کے بھی ہیرو نہیں


سوال: قومیں اپنے لئے ہیرو چنتی ہیں۔ آپ کے خیال میں قوموں کی تعمیر کے لئے ہیرو کی حیثیت کتنی اہم ہے۔ اور یہ ہیرو کیسے بنتے ہیں؟

حنیف: مجھے نہیں پتہ کہ ہیرو قوموں کی تعمیر کے لئے کتنے اہم ہیں۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ ہمارے پاس بہت زیادہ ہیرو ہیں اور بہت جلد انہیں دینے کے لئے اعزازات، میڈل اور مثالیں کم پڑ جائیں گی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں یا تو گینگ ریپ ہونا پڑے گا یا سر پر گولی کھانی پڑے گی یا سرکاری تشدد کی نذر ہوکر مرنا پڑے گا تاکہ ہم ہیرو بن سکیں۔ ہمیں آخر ایسے لوگ کیوں میسر نہیں جو بس اپنا کام کریں۔ ہمیں آخر کیوں لگتا ہے کہ ہم آسماں سے اترے ہوئے ہیں؟

سوال: ہم آخر اپنے ہیروز پر اتفاق کیوں نہیں کر پاتے؟ یہاں یا تو جناح ہے یا مودودی، حکیم اللہ محسود ہے یا ملالہ، اور پھر طرفین کا یہ دعوی بھی کہ ان کا ہیرو قومی بیانیہ تشکیل دینے کا حق رکھتا ہے ۔

حنیف: میں نہیں سمجھتا کہ اور کوئی قوم ہے جو اپنے ہیروز پر اس قدر اتفاق کرتی ہے۔ میرے خیال میں جناح کسی کے بھی ہیرو نہیں۔ میرے خیال میں اس ملک میں شاید ہی کوئی ہو جسے پتہ ہو کہ جناح کون تھے اور اگر کسی کو پتہ بھی ہوگا تو وہ ان باتوں پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہے جن پر جناح یقین رکھتے تھے۔ میرے خیال میں یہاں چند ہی لوگ ہوں گے جو کسی ایسے شخص کو ہیرو مانتے ہوں گے جو کہتا ہو کہ ڈسپلن اختیار کرو، محنت کرو اور اتحاد پیدا کرو۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جناح ہمارے پی ٹی ماسٹر ہوں جن سے متاثر ہونے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ ہاں اگر کوئی آئے اور کہے کہ چلو، چلو۔ امت کو آزاد کرانے کے لئے لڑتے ہیں۔ چلو، چلو، دنیا کو فتح کرتے ہیں یا ایسا کرنے کی کوشش میں ہم مر جاتے ہیں تو اس میں زیادہ مزہ ہے بجائے اس کہ کوئی آفس میں نوکری کی غلامی اختیار کرے۔ ہم اپنے ہیروز سے ایسے کارنامے چاہتے ہیں۔ اور کیا قومی پریس قومی بیانیے کی ترکیب استعمال کرنا بند کرسکتا ہے۔ جو ایڈیٹر ایسا کرے گا میرا تو وہی ہیرو ہو گا۔

سوال: ہمارے ملک میں یوں لگتا ہے کہ ہیرو کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوگی۔ ایسا ہمیشہ معاشرے کو سمجھے اور  اس پر بات کیے بغیر کیا جاتا ہے۔ کیا یہ اہم نہیں ہے کہ ہم جانیں کہ آخر کیوں کوئی چوہدری اسلم جیسی شخصیت کو ہمارا ہیرو بنانا چاہے گا؟

حنیف: سب کو پتہ ہے کہ ہمیں چوہدری اسلم کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ مگر یہ کہ وہ لڑتے ہوئے اب مر چکا ہے، جب کہ بہت سے اس لئے مر گئے کہ وہ کہتے تھے کہ نہیں نہیں، ہم لڑنا نہیں چاہتے۔ وہ فوٹو جینک بھی تھے، اور ان کی بہت سی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ ویسے بھی ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا ہیرو لگے بندھے معمول پر گزارا کرے، ہم نہیں چاہتے کہ وہ آفس میں بیٹھ کر کام کرے اور پورا پورا ٹیکس ادا کرے۔

سوال: سیاسی میدان سے باہر سیاسی اور مذہبی ہیروز میں بھی ٹکراؤ کی کیفیت ہے۔ طالبان سے لے کر فرقہ وارانہ رہنما اور ان سے لے کر طاہر القادری تک سب کا یہی حال ہے۔ یہ مذہبی رہنما اپنی طاقت آخر کہاں سے اخذ کرتے ہیں۔

حنیف: میرے خیال سے تو ان پر خدا کا خاص کرم ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ میرے خیال میں سیاستدانوں اور مذہبی ہیروز میں بھی ایسا کوئی ٹکراو نہیں ہے کیوں کہ سیاستداں ان مذہبی اور فرقہ پرست رہنماؤں کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو یہ فرقہ پرست رہنما بمقابلہ شدید فرقہ پرست رہنما ہیں۔ حق نواز جھنگوی جیسے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ مودودی ملک کے لئے سب سے بڑا عذاب تھے۔ کوئی بھی غیر مذہبی سیاسی رہنما ایسا کہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاک آرمی بھی یہی کہتی ہے کہ مودودی ہمارے سب سے بڑے مدبر تھے۔ یہ سیکیولر اور مذہبی حلقوں کے مابین لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ اچھے مسلمانوں اور بہتر مسلمانوں کے مابین جنگ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس میں بہترین مسلمان ہی فتح مند ہوں گے۔

سوال: یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبال اور جناح جیسے کچھ قومی رہنماؤں کو چھوڑ کر، جو بہرصورت مذہبی اصطلاحات استعمال کرتے تھے، ہم نے اپنے تمام ہیرو مذہبی ہی چنے ہیں جیسے کہ محمد بن قاسم اور محمود غزنوی وغیرہ۔ کیا ہم اس روش پر کبھی سوال اٹھا سکیں گے؟

حنیف: آپ جتنا چاہیں سوال اٹھائیں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر ہماری مجموعی یادداشت مٹا دی گئی ہے۔ پچھلے سال میں نے سوچا کہ سندھ کی آدھ درجن یونیورسٹیوں میں جا کر ایک تجربہ کیا جائے۔ میں نے طلبہ سے پوچھا کہ وہ محمد بن قاسم کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ ہر ایک کو اس بارے میں معلوم تھا، جیسا کہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ وہ ایک نرغے میں پھنسی مسلمان عورت کی پکار پر سترہ سال کی عمر میں سندھ کی دھرتی پر آیا اور اسے فتح کر کے پہلا پاکستانی بن گیا۔ کسی سے پوچھیں کہ پھر اس کے ساتھ کیا ہوا تو پتہ چلتا ہے کہ اکثر کا خیال ہے کہ پھر اس نے ہندوستان کی سرزمین پر ہنسی خوشی حکومت کی۔ کسی کو بھی نہیں پتہ کہ اسے واپس بلایا گیا اور اس کے سپہ سالار کی جانب سے قتل کر دیا گیا جو ظاہر ہے کہ اس سے بہتر مسلمان تھا۔

سوال: آرمی کا ہیرو کے طور پر مقام غیر متنازع معلوم ہوتا ہے۔ یہاں ایک پورا ادارہ ہے جو ہیرو ہے اور ہمیں اس سے کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ آپ کے خیال میں ایسا کیوںکر ہوا؟

حنیف: آرمی کو غیر متنازع ہیرو  صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے زندگی بھر پنجاب کی کسی چھاؤنی سے باہر قدم نہ رکھا ہو۔ یہ فقرہ آپ کسی تربت یا دادو یا وانا کے شخص کے سامنے بولیے پھر دیکھئے۔ اچھا اتنا دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف منصورہ چلے جایئے۔ وہاں کسی کو بھی روک کر پوچھ لیجئے کہ وہ آرمی کو غیر متنزاع ہیرو مانتے ہیں؟

سوال: آپ کی لکھاریوں کے بارے کیا رائے ہے، ایسا کیوں ہے کہ وہ ہیرو نہیں بن پاتے۔

حنیف: ہمارے پاس بہت سے لکھاری ہیں جو ہیرو شمار ہوتے ہیں۔ ایک پوری نسل مستنصر حسین تارڑ کو پوجتی ہے۔ ایک اور نسل ہے جو اشفاق احمد اور عمیرہ احمد کے ناولوں میں سے وہ سب پاتی ہیں جس کی اسے زندگی اور آخرت میں ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کچھ ادیبوں کا تو یہاں تک خیال ہے کہ جس جہنم میں ہم رہ رہے ہیں اس کا تصور ایک اور مشہور لکھاری قدرت الله شہاب نے دیا تھا۔

عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ناولسٹ محمد حنیف کا یہ انٹرویو دی نیوز آن سںڈے میں 19 جنوری 2016 کو شائع ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments