جعلی انڈوں کی دنیا سے گندے انڈوں تک


\"\"بچپن کی یادوں کا حصہ صرف گھر، گھر والے اور گھر کے کونے کھدروں میں کی گئیں شرارتیں نہیں ہوتیں ، لاشعوری طور پہ گلی، اس میں لگے سب درخت، ان کی چھاؤں میں کھیلنا، گلی کی نکڑ پہ موجود کھوکھا سب کچھ یادوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہی کونے کھدرے جہاں شرارتیں کرتے ہوں وہاں کبھی بیٹھ کر رونا بھی پڑتا ہے۔

ہر گھر میں اک ایسا کونا ہوتا ہے

جہاں کسی کو بیٹھ کے رونا ہوتا ہے

عمر بھر یاد رہتا ہے کرکٹ کھیلتے کس چھت پہ گیند گئی تو واپس ملے گی اور کہاں ضبط ہو جایا کرے گی، پھر قسمت ہوئی تو سال چھ ماہ بعد جب اجازت ملے اس چھت سے پانچ چھ گیندیں اکٹھے ہی مل جائیں گی۔ کون سے انکل ہیں ، کس گھر میں رہتے ہیں نام صرف اس بچے کا یاد ہو گا جو آپ کا ہم عمر ہو یا کوئی دو چار سال کا فرق ہو ، پھر اس کے سارے گھر والے ہمیشہ اسی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔آپ نام کوئی سا بھی رکھ لیں، چلیں اس بچے کا نام عمیر رکھ لیتے ہیں، ایک عرصے تک ان گھر والوں کا حوالہ یونہی دیا جائے گا عمیر کے ابو، عمیر کے دادا، عمیر کی اماں، عمیر کی آپی۔یہ تو بعد میں یاد ہوتا ہے کہ ان سب لوگوں کے کوئی اپنے نام بھی ہیں۔\"\"

 ہم ایسے \”سیانے\” بچے تھے کہ آج کل کہ موبائل کمپیوٹر والے بچوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، اس بچپن میں کسی نے شوشہ چھوڑا کہ اس کھوکھے سے جعلی انڈے ملتے ہیں تو ہم گھر والوں کو بتاتے تھے کہ وہاں نہ جایا کریں وہ جعلی انڈے بیچتے ہیں اور بےچارے گھر والے شاید سوچتے ہوں کہ ایسی اولاد ہمیں ہی کیوں ملی جسے انڈے بھی جعلی لگتے ہیں ۔ اگر گھر والے تھوڑا ساتھ دیتے تو شاید ہم سب بھی بڑی بڑی سازشیں ڈھونڈ نکالتے مگر انہوں نے سنجیدہ نہیں لیا اور بڑے ہونے پر احساس ہوا کہ انڈے جعلی کیسے ہو سکتے ہیں؟ پارک میں پہلے کھیلنے جاتے تھے پھر واک کرنے، اس میں سب سے خوشگوار پہلو عمیر کے ابا کو سلام کرنا تھا ، اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمیر کوئی بہت قریبی دوست تھا مگر وہ انکل جس قدر شفقت اور اپنائیت سے سلام کا جواب دیتے اس جواب کی خاطر ہر بار ہینڈز فری پہلے ہی کان سے نکال لینا کہ یار جواب سننا ہے انکل کا۔ شہر بدر ہوئے تو گھر ، گلی ، محلہ سب چھوٹ گیا۔ چھٹی پہ آنا ہوتا تب بھی یہ سلام کے جواب کا سلسلہ یونہی چلتا۔ ایک بار بہت دن بعد واپس آئی اور کچھ دن وہ نظر نہیں آئے تو اماں سے پوچھا، انہوں نے بتایا بچوں کی شادیاں ہو گئیں اب یہاں اکیلے کیسے رہتے تو کراچی چلے گئے۔ سچ میں اس دن کراچی سے نفرت ہو گئی کہ اس شہر نے میرے انکل چھین لیئے۔ پھر اس کھوکھے کے مالک انکل سے سلام دعا تو چلتی رہی مگر بچپن کی یادوں کے سوا کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔\"\"

 ایک روز ہسپتال جانے کیلئے باہر نکلی تو یوں لگا جیسے عمیر کے ابا آ رہے ہوں۔ایک بار تو خود کو ٹوکا اتنا بھی کیا کسی کو یاد کرنا کہ وہ چلتا پھرتا نظر آئے۔مگر اگلے ہی لمحے احساس ہوا وہ تو واقعی وہ تھے۔بھاگی دوڑی اور سامنے کھڑی ہوئی تو نان سٹاپ سلام جھاڑ کر شروع ہو گئی کہ آپ کہاں چلے گئے تھے میں نے آپ کو بہت مس کیا۔ اس سے پہلے تک کبھی زیادہ بات نہیں کی تھی شاید کوئی عجیب سے جھجک تھی یا اس بات کی خوشی ہی بہت ہوتی تھی کہ جواب ملا ہے۔انکل نے مسکرا کر سر پہ ہاتھ رکھا، کہتے کراچی گیا تھا مگر ملتان نے وہاں رہنے نہیں دیا اور کراچی بھایا نہیں تو واپس آ گئے۔اب یہیں رہیں گے، ملاقات ہوتی رہے گی۔

 پھر ایک روز پارک جانے لگی تو احساس ہوا کچھ الگ ہے، غور کرنے پہ علم ہوا کہ کھوکھا نہیں رہا، کمرشل نوٹس کے بعد مالک مکان نے خالی کرا لیا اور وہاں دیوار بنا دی۔ گلی کی وہ نکڑ اب ویران ہے، وہاں بیٹھنے والے سب لوگ اب ادھی گلی میں ایک اور جگہ بیٹھتے ہیں مگر وہ گلی چھوٹنے پر بھی اس کے رشتے، اس کا خلوص اور وہاں گزرا بچپن اپنی یادوں سمیت سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔کبھی دس روپے کی چیز لینے کی خوشی سے لے کر آج اس کونے کی ویرانی تک کا نام ہی زندگی ہے جس نے چلتے ہی جانا ہے چاہے کتنے برس بیت جائیں، کتنا کچھ بدل جائے۔ اور ایک تبدیلی تو یہی آئی کہ بچپن میں جعلی انڈے دریافت کئے تھے اور اب گندے انڈوں سے واسطہ پڑ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments