عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی


\"\"

(یگانہ نجمی)

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

خوشبو کا عکس بن کر بکھرنے والی شاعرہ پروین شاکر جو حقیقتاً خوشبو کا عکس تھیں 62دسمبر1994کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ پروین شاکر اپنی شاعری کا آغاز خوشبو سے کیا۔ جس میں انھوں نے ایک 24سالہ لڑکی کےاحساسات کااظہارکیا جس کا دل اپنی ذات سےمتعلق امنگوں سے بھرا ہوتا ہے ان کی شاعر ی عورت کے لطیف جذبات و احساسات کی بھر پور عکاس ہے۔ اور ان کی ابتدائی شاعری اس کی ترجمان ہے خوشبو ان کے اسی سفر کی کہانی ہے۔ جس میں حیران آنکھیں، شبنمی رخساروں اور اداس مسکراہٹ کی اس لڑکی کو بات کا اندازہ تھا۔ کہ یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ کوئی کہانی بھی نئی نہیں ہوتی۔ یہ تو کہانی سنانے والے کمال ہے کہ وہ اسے کس طرح بیان کے خوبصورت سانچے میں ڈاھالتا ہے۔

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے درد کی کیفیت کو بیان کرتی ہےجو دردِ کائنات بن جاتا ہے۔ ان کے ہاں احساسات کی جو شدت ہے وہ دوسری شاعرات کے کلام میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے انھیں دورجدیدکی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

محسن احسان لکھتے ہیں پروین شاکر نے اپنے سفر میں کسی بھی موڑ پر اپنے فنی مشاہدے اور احساسات کو بے راہ روی کی گرد سے آ لودہ نہیں ہونے دیا۔ اس کےلہومیں رچی ہوئی سچائی اس کے متوازن لب و لہجے کی شائستگی اور ان کے شعری زبان کا رسیلا پن اس کے خوبصورت خیالات اور نسائی جذبات کوحیات آفریں پیکر عطا کرتے چلے گئے۔ اس نے روایت کے حسن میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ نئی جہتیں بھی عطا کیں۔

اس نے اپنی شاعری میں دلکش اور رلطیف پیکر تراشتے ہیں اس کے فن میں مشرقی عورت تمام امنگوں اور آرزوں کے ساتھ جلوہ گر ہے ان کی شاعری میں جمالیات کا رنگ نمایاں ہے۔

عارضِ گُل کو چُھوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو\"\"

ان ہی نازک احساسات رکھنے والی شاعرہ نے جب زندگی کے سنگلاخ راستوں کا ادراک کیا تو اس کی شاعری نے اس اظہار بڑی بے باکی سے کیا جو کہ پڑھنے والے کو بعد کی شاعری میں نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہے۔ اور اسی جذبے کی سچائی نے قارئین کے دل ودماغ دونوں کو ان کی گہرائیوں کی آخری حد تک متاثر کیا۔ یہ وجہ ہے ان کے اشعار زبان زدِعام ہوگئے۔

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

وہ زندگی کے تلخ حقائق کی ترجمان بھی ہیں۔ کشور ناہیدکے لفظوں میں پروین شاکرشاعری سے ماوارائیت کو خارج کر کے اپنے انداز سے اپنی بات کہنے کا حوصلہ اردو شاعری کو دیا۔ انہوں نےرو کر التجا کر کے اپنی مشرقیت کی لاج رکھنے کاہنر نہیں آزمایا۔ انہوں نے ایک فرد کو معاشرے کی تہذیب یافتگی کے باوجود وحشیانہ سزاوں کی تپتی ریت پربرہنہ پاچلتے ہو ئے دیکھا ہے۔

تیری برہنہ پائی کے دکھ بانٹتے ہوئے
ہم نے خود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے

انھوں نے اپنی شاعری میں مشرقی عورت کو مکمل اور اس کے اصل روپ میں پیش کیا۔ ایک وقت تھا کہ یہ بات ناممکن نظر آتی تھی۔ پروین نے اس ناممکن کو اپنی شاعری کے ساتھ ساتھ غم دوراں اور عصر ی شعور کے اظہا ر میں

بھی بڑی مضبوط نظر آتی ہیں۔ جس سے ان کے شعری ارتقا کا ثبوت بھی ملتا ہےپروین ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی افکا ر تک پہنچتی ہیں۔ اورافکار کے طبع ہونے سے پہلے وہ اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں قطعی فیصلہ کرچکی تھیں ان کا شریک حیات ان کی زندگی سے نکل چکا تھا۔ اور انھیں اس بات کا بہ خوبی اندازہ تھا ایک تنہا عورت کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک ورکنگ وومن کے مسائل کو نہ صرف جھیلا بلکہ اپنی شاعری میں اس کا برملااظہار کیا۔

تراش کر میرے بازو اڑان چھوڑ گیا
ہوا کے پاس برہنہ کمان چھوڑ گیا

رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا
زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا

پروین کو اپنے عہد کی بے چارگی، حیوانیت اور بے بسی وسفاکی کا احساس تھا۔ وہ کہتی ہیں۔

عادت ہی بنا لی ہے اس شہر کے لوگوں نے
انداز بدل لینا، آواز بدل لینا

ان کی شاعری میں جدت کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔ انھوں نے نئی علامتوں کا استعمال بڑی دلفریبی سے کیا

بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا

وہ نہ صرف جذبوں کی شاعرہ تھی بلکہ محبت کے ہر اس رنگ سے آشنا تھی جو ایک حساس دل رکھنے والے کی فطرت کا جز ہوتی ہے۔ وہ ان محب وطن لوگوں میں سے تھیں جن کے لیےاپنے وطن سے نسبت باعث تو قیر ہوتی ہے۔ اس لیے وطن کی محبت کو اپنے اشعار میں ڈاھلتے ہوئے کہتی ہیں۔

بخت سے کوئی شکایت نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments