شہید رانی، میری اماں جان اور رب سے راز و نیاز


\"\"

میں ایک دیہاتی آدمی ہوں دیہاتی ماحول میں آنکھ کھولی ہے۔ میرے گاؤں کے رسم و رواج بھی عجیب ہیں۔ میرے گاؤں میں آج بھی عورتیں جانوروں سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اماں پانی لینے کے لیے دور پہاڑی کے کنارے جاتی۔ بغل میں بچہ اور سر پہ گاگر اٹھائے اماں رات کو پانی بھرتیں اور دن کو بکریاں چراتیں۔ گھر کے سارے کام کاج بھی کرتیں اور جانوروں کے لیے چارہ بھی کاٹتیں۔ گندم یا مکئی تیار ہوتی تو دوپٹہ سر پہ باندھ کے گندم اور مکئی کاٹتیں۔ جب پہاڑی گھاس خشک ہوتی تو وہ بھی کاٹتیں۔ ہمارے مرد نواب ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مرد عورتوں کا ہاتھ بٹائیں۔ عورتیں آج بھی جانوروں جیسی زندگی گزار رہی ہے۔

میرے گاؤں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ یہاں مردوں کے ہاتھ نرم اور عورتوں کے ہاتھ سخت اور کھردرے ہیں۔ میں نے اپنی ماں کو کم بنا سنورا دیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب اماں نے پھولوں والے کپڑے پہنے تھے تو بھائی نے جھگڑا کیا اور کہا آپ جوان بننا چاہتی ہیں۔

میری اماں کا بھائی کوئی نہیں ہے ماں باپ بھی جلد ہی فوت ہو گئے تھے اور نانی اماں آخر عمر میں پاگل ہو گئی تھیں۔ والد صاحب کا حال یہ تھا کہ شادی ہوئی تو سسرال کے گھر گئے تھے پھر میری نانی اور نانا کے انتقال کے وقت جنازے پہ گئے۔

عجیب رسم یہ ٹھہری کہ شوہر بیوی کے ساتھ سسرال جائے تو اسے زن مرید ہونے کا طعنہ دیا ہے جبکہ عورت مرد کے ماں باپ کی خدمت میں کوتاہی کر دے تو پھر اسے جانوروں کی طرح پیٹا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں شوہر بیوی کو کہتا ہے سب کچھ برداشت کر لوں گا میرے ماں باپ کی خدمت میں فرق آیا تو گھر سے نکال دوں گا۔ میرے گاؤں میں لڑکی کی شادی عورت کو جیل خانے میں ڈالنے کے مترادف ہے لڑکیاں مہینوں ماں باپ کے گھر کا رخ نہیں کرتیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ بچی جب بیاہ کے دی جاتی ہے تو اس کے پاؤں میں باپ دادا چادر ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں بیٹی آج کے بعد تیرا گھر وہ ہے میری چادر کی لاج رکھنا۔ بیٹی ساری زندگی چادر کی عزت رکھتے رکھتے اپنی زندگی جہنم بنا دیتی ہے۔

\"\"

میری اماں پہ کئی بار میرے چچا لوگوں نے جسمانی تشدد کیا اکھٹے رہنے کی وجہ سے اونچ نیچ ہو جاتی تو ماں کو پٹخ دیا جاتا۔ ماں روتی اور ایک جملہ کہتی میرے دادا کی قبر کو آگ لگے مجھے کس جہنم میں ڈال گیا ہے۔ میں روٹھ کے بھی نہیں جا سکتی۔

ویسے اماں روٹھتی بھی تو کہاں جاتی؟ ماں باپ اور بھائی تو موجود نہ تھے خالی دیواروں کیساتھ کیسے رہتی؟ وہ ایک عورت ذات ہے تنگ آکے ماں باپ کو پکارا کرتی تھیں اور خدا سے بھی جھگڑ پڑتیں کہ عورت کیوں بنایا؟ اس معاشرے میں پیدا کرنا تھا تو ماں باپ اور بھائیوں کا سایہ تو عطا کرتا؟ کہیں رو کے دکھ درد بانٹ لیتی۔ غم کس سے ہلکوں کروں؟ دکھوں کی داستان کسے سناؤں؟ چل مالک خود ہی سن لے یہ آہ و فغاں۔

ماں بچوں کی پیدائش پہ گندم کے دانے کھا کے اٹھ کے کام شروع کر دیتیں۔ رات آگ بجھا کے دھویں میں آنسو بہا لیتی تھیں۔ ماں پہ سختیاں مجھے نرم کر گئیں مجھے مردوں کے معاشرے سے خوف آتا ہے۔ آج بھی کسی عورت پہ تشدد ہوتا ہے تو میں اسکےساتھ کھڑا ہو جاتا ہوں۔ اپنے جسم پہ سختیاں سہنے والی ماں کی جب یاد آتی ہے تو جسم کپکپا اٹھتا ہے۔ خیر میری تو ماں ہے مجھے اس پہ ترس تو آنا ہے۔

ماں بی بی شہید کے وزیراعظم بننے پہ خوش تھیں جب انہیں علم ہوا کہ بی بی وزیراعظم بنی ہیں تو وہ کہا کرتی تھیں شکر ہے کوئی عورت اس قابل ہے کہ وہ مردوں پہ حکمرانی کرتی ہے۔

اور جب بی بی کی شہادت کی خبر میں نے انہیں دی تو انہوں نے آہ بھرتے ہوئے کہا اج اساں دی نمائندگی مک گئی اے (آج ہماری نمائندگی ختم ہو گئی ہے)۔

ستائیں دسمبر کی بدنصیب شام بی بی کو شہید کیا گیا۔ میں نے جب بی بی کی زندگی پڑھی تو مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کیسی عورت ہے جو روتی نہیں جو شکوہ نہیں کرتی جو آنسو نہیں بہاتی۔

آپ دیکھیں نا بی بی شہید صرف وزیر اعظم یا لیڈر ہی نہ تھیں۔ ان کے کئی روپ تھے۔ وہ بیٹی بھی تھیں وہ ماں بھی تھیں وہ بیوی بھی تھیں وہ بہن بھی تھیں وہ لیڈر بھی تھیں وہ وزیر اعظم بھی تھیں۔

آپ جس روپ میں انہیں دیکھیں گے آپ کو غم سامنے نظر آئیں گے۔

آپ انہیں بیٹی کے روپ میں دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان کے عظیم باپ کو رات کی تاریکی میں عسکریوں نے سولی پہ لٹکا دیا۔ بیٹی کے لیے جیل کے دروازے نہ کھلے بی بی باپ سے آخری بار سینہ بھی نہ ملا سکی زنداں کی سلاخیں اور عسکریوں کی شکن آلود جبینیں ملاقات میں حائل ہو گئیں۔

\"\"

بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بی بی کی ماں پہ پولیس نے ظلم کیا وہ بھی ہوش و حواس سے بیگانی ہو کے فوت ہوئیں۔

آپ انہیں بہن کے روپ میں دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان سے ان کے بھائیوں کا سایہ بھی چھینا گیا ایک بھائی کو زہر دے کا مارا گیا دوسرے کو پولیس نے گولیوں سے بھون ڈالا۔

آپ انہیں بیوی کے روپ میں دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان کے شوہر کو گیارہ سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ زرداری آپ کے نزدیک برا سہی لیکن وہ بی بی کے سرکا تاج تھا۔ ایک بیوی سے اس کے تاج کو گیارہ سال تک دور رکھنا ظلم کی اعلی ترین مثال ہے۔

آپ بی بی کو ماں کے روپ میں دیکھیں تو آپ کو علم ہو گا کہ بی بی بچوں کو اٹھائے کبھی جیل کی دیواروں کے سائے میں نظر آئیں گی اور عدالتوں کے مظالم سہتی نظر آئیں گی۔

انہیں وزیراعظم کے روپ میں دیکھیں تو آپ کو تاریخ بتائے گی کہ ان کی حکومتیں اٹھارہ اٹھارہ ماہ بعد ختم کر دی گئیں غداری کے تمغے بانٹنے والوں نے انہیں سیکورٹی رسک کہا۔

\"\"

انہیں لیڈر کے روپ میں دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان کی وطن واپسی پہ کراچی دھماکے کیے گئے ان کے سامنے ان کے کارکن اڑا دیے گئے اور پھر ستائیں دسمبرکی ایک شام انہیں مار دیا گیا

لکھنے والوں نے تو یہاں تک لکھا کہ بی بی کا تابوت چھوٹا اور قد بڑا بڑا تھا۔ بڑی رانی کے لیے تابوت بھی چھوٹا اور تنگ رکھا گیا

یہ دکھ ایک عورت ہی محسوس کر سکتی ہیں البتہ میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا میری ماں بے صبری ہے۔ وہ تھوڑے سے مظالم سہنے کے بعد کہہ اٹھی اللہ میرے دادا کی قبر کو آگ لگائے جبکہ بی بی ستم سہنے کے باوجود بھی باپ دادا پہ انگلی نہیں اٹھاتی۔

ایک سوال عموماً ذہن میں آتا کہ میری ماں کا بھی کوئی نہیں ہے۔ میری اماں بھی رو کے خود ہی چپ ہو جاتی ہیں۔ بی بی کا بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ جب مظالم سے تنگ آتی تھیں تو کسے یاد کرتی تھیں؟ ویسے بی بی کا رب سے قریبی تعلق ہوگا جن کے دکھ بانٹنے کے لیے اپنا کوئی نہیں ہوتا وہ رب سے بڑی راز و نیاز کی باتی کرتی ہیں۔ میں ماں کے راز و نیاز کا چشم دید گواہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments