باکسنگ ڈے: غریبوں کا کرسمس کا دن


\"\"

کرسمس کے حوالے سے ایک تاریخی تصویر قارئین کی نذر ہے۔ ایک سفید فام خاندان کے عقب میں درجنوں سیاہ فام کھڑے ہیں جن کے سینوں پر سفید رنگ سے میری کرسمس لکھا گیا ہے۔ تحریر سے سال اور مقام کی نشاندہی ہوتی ہے یعنی 1923ء اور بیڈاگری۔ نائجیریا کے بڑے شہر لاگوس کی بندرگاہ جو غلاموں کی تجارت کا اہم ترین مرکز رہا ہے۔ ہمیں یہ تصویر انگلستان کے شہر لیورپول میں واقع عالمی غلامی عجائب خانہ( انٹرنیشنل سلیوری میوزیم) میں دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ تصویر چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا، اقدار بدلتی رہتی ہیں۔ یہ یاد دہانی کراتی ہے کہ ابھی سو سال سے بھی کم عرصے قبل دنیا میں انسانوں کو غلام بنا کر رکھنا نا صرف قانونی تھا بلکہ اس کے لئے سو طرح کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی جواز بھی موجود تھے یہ تصویر اس امر کا بین ثبوت ہے کہ غلامی کے خاتمے کے بعد بھی نسل پرستی کو ترقی یافتہ دنیا میں مسلمہ قدر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔

اس تصویر کے بعد ہم باکسنگ ڈے کی طرف آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پانچ چھ سو سال قبل متمول گھرانوں میں روایت ہوا کرتی تھی کہ وہ کرسمس کے اگلے روز اپنے غلاموں، نوکروں اور ان کے اہلِ خانہ کے لئے ایک دن کی اضافی تنخواہ، تحفے تحائف اور بچے کھچے کھانے ڈبوں (باکس) میں بند کر کے ان کے حوالے کرتےاس طرح جدید باکسنگ ڈے کی ابتدا ہوئی۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب کرسمس کی چھٹی بھی ہر کسی کو نصیب نہ تھی۔

\"\"

آج دنیا کی سب سے مصروف اور مہنگی ہائی اسٹریٹ یعنی لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ اور بانڈ اسٹریٹ پر مجھے غریبوں میں تحائف کے ڈبے تقسیم ہونے کے نظاروں کے بجائے کچھ اور ہی تماشہ نظر آیا۔ لاکھوں کی تعداد میں خریدار تھے جو ساری دنیا سے امڈ آئے تھے۔ گورے، سیاہ فام، زرد رو، گندمی، کاکیشین، ایک دوسرے میں یکجان ہو چکے تھے۔ اگر کچھ کے سر پر چھوٹی سی ٹوپی، کچھ کے گلے میں صلیبی زنجیر، کچھ کے ماتھوں پر سجدوں سے بنی مہرابیں اور کچھ کی مانگ میں سیندور نہ ہوتا تو پتہ نہ چلتا کہ ایک دوسرے میں شیر و شکر اس انسانی سیلاب میں یہودی، عیسائی، مسلم اور ہندو سب شامل ہیں۔ سر تا پا عبایوں میں ملبوس نقاب پوش عربی خواتین کو دیکھ کر ذرا حیرت بھی ہوئی کہ ایسے ہجوم میں جہاں مرد اور عورت کا کھوے سے کھوا چھل ریا ہو کون سا شوق انہیں مشرق وسطیٰ سے یہاں کھینچ لایا ہے۔ بہت سے پاکستانی بھی دکھے جو بالخصوص کرسمس کی سیل کے لئے آئے ہوئے تھے۔ سال گزشتہ ہوٹل میں کراچی کے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ صاحب سے ملاقات ہوئی جو اپنی تین نسلوں کے ساتھ فروکش تھے اور علی الصبح ہیرڈذ جانے کے منصوبے بنا رہے تھے۔

ہائی اسٹریٹ کی بمشکل چند ہی دکانوں پر اشیاء آدھی قیمتوں میں لگی ہوئی تھیں جبکہ اکثر بڑے بڑے برانڈز پرصرف واجبی سی رعایت تھی لیکن خریداروں کے ذوق و شوق میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔

\"\"

اعداد و شمار کے مطابق باہر سے آنے والے یہ خریدار دیسی برطانویوں سے پانچ چھ گنا زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ امسال ان میں سب سے بڑی تعداد چینیوں کی تھی دوسرے نمبر پر مشرق وسطیٰ کے باشندے اور پھر امریکی۔ جو مہنگے زیورات، برانڈڈ بیگز، قیمتی گھڑیوں اور بیش قیمت ملبوسات پر ٹوٹے پڑ رہے تھے اور جلدی جلدی اپنی جیبیں خالی کرکے بریکسٹ کے بعد ڈولتی ہوئی برطانوی معیشت کو سہارا دے رہے تھے۔

مختلف اشیاء کی قیمتوں میں ستر ستر فیصد تخفیف دیکھ کر یہ بھی اندازہ ہوا کہ عام دنوں میں مشہور برانڈز ستر فیصد یا اس سے بھی زیادہ منافع لیتی ہیں۔

اندازے کے مطابق پچھلے سال باکسنگ ڈے پر ہونے والی شاپنگ سے ایک دن میں ہونے والی آمدنی چار بلین پاؤنڈ ہوئی۔ ایک دن کی یہ آمدنی پاکستان کے پورے سال کے بجٹ کا کوئی بیس فیصد بنتی ہے اور اگر آپ میرے ہم خیال ہیں اور دفاع، بڑی فوج، نیوکلیئر پروگرام اور بین البراعظمی میزائلوں پر خرچ کی جانے والی رقوم کو عیاشی اور فضول خرچی سمجھتے ہیں اور کرپشن کے خلاف ہیں تو شاید ہائی اسٹریٹ کی ایک دن کی آمدنی سے پورے سال کا بجٹ بنا سکتے ہیں۔

مشہور برانڈز پر لگی چٹیں (ٹیگز) پڑھ کر شرمندگی اور ندامت کا احساس ہوا۔ چینی معیشت تو کئی عشروں سے دنیا بھر کے کنزیومر کلچر کی پیاس بجھانے کا سامان کر رہی ہے مگر ہم نے دیکھا کہ مارکس اینڈ اسپینسر، کلارک وغیرہ پر آرام دہ، دیدہ زیب اور سخت جان جوتے بھارت میں بنے ہوئے تھے۔ گیپ اور نیکسٹ پر کاٹن کی قمیضیں اور پتلونیں بنگلہ دیش سے درآمد ہوئی تھیں جبکہ اعلیٰ ذوق کی علامت اطالوی سوٹ کمبوڈیا نامی غریب ملک میں سلوائے گئے تھے۔ بہت ڈھونڈنے سے پاکستانی سوغاتیں ملیں بھی تو صرف غیر معیاری موزوں اور ہلکی ٹی شرٹوں کی شکل میں۔

\"\"

کارپوریٹ کلچر اور کنزیومرزم کو کتنا برا بھلا کہہ لیا جائے اور کفایت شعاری اور سادگی پر جتنے بھی لیکچر دے دیے جائیں اس سے دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ملک کو پسماندگی سے نکالنے کی واحد راہ یہی ہے کہ چین، بھارت اور کمبوڈیا کی طرح تیزی سے صنعتی ترقی کرکے دنیا کی مارکیٹوں میں بے مقصد بہتی اس دولت میں اپنا حصہ لیا جائے اور ملک کو خود کفیل اور خود مختار بنایا جائے۔

باکسنگ ڈے کی تاریخ کی طرف پھر لوٹتے ہیں۔ زمانہ نے ایک اور کروٹ لی، قدریں تبدیل ہوئیں، خیر اور شر کے پیمانے بدل گئے۔ وکٹورین عہد (انیسویں صدی) میں کرسمس کی تقریبات بارہ دن تک چلتیں لیکن صرف رئوسا ہی ان سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔ عام عوام کا ان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ جدید صنعتی دور میں اتنی طویل تعطیلات کا کوئی مقام نہ تھا۔ باکسنگ ڈے 1871ء میں عام تعطیل قرار پایا۔ صنعتی شہروں میں بسے مزدوروں کو سانس لینے کا موقع ملا۔ 1990ء کی دہائی میں اس دن کو دنیا کا سب سے بڑا کنزیومر تہوار بنانے کے لئے بینک کی چھٹی کے روز خرید و فروخت پر سے پابندی ہٹالی گئی۔ اب برطانیہ میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ کیا یہ دن لاکھوں سیلز ملازمین اور ان کے مینیجرز کے زبردست استحصال کی علامت نہیں؟؟ !

ترقی یافتہ ممالک میں غریبوں کی بھلائی رفتہ رفتہ ان مخیر اور سخی داتا امیروں کے ضمیر کا بوجھ نہیں رہی جو تہواروں پر بچا کھچا کھانا اور اپنے بدن کی اترن بانٹ کر واہ واہ کرواتے تھے بلکہ اب یہ جدید ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے۔ بدقسمتی سے ہم ابھی اس منزل سے صدیوں دور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments