اسلامی نظریاتی کونسل، جعلی ڈگریاں اور ڈاکٹر عبدالسلام


\"\"

یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے، بابے، اس معاملے میں نہ کودتے؟ انہیں کوئی اچھا فیصلہ کرتے قو م نے کبھی نہیں دیکھا۔ ہاں جہاں، انتہا پسندانہ رائے، ٹھونسنی ہو وہاں یہ ضرور نظر آئیں گے۔ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے ایک سنٹر کا نام نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھے جانے پر ان کی، رگِ حمیت، بھی پھڑکی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے اس کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی صاحب کی اپنی ڈگری جعلی ہونے کی کہانیاں کوہ قاف کی اڑتی ہوئی مخلوق کے علم میں بھی ہیں۔ اور اس پر نہ تو انہیں کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی کونسل کے دیگر ممبران کو۔

عجیب بات ہے کہ موصوف چیئرمین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ، کیا کونسل کو دیگر اداروں اور سڑکوں کے ناموں کی تبدیلی پر بھی اعتراض ہے؟ تو موصوف نے کسی بھی تبصرہ سے انکار کر دیا۔ انہوں نے مخالفت کی کوئی وجہ بتانے سے انکار کردیا۔ بس یہ کہا کہ، نام کی تبدیلی پر میں کچھ تحفظات ہیں اور اس سے کوئی اچھی مثال قائم نہیں ہو گی۔ اب یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ موصوف اور ان کی کونسل ڈاکٹر عبدالسلام کے احمدی ہونے کی وجہ سے اس سنٹر کا نام رکھنے کی مخالفت کر رہی ہے۔ ہم ذات طور پر سمجھتے ہیں کہ وزیرِاعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنی زندگی میں شاید دو فیصلے ہی جرات کے ساتھ کیے ہیں ایک ابھی آرمی چیف قمر باجوہ کے حوالے سے غلیظ مہم چلائے جانے کے باوجود انہیں آرمی چیف لگانا اور دوسرا اس مہم کے دوران ہی ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر قائدِ اعظم یونیورسٹی میں ایک سنٹر کا نام رکھنا۔

اس دوران ایک تو یہ ہوا کہ آرمی چیف کے سے عہدے پر بیٹھنے والے قمر باجوہ صاحب کو اپنی حضرت محمد ﷺ سے محبت ثابت کرنے کے لیے گھر میں میلاد کی محفل منعقد کر کے میڈیا کے ذریعہ اس کی تشہیر بھی کرنا پڑی۔ تاکہ ان کے، دین وایمان، کی گواہی پر، مہر، لگ جائے۔ لیکن کیا ان کے اس، محفلِ میلاد، کروانے سے دوسرے مسالک کے لوگوں کے دلوں میں ان کے ایک، مخصوص مسلک، سے تعلق کا، تاثر گہرا، نہیں ہو گیا ہو گا؟

خیر ہم واپس اپنے اسلامی نظریاتی کونسل والے ایشو کی طرف آتے ہیں اور پوچھنا چاہتے ہیں کہ، کونسل میں مبینہ جعلی ڈگری والے مولانا محمد خان شیرانی کے چیئرمین ہونے کی وجہ سے کوئی مسئلہ کیوں نہیں پیدا ہوا؟ کونسل کو نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام تو تنقید اور اعتراض کے لیے نظر آجاتا ہے لیکن انہیں نہ تو اپنا مبینہ جعلی ڈگری والا چیئرمین نظرا ٓتا ہے اور نہ بابر اعوان جیسا وکیل نظر آتا ہے جس کی ڈگری کو کالم نگار انصار عباسی بظاہر جعلی، ثابت کر چکے ہیں اور جس مونٹی سیلو یونیورسٹی سے بابر اعوان اپنی، پی ایچ ڈی، کی ڈگری لینی کی بات کرتے ہیں وہ انصار عباسی اور کئی صحافیوں کے دعوے کے مطابق ان کو ای میل کے ذریعے بتا چکی ہے کہ وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری ہی نہیں کرتی ہے۔ اس پر بابر اعوان کے خلاف کبھی اسلامی نظریاتی کونسل نے کوئی بیان دیا ہو؟

اسلامی اسکالر اور ٹی وی میزبان عامر لیاقت حسین کی ڈگری جعلی ہونے کی کہانیاں بھی عام ہیں۔ اس کے خلاف کبھی مولانا شیرانی بولے ہوں؟ دفاعی تجزیہ نگار ماریہ سلطان کی ڈگری جعلی ہونے کی، بریکنگ نیوز، تو ابھی ابھی آئی ہے۔ اس پر کونسل کے معزز چیئرمین اور ممبران نے کوئی بیان داغا ہو؟ جمشید دستی جعلی ڈگری کے ساتھ آج بھی پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے۔ سابق وفاقی وزیر تعلیم شیخ وقاص اکرم مبینہ جعلی ڈگری کے ساتھ وزارت انجوئے کرتا رہا۔ کوئی بولا؟ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ اسلم رئیسانی نے دھڑلے سے کہا کہ، ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ آپ ہاتھوں میں تسبیح لے کر بیٹھے رہے۔ کیوں؟ جھوٹ، فراڈ، دو نمبری، جعلسازی پر آپ کے ضمیر نے کوئی ملامت کیوں نہیں کی؟ ان لوگوں نے ملکی یا عالمی سطح پر کوئی کارنامہ بھی سر انجام نہیں دیا ہوا۔ جعلی ڈگریوں کی وجہ سے یہ پاکستان کی شہرت کو خراب کرنے کا باعث بنے۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے انہیں، معاف، ہی رکھا۔ لیکن جس ڈاکٹر عبدالسلام نے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ اسے آپ، معاف، کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ سلام ہے آپ کی متعصبانہ سوچ کو۔ سلا م ہے آپ کے عجیب و غریب ضمیر کو۔ سلام ہے قسم سے سلام ہے۔

آخری بات کہ کیا قادیانی پاکستان کے شہری نہیں ہیں؟ کیاپاکستانی آئین نہیں ان کے حقوق سے کسی بھی طور محروم رکھنے کا کہتا ہے؟ کیا اسلامی شریعت انہیں کمتر درجے کا انسان یا شہری گرداننے کا درس دیتی نظر آتی ہے؟ کیا پاکستان میں پہلے کسی کے نام پر کسی سڑک، شہر، سنٹر، میوزیم، پارک، چوک یا علاقے کانام نہیں رکھا گیا؟ اگرلیبیا کے قذافی جیسے بد ترین ڈکٹیٹر کے نام پرپنجاب کے شہر لاہور کے، قذافی اسٹیڈیم، کا نام رکھا جا سکتا ہے۔ اگر بے نظیر بھٹو جیسی سرے محل اور سوئس اکاؤنٹس رکھنے کے حوالے سے، شہرت یافتہ، خاتون کے نام پر، سندھ کے شہر، نواب شاہ، کا نام تبدیل کر کے، بے نظیر آباد، کیا جا سکتا ہے۔ اگر 69 سال بعد بھی پنجاب کے شہر کا نام، ٹوبہ ٹیک سنگھ، رہ سکتا ہے۔ جیکب آباد ہو سکتا ہے۔ اگر حسن نثار آج بھی فیصل آباد کو، لائل پور، لکھنے پر اصرار کر سکتا ہے۔ تو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی کے ایک سنٹر کا نام ملک کاوزیرِ اعظم ایک نوبیل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر کیوں نہیں رکھ سکتا ہے؟ مولانا شیرانی اور کونسل کے ممبران کو کبھی کرپٹ اور پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے والے لوگوں کے نام پرشہروں، سنٹروں اور چوکوں چوراہوں کے نام رکھنے پر بھی اعتراض کرنا چاہیے۔ کبھی اس کے اوپر بھی تحفظات کے لیے منہ کھولنا چاہیے۔ اور کبھی ہوسکے تو اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کے دیکھ لینا چاہیے کہ، کیا اس ملک کو ہم نے بھی کچھ دیا ہے کہ نہیں؟ اور دیا ہے تو کیا؟ بدنامی یا۔ ؟ ، اصلی تے وڈا، سچ تو یہی ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان اور اٹھارہ کروڑ لوگوں کی عزت میں اضافے کا باعث بنے اور آپ لوگ۔ ؟ صرف اپنی اپنی ڈگری، ہی کو دیکھ لیں۔ باقی کچھ دیکھنے کی شاید ضرورت نہیں (باقی لوگ اچھی طرح، دیکھ، چکے ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments