بندوقوں کے سائے میں بے نظیر کا غریب ووٹر


دن کی روشنی میں ٹنڈو جام شہر میں داخل ہوئے تو سڑک کے کنارے کھڑے پولیس والے، ٹھیلے والے، راہگیر ہمیں یوں سلیوٹ کر رہے تھے جیسے ان گاڑیوں میں بینظیر خود موجود ہو۔ لوگ شہر کے راستوں پر ہمیں ٹولیوں کی صورت روک رہے تھے اور ہماری گاڑیوں کے گرد رقص کر رہے تھے۔ نعرہ ایک ہی تھا۔ یا اللہ یا رسول۔ بینظیر بیقصور۔

سمجھ نہیں آتا تھا کہ campaign کیسے شروع کی جائے۔ بس بغیر سوچے سمجھے شہر کی گلیوں میں پیدل اتر پڑے۔ گلیوں میں داخل ہوتے تو بچے ماؤں کو آوازیں دیتے ہوئے آگے آگے دوڑتے پھر رہے ہوتے کہ بینظیر کی عورتیں آئی ہیں۔ گھروں کے دروازے کھل جاتے۔ عورتیں اور مرد باہر نکل نکل کر ہماری منتیں کرتے کہ اپنے مبارک قدم ہمارے گھر لے آئیں۔ ہم بھٹو کے شیدائی ہیں۔ ہم بینظیر کے شیدائی ہیں۔ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے۔ معاملہ اب نوید کے تعارف کا نہیں، بھٹو اور بینظیر کے شیدائیوں کو خوش کرنے کا تھا۔ گھروں میں اندر گئے تو انہیں وہ اعلیٰ جگہ نہ ملتی تھی جہاں ہمیں بٹھایا جائے۔ جلدی جلدی نئی رلیاں اور کھیس بچھائے جاتے۔ اس کے بعد سب سے پہلے ہمارے سامنے بھٹو کی تعزیت پیش کی جاتی۔ آنسوؤں کا سیلاب امڈ آتا تھا۔ یہ مرحلہ ختم ہوتا تو بینظیر کا حال پوچھا جاتا۔ ان کا خیال ہوتا تھا کہ ہم بینظیر کی سہیلیاں ہیں۔ دن رات اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کیسی ہے وہ؟ طبیعت کیسی ہے اس کی؟ دکھتی کیسی ہے؟ باپ کا دکھ پریشان تو نہیں کرتا؟ ہمارا سلام دینا۔ کہنا تو ہماری بیٹی ہے۔ تیری عزت پر سے ہم قربان۔ ہم پیغام پہنچانے کا جھوٹا وعدہ کرتے اور اگلے گھر میں چلے جاتے۔ کھانے کے وقت پر جو گھر ہمیں روک لیتا اس گھر میں ہمارا قافلہ ہی نہیں پورا محلہ جمع ہو جاتا۔ سب کو کھانا کھلایا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ بینظیر کی مہمانی ہے۔

وہ چھوٹا سا گاؤں نہیں بھولوں گی جہاں بجلی نہیں تھی۔ ہمیں جس کے سامنے سے گذر کر آگے جانا تھا اور جس کے ننگے پیر، میلے پھٹے کپڑوں والے باسیوں نے جلتے لالٹین اونچے اٹھائے ہوئے ہمارا راستہ روک لیا تھا اور ہمیں مجبور کیا تھا کہ ہم ان کے گاؤں میں چلیں۔ اور جب لالٹینوں کی روشنی میں ہم ان کے ساتھ ایک کچے گھر کے کچے آنگن میں ٹوٹی پھوٹی چارپائیوں پر آ کر بیٹھے تو تمام مرد اور عورتیں زمین پر بیٹھ گئے۔ پہلے انہوں نے ہم آواز ہو کر بین کر کے بھٹو کا پُرسا دیا۔ پھر وہ سب بیچ صحن میں کھڑے ہوگئے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر ہم آواز ہو کر کہتے جاتے تھے۔ یا اللہ یا رسول۔ بینظیر بے قصور۔

آسمان پر چاند چڑھ آیا تھا اور ماحول برف کی طرح ریڑھ کی ہڈی میں جم سا گیا تھا۔

پھر اس وڈیرے کی نوّے سال سے بھی اوپر کی عمر کی، جھریوں بھری، ہڈیوں کا پنجر ماں، جس کے وڈیرے بیٹے نے انکار کر دیا تھا ووٹ دینے سے۔ گھر کی ایک عورت نے کہا کہ اس کی ماں کو بتاؤ۔ میں نے ماں کو باتوں باتوں میں بتا دیا۔ ماں نے دبنگ بیٹے کو بلایا۔ بیٹے کو ہم سب کے سامنے للکارتے ہوئے کہا کہ میں دودھ نہیں بخشوں گی اگر تو نے بھٹو کی بیٹی کو ووٹ نہ دیا۔ بیٹے نے ماں کے سر پر قسم اٹھا کر ووٹ کا وعدہ کیا۔

وہ صندوقوں میں برسوں سے رکھے بوسیدہ دوپٹے، جو لوگ ہمیں بینظیر کے نام پر پہناتے تھے۔ وہ پانی جو لوگ کچے راستوں پر روک کر، شہید بھٹو کی نیّت پلاتے تھے۔ وہ کچے گھروں میں چُٹکی چُٹکی بھر چینی جو لوگ بینظیر کی جیت کی دعا میں منہ میٹھا کرنے کے لیے ہمارے منہ میں ڈالتے تھے۔

ہماری ایک کزن کی شکل بینظیر بھٹو سے ملتی تھی۔ پتہ نہیں کیسے یہ بات مشہور ہو گئی کہ وہ صنم بھٹو ہے۔ عورتیں اس کے ہاتھ چومتیں اور پیروں کو چھوتیں کہ بھٹو کی بیٹی ہے۔ بالآخر ایک دن اسے کہنا پڑ گیا کہ میں بھٹو کی بیٹی نہیں ہوں تو بھی کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔

ہم میں سے کسی کو نعرے لگانے نہیں آتے تھے۔ نہ ہی یہ کام ہم میں سے کسی کے لیے ممکن تھا۔

الیکشن کے قریب آتے آتے پیپلز پارٹی کی ایک پرانی جیالی ہمارے ساتھ آ ملی تھی۔ یوں بھی قافلہ بہت بڑا ہو چکا تھا۔ ٹنڈو جام کے کھاتے پیتے، پڑھے لکھے گھرانوں کی بیٹیاں رضاکارانہ طور پر اس قافلے میں شامل ہوتی گئی تھیں۔ آس پاس کے نوجوان آپ ہی آپ ہمارے گائیڈز اور گارڈز بن گئے تھے۔

پیپلز پارٹی کی وہ جیالی کھلی گاڑی میں بیٹھتی تھی اور گاڑی کو قافلے میں سب سے پیچھے رکھتی تھی۔ ہم سب اس کے ساتھ بیٹھنے سے گھبراتے تھے کیونکہ وہ اس کھلی گاڑی میں کھڑے ہو کر نعرے لگایا کرتی تھی۔ جہاں جہاں سے گذرتے تھے، اس کی آواز کی دل چیرنے والی گونج اس آخری گاڑی کے پیچھے دھول سے اٹے لوگوں کا ایک ہجوم جمع کرتی جاتی تھی جو اس گونج میں اپنی گونج شامل کرتے جاتے اور گاڑی کے پیچھے پیچھے دوڑتے جاتے۔

یا اللہ یا رسول۔ بینظیر بے قصور۔

ایک بار میں اس کے ساتھ بیٹھ گئی تھی اس کھلی گاڑی میں۔ رات کا وقت تھا اور campaign کے بلکل ہی آخری دن تھے۔ جیالی تقریباً گاڑی سے باہر لٹک رہی تھی۔ اس دن وہ نعرے لگا رہی تھی۔ وزیرِاعظم۔ بینظیر۔ وزیراعظم۔ بینظیر۔

ٹنڈو جام شہر کی سڑکیں تھیں اور پیچھے پیچھے آتا ہجوم بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ عورتیں، مرد، بچے ایک ساتھ رقص کرتے ہوئے۔ وزیرِاعظم۔ بینظیر۔ وزیراعظم۔ بینظیر۔

پک اپ ہجوم میں گھر چکی تھی۔ بنظیر بے قصور کا نعرہ اور بھٹو کا غم بینظیر کی جیت کے یقین میں بدل چکا تھا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments