بندوقوں کے سائے میں بے نظیر کا غریب ووٹر


سندھی سماج میں عورتیں اور مرد، لڑکے اور لڑکیاں بیچ سڑکوں پر مل کر رقص کریں، آج بھی اس کا تصوّر ممکن نہیں۔ سب عام لوگ تھے۔ کسی کو ہم نہیں جانتے تھے۔ دھرتی میں سے اُگ آئے ہوئے بی بی کے ووٹرز تھے یہ۔ بھٹو کی بیٹی کے ووٹرز ہی نہیں اس دھان پان سی نہتی، بینظیر کے ووٹرز تھے جس نے ضیاء کی اس آمریت کے خلاف جدوجہد کی تھی جس کے آسیب کے سائے آج تک پاکستان میں سرسراتے پھر رہے ہیں۔

ان ہی دنوں میں نے جانا کہ سندھی مزاجاً آمریت کے خلاف امن کے ساتھ مزاحمت کرنے والی قوم ہے۔ یہ تو اپنے باپ کے جنازے پر اپنی عورت کو نہ نکلنے دیں۔ مگر یہ آمریت کے خلاف مزاحمت اور آمریت کو شکست کا رقص تھا۔ مگر اس کے لیے لیڈر کا بی بی جیسا ہونا شرط تھا۔

مشرف کے دور کے الیکشن کا ایک واقعہ میرے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ نوید قمر اپنے نام اور سیاسی شناخت کے ساتھ پچھلے تمام الیکشنس اب اپنے آبائی حلقے سے نینشنل اسمبلی کی سیٹ پر جیتتے ہوئے آ رہے تھے مگر وہ الیکشن بھی آمریت کے آسیب تلے تھا۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے مشرف نے وڈیرے کو ووٹ کا لین دین اور منڈی میں اس کی قیمت لگانا سکھا دیا تھا۔

الیکشن کا دن تھا۔ میں خواتین کی پولنگ پر نوید کی چیف ایجنٹ تھی۔ میرے ساتھ ہیپی (مسز نوید قمر) بھی تھی۔ پولنگ اسٹیشنس کا راؤنڈ لیتے ہوئے گذرے تو کسی نے راستے میں روک کر کہا کہ مہربانی فرما کر گوٹھ سونوُ عالمانی جائیں، وہاں پولنگ بند ہے۔ ہم دونوں تنہا تھیں۔ تیسرا صرف ڈرائیور۔ گوٹھ سونوُ عالمانی میں داخل ہوئے تو قدم قدم پر وڈیرے کے مسلح بندے گشت کر رہے تھے۔ الیکشن کا دن ہونے کے باوجود ہر طرف ہو کا عالم۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر گئے تو ڈھیروں مسلح وردی والے بیٹھے تھے۔ پریزائڈنگ آفیسر کی طرف گئے تو وہ بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ ہمارے پولنگ ایجنٹس نم آنکھوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ دور دور تک ووٹر کا نام و نشان نہ تھا۔ پتہ چلا کہ ووٹرز کو بندوقوں کے بل پر روک دیا گیا ہے وڈیرے کی طرف سے کہ جو ووٹ دینے نکلے گا اس پر گولی چل جائے گی۔ پریزائیڈنگ آفیسر نے کہا کہ میں بے بس ہوں۔ وردی والوں کے سامنے ہیپی نے احتجاج کیا تو وہ ساکت و سپاٹ یوں بیٹھے رہے جیسے پتھر سے بنے ہوں۔

پولنگ اسٹیشن سے باہر نکل کر کسی بھی راہگیر سے بات کرنے کی کوشش کی تو راہگیر سہم کر نظریں چرا کر گذر جاتا۔ مسلح بندے ہمارے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔ ہیپی جذباتی ہوگئی اور ہم دونوں قریب کے کچے گھروں میں گھس گئے۔ مرد عورتیں اپنے اپنے گھر میں محصور تھے۔ گھروں کے صحن ہر گاؤں کے گھروں کی طرح آپس میں جُڑے ہوئے تھے۔ ہیپی ایک گھر کے صحن میں بیٹھے لوگوں کے سامنے مزید جذباتی ہوگئی۔ بی بی کا ووٹ ہے یہ۔ بی بی کو ووٹ نہیں دینا؟ وہ بولے جا رہی تھی، گھروں سے نکل نکل کر لوگ جمع ہوتے جا رہے تھے۔ رو رہے تھے۔ مردوں نے کہا کہ ہم نکلے تو ہم پر گولی چل جائے گی۔ آپ ہماری عورتوں کو لے جائیں اور ووٹ دلائیں۔ عورتوں کا ہجوم ہمارے ساتھ نکل آیا۔ ووٹ ڈلوا دیا۔ مگر جب وہ ووٹ دے کر پولنگ اسٹیشن سے باہر نکلیں تو وڈیرے کے مسلح لوگوں نے انہیں گھیر لیا۔ اب اندازہ ہو رہا تھا کہ معاملہ کتنا خطرناک ہے۔ میں اور ہیپی وردی والوں پر چیخ رہے تھے کہ آپ لوگ کس کام کے لیے یہاں بیٹھے ہیں! ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ انہیں ان سے بچائیں۔ وہ یوں پتھر کے بنے بیٹھے رہے جیسے سانس بھی نہ لیتے ہوں! ہیپی ان عورتوں کی وجہ سے اب روتے ہوئے پریزائڈنگ آفیسر کو کہہ رہی تھی کہ ہمیں یہ ووٹ نہیں چاہیں۔ پھینک دیں انہیں ڈبوں سے نکال کر۔ رجیکٹ کر دیں۔ وہ بھی اسی پتھر کا بنا تھا جس سے وردی والوں کی تعمیر ہوئی تھی۔ اب میں اور ہیپی ان مسلح پہریداروں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے تھے اور ان عورتوں اور ان کے مردوں کی زندگیوں کی بھیک مانگ رہے تھے۔ اس کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے عورتوں کو واپس گھر جانے دیا۔

آدھے سے زیادہ دن اس کشمکش میں گذر چکا تھا۔ اسی کشمکش کے دوران مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ علاقہ مشہور ترقی پسند اور انقلابی خیالات رکھنے والے اور انتہائی پڑھے لکھے اور انسانی حقوق کے علمبردار عالمانی خاندان کا ہے، جن کے سینے کا درد رہا ہے سندھ کے ساتھ ہونے والی بے انصافیاں! اور آج اس پورے خوفناک کھیل کے پیچھے عالمانی صاحب خود ہیں۔ پولنگ اسٹیشن ان کے گھر اور اوطاق کے پہلو میں بنے سرکاری اسکول کی عمارت میں تھا۔ یہ سب جاننے کے بعد میں سُلگ اٹھی۔ اب بیچ چوراہے پر میں کھڑی عالمانی صاحب کو للکار رہی تھی اور شرم دلا رہی تھی۔ میری آواز شاید دور دور تک جا رہی تھی۔ عالمانی صاحب کے بھائی نکل آئے جو خود بھی ترقی پسند رائٹر تھے۔ وہ مجھے ٹھنڈا کرنا چاہ رہے تھے مگر میرا جنون سوا ہوتا چلا گیا کہ یہ ہے آپ لوگوں کا انقلاب! تم لوگ کون ہوتے ہو ووٹ کا حق چھیننے والے۔ یہ ہے وہ سندھ جو دیکھنا چاہتے ہو وغیرہ وغیرہ۔ میں چیخ رہی تھی اور لوگوں کے سر آہستہ آہستہ دیواروں پر سے نمودار ہو رہے تھے۔ اچانک ایک تقریباً اٹھارہ سال کی عمر کے ایک نوجوان لڑکے کا سر دیوار کی دوسری طرف سے نمودار ہوا، جس کی مونچھیں بھی ٹھیک سے بنی نہیں تھیں۔ اس نے دیوار کی دوسری طرف سے مجھے مخاطب کیا۔ آپ نورالہدیٰ شاہ ہیں؟ میں نے کہا ہاں۔ اب وہ لڑکا بول رہا تھا۔ یہاں کا ایک ایک ووٹ بھٹو کا ہے۔ ہم بھٹو کے ہیں۔ یہ ہمیں ووٹ نہیں دینے دے رہے۔ انہوں نے طاقت کے بل پر ہمیں روک دیا ہے۔ آپ ووٹ دلائے بغیر یہاں سے نہ جائیں۔ انہیں منہ پر بتائیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے آج تک کسی نے سچ کہنے کی جرأت نہیں کی۔ لڑکا بول رہا تھا اور میں بھٹو کے اس نئے ووٹر کو دیکھ رہی تھی جس نے شاید ابھی زندگی کا پہلا ووٹ بھی نہیں دیا تھا۔

شام ہونے کو تھی اور پولنگ کا وقت ختم ہونے میں بمشکل بیس منٹ باقی تھے۔ ہم اسی چوراہے پر کھڑے لڑ رہے تھے کہ اچانک منظر بدل گیا۔ ٹریکٹر میں بندھی ٹرالیاں اچانک دھول اڑاتی ہوئی کسی انجانی سمت سے نمودار ہوئیں، جن میں کئی بوڑھے، بوڑھیاں، عورتیں اور مرد بھرے ہوئے تھے۔ وہ سندھی میں نعرے لگاتے ہوئے پولنگ اسٹیشن کی طرف آ رہے تھے۔ یہ ووٹ کس کا؟ بینظیر کا۔ یہ ووٹ کس کا؟ بھٹو کا۔ ہجوم کا ہجوم اپنے بوڑھے بوڑھیوں کو گود میں اٹھائے پولنگ اسٹیشن میں گھس گیا کہ وقت ختم ہونے کو تھا۔

شام ڈھل گئی۔ میں اور ہیپی وہاں سے نکل رہے تھے۔ مسلح افراد بدستور قدم قدم پر کھڑے تھے۔ ہیپی نے سہمی ہوئی آواز میں سرگوشی کی۔ نور آج ہمیں گولی لگ جائے گی۔ میں نے اسے کہا سائڈ مرر میں دیکھو۔ راستے میں آتے مسلح آدمی ہمیں ذرا زرا سا ہاتھ اٹھائے وکٹری کا نشان دکھا رہے تھے۔

اور جام ساقی کے گھر کی وہ شام جب بینظیر جام ساقی کی والدہ کی تعزیت کے لیے آئی تھیں۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے۔ ایک چھوٹی بچی بینظیر کو قریب سے دیکھنے کے لیے ان کی پشت پر چڑھ آئی تھی۔ اس اچانک حملے سے گھبرا کر پہلے تو انہوں نے اس بچی کو پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر ڈانٹ دیا۔ پھر مڑ کر دیکھا۔ قریب بلا کر سوری کہا اور پیار کیا اور دھیمی آواز میں مسکرا کر کہا۔ یہ میری کل کی ووٹر ہے۔

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments