بنی گالہ کا کچا شہد اور شہادتیں


\"\"

امیر مے نوشی کرے تو اسے شہد کہا جاتا ہے، یا پھر مشروب مشرق یاکوئی بھی اور نفیس سا نام، غریب کرے تو اسے شراب نوشی کا تعنہ دیا جاتا ہے۔ اور دیا بھی جانا چاہیے، امیر شراب پی کر مر نہیں جایا کرتے، نا ہی آپے سے اس قدر باہر ہوا کرتے ہیں، وطن عزیز کی ایسی کون سی پوش آبادی ہے جہاں شراب نہیں پی جاتی؟ لیکن پی مہنگی جاتی ہے، غریب چونکہ افورڈ نہیں کرسکتا، دکھ اور درد وغیرہ امیر سے زیادہ رکھتا ہےتو رخ کر لیتا ہے سستی شراب کا اور جو سستی ہے وہ غیر معیاری بھی ہے۔ خبر ہے کہ کرسمس کے موقع پر مسیحی بھائیوں نے جشن منایا تو غیر معیاری شراب استعمال کر بیٹھے جسے حرف عام میں کچی شراب کہا جاتا ہے، قریب تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ آپ کچھ بھی کہیں وزیر اعلی سندھ نے جب شراب پی کر مرنے والے افراد کو شہید کہا تو مجھے ان سے اتفاق تھا، کیوں؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں دل تو غریب کا بھی ہے، بے چارہ مہنگی والی تو استعمال کر نہیں سکتا، سستی پی اور مارا گیا، اب شاہ صاحب اسے شہید بھی نا کہیں؟

بات محض کرسمس ہی کی نہیں، بچھلی عید پر مسلمان بھائیوں نے بھی جشن کے نام پر مدہوش ہونے کو ترجیح دی تھی اور اندرون سندھ خاصی بڑی تعداد میں افراد موت کا شکار ہوئے تھے۔

ثابت یہ ہوتا ہے کہ عوام خوشیوں کے موقع پر، شراب کا استعمال کرتے ہیں، یا زیادہ استعمال کرتے ہیں، پھر چاہے عید ہو یا کرسمس، اب سوال یہ اٹھتا ہے اگر غریب عوام کا ہر دن ہی عید ہو، روزانہ ہی جشن ہو تو کیا وہ روزانہ ہی شوق فرمایا کریں گے؟

حیرت انگیز طور پر اب تک مذہبی رہنمائوں اور عدالتوں نے شراب کی فروخت پر تو پابندی عائد کی ہے، مگر کچی یا مضر صحت شراب کے خلاف کوئی خاص بات میری نظر سے نہیں گذری۔ پاکستان کے ہر شہر میں کچی شراب آسانی سے میسر ہے۔ معیاری مشروب کے لیے تو پھر بھی آپ کو تردد کرنا پڑتا ہے، غیر معیاری کے لیے بلکل بھی نہیں۔ ثابت یہ بھی ہوا، مسلم اور غیر مسلم سب ہی شوق فرماتے ہیں بس بھٹو کی طرح تسلیم کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔

1977سے قبل شہر قائد میں بہت سے کیفے ہوا کرتے تھے جہاں یہ مشروب سرعام پیش کیا جاتا تھا۔ اور ہر قیمت میں دستیاب بھی تھا۔ جس کا فائدہ یہ تھا کہ کوئی بھی شخص خراب یا زہریلی شراب نہیں پیتا تھا۔ اس کے بعد ہم نے ایک گناہ کو جرم بنا دیا۔ پابندی عائد کردی۔ سزائیں مقرر کردیں تو معاشرے کے نام نہاد شرفاء نے تو اپنے لیے راستے تلاش کر لیے تاہم غریب اس میں مارے گئے۔ پابندی کے بعد اس مشروب کی قیمتوں میں حیران کن حد تک اضافہ ہوگیا اور معاشی طور پر پسماندہ عوام نے دیسی یا کچی شراب کا رخ کرلیا۔ جس سے اموات کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ شراب نوشی نا کبھی پہلے تھمی تھی اور نا ہی تھمے گی۔

ہمارے یہاں زیادہ تر دو طرح کے لوگ شراب نوشی کا شوق فرماتے ہیں۔ ایک جو معاشی طور پر نہ صرف بہت مضبوط ہیں بلکہ اکثر ہم پر حکومت بھی فرماتے ہیں۔ ان کی نا تو آپ شراب بند کروا سکتے ہیں، نہ ہی چوری! ثبوت چند ماہ قبل ایک سیاستدان جمشید دستی صاحب فراہم کرچکے ہیں۔ اب آتے ہیں دوسرے طبقے کی طرف جو کہ معاشی طور پر انتہائی کمزور ہیں مگر شوق یہ بھی فرمایا کرتے ہیں۔ اچھی شراب کبھی میسر آگئی تو فبہا وگرنہ کچی جس کو پی کر یہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے اس مرتبے پر انہیں سابق وزیر اعلی سندھ فائز کرچکے ہیں۔ اموات چونکہ غیر معیاری مشروب کے استعمال سے ہوتی ہیں تو روک تھام بھی اس ہی کی کرنی ہوگی۔ اس سلسلے میں بہت سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ معیاری شراب کی قیمت کم کی جائے، غیر معیاری بنانے والے تمام کارخانے بند کیے جائیں، جو لوگ اس نشے میں مبتلا ہیں اور چھوڑنا چاہتے ہیں ان کا علاج سرکاری سطح پر کروایا جائے۔ اس جیسے مزید اقدامات کیے جائیں، محض پابندی عائد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، جب تک طلب موجود ہے، سپلائی بھی موجود رہے گی، غیر معیاری سے بہتر ہے، معیاری فراہم کردی جائے۔ اموات کا سلسلہ بہرحال تھمنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments