غالب اپنے ہی کوچے میں بے آبرو ہے


\"\"

میں نے ہندُستان کا سفر محض تاج محل دیکھنے کے لیے کیا تھا؛ دلی پہنچ کر میرے ہم راہیوں کا اپنا اپنا پروگرام تھا۔ نئی دلی کے ایک اسکول میں قیام کیے، دو دن ہوچکے تھے؛ جہاں‌ (امرتسر‌ کے) میزبانوں نے ہماری سکونت کا بندوبست کیا تھا۔ گروپ لیڈر تھا کہ آگرہ جانے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ سبھی کے پاس پورٹ اسی کے پاس تھے، اور باہر نکلتے یہ خوف جکڑ لیتا تھا، کہ کوئی شناخت مانگے گا، تو کیا کہیں گے۔ تیسرے روز کچھ دوست امرتا پریتم سے ملاقات کا ارادہ لے کر نکلے، مجھے غصہ تھا کہ جب تاج محل دیکھنے نہیں جاتے، تو امرتا سے ملنے کیوں‌ جاوں۔ کیا امرتا، تاج محل سے حسین ہے؟ قسم کھا لی کہ تمھارے ساتھ نہ جاوں گا۔ چند دوست نظام الدین اولیا کے مزار کو ہوئے؛ مجھے نظام الدین اولیا نے تو نہیں، لیکن اسد اللہ بیگ غالب نے پکارا۔ سوچا گر صیاد آ لیتا ہے، تو آ لے۔ تن تنہا پرانی دلی کو روانہ ہوا۔

\"\"نئی دلی سے جامع مسجد کے لیے آٹو رکشا والے نے اسی رُپے طلب کیے۔ جتنا فاصلہ تھا، اس حساب سے یہ کرایہ مجھے کم لگا۔ کسی نے یہ بتایا تھا، کہ وہاں کہیں چاندنی چوک ہے، اور اسی کے اطراف میں محلہ بلی ماراں، کوچہ قاسم جان اور وہیں غالب کا پتا ملتا ہے۔

2001ء کا موسم سرما؛ جامع مسجد سے پیدل سفر کا آغاز کیا، لال کنویں کا پتا پوچھتا پھرا؛ ایک پبلشر کی تلاش تھی، جس نے ”گوندنی والا تکیہ“ شائع کیا تھا۔ پاکستان سے ایک دوست کی فرمائش تھی، کہ ”گوندنی والا تکیہ“ کا وہی پرانا اڈیشن چاہیے، جو اس پبلشر نے شائع کیا تھا۔ لال کنویں کے بارے میں کسی نے کوئی خبر نہ دی۔ ایک اور دوست نے ”کمپنی آف ویمن“ منگوائی تھی، ان دنوں‌ یہ ناول پاکستان میں بین تھا۔ ایک کھوکا نما دُکان پر دو نو عمر بیٹھے تھے، کمپنی آف ویمن اور چند دوسری کتابیں لیں؛ غلطی سے پوچھ بیٹھا، کہ ”مہاتما گاندھی کی بائیو گرافی ہے؟“ بڑے لڑکے نے نفرت سے جواب دیا، ”کہاں‌ کا مہاتما؟“ مجھے حیرت ہوئی۔

\"\"”مسلمان ہو؟“
”نہیں! ہندو۔“
تو پھر؟۔۔ گاندھی کے نام پر غصہ؟“
لڑکے نے حقارت سے کہا، ”اُس نے بٹوارا کیا۔ وہ نہ مانتا، تو بٹوارا نہ ہوتا۔“
قائد اعظم، سرسید، مہا آتما، علامہ اقبال اور اسی طرح کے بہت سی شخصیات ہیں، جن کے القابات، خطابات ان کے نام کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ میں نے گاندھی کو ”مہا آتما“ کہا، تو ان معنوں میں نہیں، بل کہ ایسے ہی جیسے اقبال کے نام سے پہلے ”علامہ“ کہنے کی عادت ہے؛ جیسے سید سے پہلے ”سر“ نہ لگایا جائے، تو سمجھنا مشکل ہو، کس کا ذکر ہے۔ اُس لڑکے کی باتوں سے مجھے تکلیف ہوئی کہ اس نے گاندھی کو نازیبا الفاظ میں پکارا تھا۔ نفرت کے بیوپاری ہر جا ہیں، لیکن خریداروں پہ افسوس ہوتا ہے، کہ وہ کیوں خریدتے ہیں۔

\"\"

ایک بار پھر ٹانگوں کو زحمت دی۔ معلوم نہیں کون کون سی گلیوں سے ہوتا، محلہ بلی ماراں کا پتا پوچھتا، مغرب اور عشا کے درمیان، اُس محلے کے نکڑ پر پہنچا؛ جہاں غالب کا نشان ملتا ہے۔ ایسے میں ہر گام پر گل زار کی آواز تعاقب کرتی آ رہی تھی۔

بلی ماروں کے محلے کی، وہ پے چیدہ دلیلوں کی سی گلیاں
سامنے ٹال کے نکڑ پہ بٹیروں کے قصیدے
گڑگڑاتی ہوئی پان کی پیکوں میں وہ داد، وہ واہ وا
چند دروازے پر لٹکے ہوئے بوسیدہ سے کچھ ٹاٹ کے پردے
ایک بکری کے ممیانے کی آواز
اور دھندلائی ہوئی شام کے بے نور اندھیرے
ایسے دیواروں سے منہ جوڑ کر چلتے ہیں، یہاں
چوڑی والاں کی کٹڑی کی بڑی بی جیسے
اپنی بجھتی ہوئی آنکھوں سے دروازہ ٹٹولے
اسی بے نور اندھیری سی گلی قاسم سے
اک ترتیب چراغوں کی شروع ہوتی ہے
اک قران سخن کا صفحہ کھلتا ہے
اسد اللہ خان غالب کا پتا ملتا ہے

\"\"

ایک ثمر فروش سے پوچھا، ”کوچہ قاسم جان کس طرف ہے؟“ اس نے پوچھا، ”کس کے گھر جانا ہے؟“ چل چل کر نڈھال تھا، منزل قریب تھی، تو محظوظ ہوتے کہا، ”غالب کے گھر۔“
میرا پکارا ہوا نام دُہرایا گیا، ”گالب؟“
میں مسکرا اٹھا، ”نہیں! غالب! غالب کو نہیں جانتے؟“ لڑکے کو شبہہ ہوا، کہ میں کسی خاص ہستی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں؛ سمجھ دار تھا، فورا سوال کیا، ”وہی تو نہیں جسے دیکھنے کو لوگ دور دور سے آتے ہیں؟“ مجھے گمان ہوا، کہ سبھی تاج محل دیکھنے آتے ہوں گے، اُن میں‌ سے کچھ بھٹک کر یہاں آ پہنچتے ہیں، یہ انھی کی خبر دے رہا ہے، سو اقرار کیا، ”ہاں وہی۔“ اس نے اپنا کیا نام بتایا، بھول گیا لیکن یہ یاد ہے کہ مسلمان لڑکا اپنا خوانچہ وہیں چھوڑ کر میرا خضر ہوا۔ ہم ”گالب“ کے گھر کی جانب بڑھے۔ اس چند قدم کی مسافت میں، میں نے پوچھا، ”تمھیں پتا ہے، غالب کون ہے؟“ لا شعوری طور پر میں‌ یہ سننے کا مشتاق تھا، کہ ”ہم بتلائیں کہ کوئی بتلائے کیا۔“
”سنا ہے، کوئی \’کوی\’ (شاعر) تھا۔ اس جگہ کو دیکھنے پردیس سے بہت لوگ آتے ہیں۔ انگریز بھی۔“

\"\"
مجھے حیرت ہوئی کہ انگریز بھی یہاں آتے ہیں، اور مزید حیرت اس بات پر کہ اسے غالب کے بارے میں نہیں معلوم۔ جانتے یہاں‌ (پاکستان میں) بھی کتنے ہوں گے، کہ غالب کون ہے، لیکن قائد اعظم، علامہ اقبال، سرسید، اور اسی طرح کے دیگر ناموں کی طرح ”غالب“ کے نام سے تو واقف ہی ہیں۔ گو یہ شخصیات، اور ان کے ”کار اور نامے“ کیا ہیں، اس کی تو کئی سند یافتہ لوگوں کو بھی خبر نہیں۔ میں نے پوچھا، پڑھے لکھے ہو؟ اس نے چھہ سات جماعتیں پڑھنے کا اعتراف کیا۔ میں نے کریدا، ”تو اردو کی کتاب میں غالب کی شاعری نہیں پڑھی؟“ اس نے جواب دیا، ”ہم ہندی میں پڑھے ہیں۔“ چناں چہ غالب کو پڑھنے کا سوال ہی عنقا ہوا۔ مجھے ان پاکستانیوں ادیبوں کے خدشات دُرست معلوم ہوئے، جو ہندُستان آتے جاتے رہتے تھے، ان کے بہ قول ہندُستان میں اردو زبان کا مستقبل مخدوش ہے۔

\"\"

جسے غالب کا مکان کہا جاتا ہے، وہ ڈیڑھ دو مرلے کا احاطہ ہے۔ دیکھ کر ایسا جی اداس ہوا، کہ کیا کہوں۔ غالب کے زیر استعمال پاپوش، لباس، اور غالب کا بت، ملگجی اجالے میں مٹیالے شیشوں کے پیچھے سے منہ چڑاتے دکھائی دیے۔ داخلی دروازے کے اندر ہی ”پی سی او“ تھا۔ لاہور میں گھر کال کر کے اطلاع دی، کہ میں خیریت سے ہوں، کچھ فخریہ اندازمیں بتایا کہ غالب کے گھر سے کال کر رہا ہوں۔ پی سی او والے نے تاسف کا اظہار کرتے استفسار کیا، ایسا کیا ہے اس بھٹیارے میں کہ میں یہاں چلا آیا؟ پھر اس نے یہ بتانا ضروری سمجھا کہ یہ حویلی اس کے پرکھوں کی ہے، اور یہ شخص (غالب) ان کا کرایہ دار تھا۔ چوں کہ بے کار تھا، تو کبھی وقت پہ کرایہ نہ دیا۔ ہمارے باپ دادا نے ترس کھا کر اسے یہاں‌ رہنے دیا، اور اب سرکار نے اس کی یادگار بنا کر ان کی وراثت پہ ڈاکا ڈالا، ہتھیا لیا، یا یوں کہیے نا انصافی ہوئی۔ میں اس اپنے تئیں ”نواب آف لوہارو“ یعنی پی سی او ”پروپرائٹر“ سے پوچھے بنا نہ رہ سکا، کہ سرکار نے اس کونے کو ہتھیانے کی قیمت بھی تو ادا کی ہوگی؟ وہ مان کر دیا، لیکن پھر بھی ڈیڑھ دو مرلے گنوانے کا شکوہ کرتا رہا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ”غالب اکادمی“ نے مقدمہ لڑا تھا، کہ غالب کے گھر کو اس کی یادگار بنایا جائے۔ پی سی او والے کے ہذیان نے طبیعت مکدر کر دی تھی۔ میں یہ احساس لیے وہاں‌ سے نکلا:
دور دور تک شہرہ سہی؛ غالب اپنے کوچے میں، آج بھی بے آب رُو ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments