جیسی سیاست ویسی صحافت


\"\"
پریس کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے لیکن اس کا کردار اتنا اہمیت رکھتا ہے کہ باقی تین ستون اس کے گرد گھوم جاتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ نہ صرف صحافت آزاد ہو بلکہ صحافی بھی اسی معیار پر پورا اترتے ہوں۔ وطن عزیز میں اس ستون نے بڑے نشیب و فراز دیکھے۔ مثال کے طور پر سچ لکھنے یا حقائق سامنے لانے پر بعض صحافی مختلف ادوار میں پابند سلاسل ہوئے، کوڑے کھائے، معاشی مشکلات کا شکار ہوئے تو دوسری طرف حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملا کر بعض دوستوں نے لفافہ صحافت ہماری سیاست میں متعارف کروایا۔ مراعات لیں، اثاثے بنائے لیکن نہ تو خدمت کر سکے اور نہ نام و مقام بنا سکے۔

ہم نے دیکھا کہ جن ریاستوں میں میڈیا آزاد ہے، آج وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کہلاتے ہیں۔ اور جن ممالک میں یہ ستون پابند رہا یا حکمرانوں کے محل کے چکر لگاتا رہا۔ وہاں نہ سیاست سیاست رہی اور نہ ہی جمہوریت ارتقائی مراحل سے گزر کر مضبوط ہو سکی۔ نتیجتاً وہ من حیث معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہوئے۔ ہمارا معاشرہ بھی انہی میں سے ہے۔

امریکہ جس کو دنیا کا طاقتور ترین ملک سمجھا جاتا ہے اور وہاں کا صدر دنیا کا طاقتور ترین شخص کہلاتا ہے۔ لیکن ماضی میں ہم نے دیکھا کہ سابق امریکی صدر نکسن کو ایک صحافی نے کہاں سے اٹھا کر کہا پھینک دیا۔ جو پالیسیاں نکسن کو دنیا کی طاقتور ترین شخص اور امریکہ کو واحد سپر پاور بنانے جا رہی تھیں۔ انہی پالیسیوں میں نقب لگا کر ایک اینڈرسن نامی صحافی نے واٹر گیٹ اسکینڈل کے نام سے دنیا کے سامنے پیش کیا اور پھر جو ہوا، وہ پوری دنیا جانتی ہے۔

لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ یہاں میڈیا مختلف لابیوں کے ہاتھ میں کھیل رہا ہے۔ کون کس لابی کے لئے کام کر رہا ہے؟ کس چینل پر کس کی پگڑی، کیوں اور کس کے فائدے کے لئے اچھالی جا رہی ہے۔ یہ جاننا اور اس کا تجزیہ کرنا اب مشکل نہیں رہا۔ کیونکہ دنیا گلوبل ویلج سے سمٹ کر گلوبل ہٹ بن چکی ہے۔ اس ماحول میں ہمارا صحافتی معیار بڑھنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہوا ہے۔

وجہ کیا ہے؟ہمارا صحافتی معیار ہماری سیاست ہی کا عکاس ہے۔ جس ملک میں جیسی سیاست ہو گی وہاں ہمیں ویسی ہی صحافت ملے گی۔ جو صحافی اس اصول سے ٹکر لیتے ہیں، ان کو یا تو ملک چھوڑنا پڑتا ہے اور یا پھر دنیا۔ کہتے ہیں نا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ہمارے ہاں کی گندی سیاست نے گندی صحافت کی ضرورت کو محسوس کیا اور پھر اس کو پروان چڑھایا۔ جو عام آدمی کو ہمیشہ اپنی لہروں میں بہا کر لے جاتی رہی ہے۔ ہماری آبادی آدھی زیادہ ان پڑھ ہے، جو خواندہ ہیں ان کے سمجھ بوجھ کا بھی ہمیں پتہ ہے۔ یہاں تو اچھے اچھے میڈیا کی تبصروں پر تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ میڈیا رائے عامہ بنانے کا سب سے اہم ذریعہ ہے اس لئے یہاں مخصوص رائے بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہاں عام آدمی ہر اس چیز پر یقین کر لیتا ہے جو میڈیا اس کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس بیچارے کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے کون سے عوامل کارما ہوتے ہیں، کہاں اور کس طرح سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہننے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔

ہماری سیاست کو حقیقت کی عینک سے دیکھیں تو ایک طرف میڈیا زادوں کی بھرمار نظر آئے گی تو دوسری طرف میڈیا زدہ سیاست دان حیرت کی تصویر بنے نظر آئیں گے۔ پہلے سیاستدانوں کا سامنا کرتے ہوئے صحافی پریشان ہوتے تھے، اب صحافیوں کا سامنا کرتے ہوئے سیاستدانوں کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ آج کی سیاست میں نوابزادہ نصر اللہ خان، خان عبدالولی خان، مفتی محمود اور سید مودودی وغیرہ جیسے نظریاتی اور باکردار لوگ شاذ و نادر ہی ملتے ہیں۔ کیونکہ دانستہ یہاں ارتقائی سیاست کے آگے رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ اور سیاست میں نظریے کی ضرورت کو ختم کر کے پارلیمنٹ کی ضرورت کو روح کی حیثیت دی گئی۔ یہ ایک اور تلخ حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ تک پہنچنے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور پیسہ جن کے پاس ہے وہ نظریے سے عاری ہیں۔ نظریہ پیسے سے خریدا نہیں جا سکتا۔ اس لئے سیاست کا معیار گر جاتا ہے۔ اور ایسی سیاست میں نووارد لوگ پیسے کے بل بھوتے پر صحافت کو گھر کی لونڈی سمجھ کر اپنا پرچار کرواتے ہیں۔

سیاست اگر کاروبار بن چکا ہے تو صحافت بھی کاروبار ہی بنے گا۔ سیاست سے نظریات مٹ رہے ہیں تو صحافت کا معیار بھی تو گرے گا۔ سیات دان کرپشن کرے گا تو اسے چھپانے کے لئے صحافت کے میدان میں سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments