طالبان کے ہاتھ کس نے مضبوط کیے؟


\"wajahat\"

محترم صحافی نے سوال اٹھایا ہے کہ طالبان کے ہاتھ کس نے مضبوط کیے؟جواب بہت سادہ ہے ۔ طالبان کے ہاتھ انہوں نے مضبوط کیے جو دہشت گردی کو جواز عطا کرتے رہے۔ جو مفروضات کی مدد سے ریاست کو کمزور اور عوام کو خوفزدہ کرتے رہے۔ طالبان کے ہاتھ انہوں نے مضبوط کیے جو ’طالبان کیا کرتے ہیں؟‘ کی بجائے ’طالبان کی دہشت گردی کیوں؟ ‘کا سوال اٹھاتے رہے۔ جو طالبان کی مذمت کرنے کی بجائے دہشت گردی کی مخالفت کرنے والوں پر الزام تراشی کرتے تھے۔ پاکستان میں کسی نے کبھی اسلامی شعائر یا عبادات پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ امر ہمیشہ سے متفقہ ہے کہ ہر شہری کو اپنے ضمیر کی روشنی میں زندگی گزارنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ مزاحمت اس امر کی تھی کہ طالبان اپنے فہم اسلام کو دہشت گردی کے بل پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، چنانچہ ریاست انہیں لگام دے۔ آپ نے نہ کل یہ بیان کیا کہ طالبان کے ’فہم اسلام‘ میں اور آپ کے ’فہم اسلام‘ میں کیا فرق ہے اور نہ آپ آج ایسا کر رہے ہیں۔
آئیے 24 فروری 2014ءکے اس کالم کی طرف چلتے ہیں جسے آج اپنی بصیرت کا اشتہار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کالم کا پہلا جملہ تھا کہ ’طالبان آئین کو نہیں مانتے اس لیے ان سے بات نہیں ہو سکتی …. ان کے بارے میں کیا خیال ہے جو آئین کی اسلامی شقوں کو نہیں مانتے“۔ صاحب رکئے۔ گزارش یہ ہے کہ آئین کی اطاعت آئین کے مجموعی متن کے تناظر میں طے ہوتی ہے۔ دستوری قانون کا بنیادی اصول ہے کہ مختلف شقوں کو ملا کر آئین کی منشا معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسری طرف قانون تعزیرات میں مجرمانہ فعل کی ٹھیک ٹھیک تعریف متعین کی جاتی ہے تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ دی جا سکے۔ دستور کی تشریح میں وسیع تر تعریف اس لیے اختیار کی جاتی ہے تاکہ کوئی فرد یا گروہ آئین کے کسی ایک حصے کو بنیاد بنا کر باقی آئین کو یرغمالی نہ بنا لے۔ پاکستان کے آئین میں شق 239 بھی شامل ہے جو پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا غیر مشروط اختیار دیتی ہے۔ آپ اپنی پسندیدہ آئینی شقوں کو بندوق بنا کر دوسروں کی کنپٹی پہ نہیں رکھ سکتے۔ آئین میں ترمیم کا اصول تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آئین کی کسی شق کو قابل ترمیم سمجھنا اور دستور میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق ترمیم کا مطالبہ کرنا آئین کی خلاف ورزی نہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کی سو سے زائد شقوں میں تبدیلی کی گئی ۔کیا اس ترمیم پر بحث مباحثہ کرنے والے ارکان پارلیمنٹ آئین سے بغاوت کر رہے تھے؟ ہمارے محترم صحافی فروری 2014 ءمیں بھی، آج کی طرح، آئین کی ’کسی شق سے اختلاف‘ کے آئینی حق کو ’طالبان کی آئین سے بغاوت‘ کے مساوی قرار دے کر دہشت گردوں کے لیے جواز تراش رہے تھے۔
مذکورہ کالم میں ایک الزام یہ بھی لگایا گیا تھا کہ کچھ لوگ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ’کھلے عام پاکستان کی نظریاتی اساس‘ کے خلاف بات کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا آئین پڑھنے والے اس شق کی نشان دہی کرنے میں ناکام رہے ہیں جہاں ’پاکستان کی نظریاتی اساس ‘بیان کی گئی ہو۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی یہ ’نظریاتی اساس‘ کیا ہے؟ یہ سوال حیدر آباد ٹریبونل کیس میں عبدالولی خان نے بھی اٹھایا تھا اور آج چالیس برس بعد بھی یہ سوال تشنہ¿ جواب ہے۔ ایک ممکنہ جواب یہ ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی سالمیت، تمام شہریوں کا بلا امتیاز تحفظ اور یہاں کے باشندوں کے معیار زندگی میں بہتری ایک مشترکہ نصب العین ہو سکتا ہے۔ اس نصب العین سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی سیاسی اور معاشرتی سوچ کو ’پاکستان کی نظریاتی اساس‘ سمجھا جائے تو انسانی فکر اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے یہ مطالبہ پورا نہیں کیا جا سکتا۔ مذکورہ کالم میں ان راندہ¿ درگاہ افراد کی پہچان بھی بتائی گئی تھی…. ’انگریزی بولنا، سوٹ ٹائی پہننا۔ امریکا اور یورپ کی درس گاہوں میں پڑھنا‘۔ اتفاق سے محترم صحافی ایک انگریزی اخبار سے وابستہ ہیں اور یورپ کی درس گاہوں سے تعلیم بھی پا چکے ہیں۔ کوئی مشکل سی مشکل ہے تمہارے مہرباں کے واسطے…. مذکورہ کالم میں ’پاکستان کو سیکولر بنانے‘ کی خواہش رکھنے والوں کو قابل گردن زدنی قرار دیا گیا تھا۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان میں سیکولر خیالات رکھنے والے دستوری ڈھانچے میں کسی بنیادی تبدیلی کے طلب گار نہیں کیونکہ دستور میں بنیادی حقوق کے باب میں عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر کوئی تفریق روا نہیں رکھی گئی ۔ ان کا مطالبہ تو صرف یہ ہے کہ قومی ریاست کا حقیقی تشخص بحال کرتے ہوئے شہریوں کے خلاف ہر طرح کا امتیاز ختم کر کے انہیں تحفظ دیا جائے۔ پٹنہ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اٹھائیسواں سالانہ اجلاس منعقدہ اپریل 1941 ءمیں مطالبہ پاکستان کو مسلم لیگ کے بنیادی اصولوں میں شامل کئے جانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ ”پاکستان میں غیر مسلموں کے تحفظات کو اقلیتوں کے ساتھ مشاورت سے دور کیا جائے گا اور ان پر کوئی حل مسلط نہیں کیا جائے گا“۔مسلم لیگ نے پنجاب میںمسلم اور غیر مسلم ارکان پارلیمنٹ سے حمایت طلب کی تھی۔ پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی حمایت کی قرارداد دو ووٹوں کے فرق سے منظور ہوئی تھی اور یہ دونوں ووٹ مسیحی ارکان پارلیمنٹ کے تھے۔ پاکستان بننے کے قائداعظم محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے جو بصیرت پیش کی تھی اس کے اطلاق کا مطالبہ پاکستان کی مخالفت کیسے ہو سکتا ہے؟ قائداعظم کے اس نقطہ نظر کے رد میں جو دستاویز پیش کی جاتی ہے اسے دستور ساز اسمبلی میں ایک بھی غیر مسلم رکن کی تائید حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ 12مارچ 1949ءکے روز کل اکتیس حاضر ارکان دستوریہ میں سے اکیس مسلم ارکان نے قرارداد مقاصد کی حمایت کی تھی اور دس غیر مسلم ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی۔ تائید اور مخالفت کرنے والوں کی مذہبی شناخت ہی یہ واضح کرنے کے لیے تیار ہے کہ اس دستاویز میں مذہبی شناخت کی بنیاد پر تفرقے کے بیج موجود ہیں۔ پاکستان کے طاقت ور اداروں کی دو ٹوک مرضی کو دیکھتے ہوئے نیم دلی سے آپریشن ضرب عضب کی حمایت کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ طالبان کے حقیقی مخالف 11 ستمبر 2001 ء سے پہلے بھی ان کی مخالفت کر رہے تھے۔ جب اچھے اور برے طالبان میں امتیاز کیا جا رہا تھا انہوں نے تب بھی طالبان کی دوٹوک مخالفت کی۔ ان راندہ¿ درگاہ شہریوں نے ڈرون حملوں کو دہشت گردی کا جواز تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ دہشت گردی کی مخالفت ایک چلتا ہوا نعرہ نہیں جسے طفلان گلی کوچہ کے ساتھ مل کر بلند کیا جائے۔ دہشت گردی کی بامعنی مخالفت کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کی طرف لے جانے والی سوچ کو سمجھا جائے اور اس کی نشان دہی کی جائے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کی مخالفت کرنے والوں نے کسی کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے بلکہ اپنے موقف کی مدافعت میں جانیں دی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان پر ایک خاص طرز حکومت اور معاشرت مسلط کرنے کی خواہش رکھنے والوں میں یہ خوش فہمی پیدا ہو گئی تھی کہ طالبان کی دہشت گردی کا ہوا دکھا کر پاکستان کے سیاسی ، آئینی اور معاشرتی نمونے میں مزید نقب لگائی جا سکے گی۔ اس صف بندی کی پہچان بہت سادہ تھی۔ پاکستان کے رہنے والوں کو سیاسی خیالات اور رہن سہن کے اختلافات کی بنیاد پر مطعون کرنے سے دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط ہوتے تھے ۔ پاکستان میں امن اور رواداری اور حقوق کی مساوات کا مطالبہ کرنے سے دہشت گردی کی جڑیں کٹتی تھیں۔
یہ فروری 2014 ءکی بات ہے۔ طالبان نے اپنے دوستوں اور دشمنوں کی تفریق واضح کرتے ہوئے اپنے لئے قابل قبول مذاکراتی ٹیم کی فہرست دی تھی جس میں دو صحافیوں اور ایک سیاست دان کے نام شامل تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کی یہ تجویز فوراً رد کر دی گئی تھی چنانچہ طالبان کی حمایت یا مخالفت کے باب میں یہ دلیل کافی نہیں ۔ ایک دستاویزی ثبوت بھی موجود ہے ۔ فروری 2014ءکے مہینے میں اسی اخبار میں درویش کے سات کالم اور محترم صحافی کے آٹھ کالم شائع ہوئے۔ درویش نے پانچ اور ہمارے ممدوح نے چھ کالموں میں طالبان کو موضوع بنایا۔ یہ کل ملا کر گیارہ کالم ہوئے۔ انہیں کسی ماہر قانون، صحافی ، سیاسی کارکن یا مورخ کے سامنے رکھ کر فیصلہ لے لیجئے کہ طالبان کی مخالفت کون کر رہا تھا اور طالبان کے ہاتھ کس نے مضبوط کئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments