پاکستان کی تاریخ کا رخ بدلنے والے پانچ سیاسی قتل


\"\"کبھی من پسند ڈرامہ یا فلم دیکھ رہے ہوٕں اور اختتام سے پہلے لائٹ چلی جائے، کوئی دلچسپ کتاب یا افسانہ پڑھ رہے ہوں اور آخری صفحات غائب ہوں، ایک شدید کوفت، بے چینی اور تشنگی کا احساس ہوتا ہے جسے شاید لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ لیکن ہماری زندگی نہ جانے کتنے سانحے، المیئے اور واقعات ایسے ہیں جن کا انجام سازشوں کی دبیز دھند کے پیچھے پوشیدہ ہے۔ ایسی نادیدہ قوتیں جن کے سامنے حکومتیں بے بس ہیں، آج کے دور میں یہ نا قابل یقین سا لگتا ہے تو چلیں جھانکتے ہیں ماضی میں۔

بات شروع کرتے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم کی رحلت سے، مملکت خداداد کے پہلے سربراہ مملکت گورنر جنرل محمد علی جناح شدید بیماری کی حالت میں آخری ایام زیارت میں گزار رہے ہیں۔ ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ساتھ ہیں، 11 ستمبر کوئٹہ سے کراچی روانہ، ماڑی پور ائیرپورٹ پہنچتے ہیں۔ پروٹوکول کے برخلاف ائیرپورٹ پر استقبال کے لئے مناسب انتظامات نہیں، عملہ اور گاڑی تک غائب، ایک کھٹارا ایمبولنس قائد اور مادر ملت کو لے کر دن 2 بجے گورنر جنرل ہائوس کی جانب روانہ ہوتی ہے۔ تپتی دھوپ میں گاڑی ایک ویرانے میں خراب، ایمبولنس تندور میں تبدیل ہو جاتی ہے، ٹی بی کے مریض قائد اعظم کو سانس لینا مشکل ہوجاتی ہے۔ کسی طرح دوسری گاڑی آئی اور 4 گھنٹے بعد جناح صاحب گورنر جنرل ہاؤس پہنچ سکے۔ بدترین صورت حال کے باعث مرض قابو سے باہر ہو گیا اور بانی پاکستان اسی رات 10 بجکر 20 منٹ پر دنیا سے رخصت ہو گئے، ابھی مملکت خداداد کو قائم ہونے کے صرف 13 مہینے اور 4 دن گزرے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سربراہ مملکت کے استقبال کا یہی پروٹوکول ہے، اس وقت بھی کراچی میں بڑے بڑے ہسپتال موجود تھے، معقول ایمبولنس بھیجنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ آج مزار قائد اعظم میں کھڑی جناح صاحب کی مرسیڈیز اور کیڈیلک گاڑیاں بھی ساتھ نہ بھیجی گئیں، پھر سب سے بڑا سوال حکومتی ذمہ دار کہاں تھے۔ شدید بیمار سربراہ مملکت 4 گھنٹے دھوپ اور گرمی کا عذاب جھیلتا رہا، کیا کوئی تحقیقات، کوئی نتیجہ یا سب قائد کی عظمت کے ساتھ مزار میں دفن کر دیا گیا۔

قائد کے بعد مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے والے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا۔ 16 اکتوبر 1951 راولپنڈی کے کمپنی باغ میں تقریر کرتے ہوئے قائد ملت پر سید اکبر نے فائرنگ کی۔ قاتل کو فوری طور انتہائی قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ گولی مانے کا حکم ایس پی نجف خان اور پستول انسپکٹر محمد شاہ کا ہے، سید اکبر اسٹیج کے سامنے وی آئی پی نشتستوں پر کیسے بیٹھا کسی کو پتہ نہیں، افغان شہری ہونے کے باوجود سید اکبر صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں کیسے مقیم تھا نہیں معلوم۔ تحقیقات کرنے والے اعلیٰ افسر نوابزادہ اعتزاز الدین، تحقیقات کے بارے میں وزیر اعظم ناظم الدین کے طلبی پر جا رہے ہیں کہ طیارہ جہلم کے قریب تباہ ہو جاتا ہے۔ قائد ملت قتل کی تحقیقات سے متعلق تمام دستاویزات ضائع ہو جاتی ہیں، کچھ عرصے بعد ایک کیس میں جب فائل مانگی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ فائل بھی گم ہو چکی ہے۔ جب تک لیاقت علی خان کی بیوہ رعنا لیاقت علی زندہ رہیں ہر برسی کے موقعے پر قاتلوں تک پہنچنے کا مطالبہ ضرور کرتی تھیں۔ آج کوئی مطالبہ کرنے والا بھی نہیں، نہ تحقیقات سامنے آنی ہیں۔

قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی موت بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کو محبوب بھائی کی موت کے بعد سیاسی سردمہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھائی کی برسی پر بھی ریڈیو کے ذریعے براہ راست خطاب کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ ان کے کتاب My Brother  کو بھی سنسر کیا گیا۔ 1965 میں ملک بھر سے قائد اعظم کے جانثاروں کے اصرار پر مادر ملت صدر جنرل ایوب خان کے مقابل انتخاب میں لڑنے پر رضامند ہوتی ہیں۔ انتخابات سے پہلے ملک بھر کی فضا میں فاطمہ جناح کے نام سے گونج رہی ہے مگر خلاف توقع جیت فوجی آمر کو ملتی ہے۔ بھلا ایک مطلق العنان آمر یہ بھی کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ کوئی مقابل ہو، یوں قصر فاطمہ، کلنفٹن میں رہائش پذیر مادر ملت کی زندگی جہنم بنا دی جاتی ہے۔ کبھی پانی بند تو کبھی چھاپے۔ بالآخر 9 جولائی 1967 کو مادر ملت فاطمہ جناح جبری گوشہ نشینی میں انتقال کر جاتی ہیں۔ حکومت نے یہ بھی کوشش کی کہ محترمہ کی تدفین مزار قائد میں نہ کی جائے مگر جنازے کے عظیم جلوس کے باعث ہمت نہ ہو سکی، یہ سوال آج بھی جواب سے محروم ہے کہ اگر فاطمہ جناح طبعی موت مریں تو مبینہ طور پر پیٹ اور گردن پر زخموں کے نشان کیوں تھے؟ طبعی موت یا قتل؟ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں متواتر خبروں کے باوجود اس سنگین معاملے پر تحقیقات سے بھی مجرمانہ گریز کیا گیا۔

اب ذرا ماضی قریب میں آتے ہیں۔ 19 ستمبر 1996 کراچی میں اپنے گھر 70 کلفٹن سے کچھ ہی فاصلے پر ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے اور رکن سندھ اسمبلی میر مرتضیٰ بھٹو کا دن دھاڑے قتل ہوا۔ ڈی آئی جی کراچی شعیب سڈل کی رہائشگاہ کے سامنے پولیس نے قافلے کو روکا اور پھر یکایک فائرنگ ہوئی۔ مرتضیٰ بھٹو 6 ساتھیوں سمیت جاں بحق ہوئے اور صرف دو پولیس افسران شاہد حیات اور حق نواز سیال زخمی ہوئے۔ جنہیں بعد میں میڈیکل بورڈ نے خود ساختہ زخمی قرار دے دیا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب بہن بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے عبداللہ شاہ وزیر اعلیٰ تھے۔ سرکار نے مرتضیٰ بھٹو کے چھ ساتھیوں پر فرد جرم عائد کی جب کہ غنویٰ بھٹو کی جانب سے آصف زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ، آئی بی کے سربراہ مسعود شریف، شعیب سڈل سمیت 18 افراد کے خلاف مقدمہ قائم کیا جاتا ہے۔ مقدمے کی کارروائی اور اہم نامزد ملزم ایس ایچ او تھانہ سول لائنز حق نواز سیال کی پراسرار موت آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ وزیر اعظم بھی یہ پتہ چلانے میں کامیاب نہ ہو سکی کہ بھائی کا سفاک قاتل کون ہے۔

18 اکتوبر 2007 پاکستانی سیاست کا اہم دن ہے۔ دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی محترمہ بینظیر بھٹو کی جلاوطنی کے بعد وطن آمد ہوئی۔ کراچی ائیرپورٹ سے عوام کا سیلاب بی بی کے ساتھ جلوس میں شریک تھا۔ یکایک جلوس میں شاہراہ فیصل پر دھماکہ ہوا۔ بینظیر بھٹو اور قیادت محفوظ رہی مگر 136 افراد جاں بحق ہوئے اور 450 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس واقعے کو سانحہ کارساز کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے دو ماہ بعد 27 دسمبر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کی پر جوش تقریر کے بعد روانگی کے وقت بی بی بلٹ پروف گاڑی کے چھت سے باہر نکل کر کارکنان کو نعروں کا جواب دیتی ہیں۔ یکایک فائرنگ اور دھماکہ ہوا اور دختر مشرق شہید ہوگئیں۔ چند گھنٹوں میں ہی جائے وقوعہ کو دھو دھلا کر تمام ثبوت بھی مٹا دیئے جاتے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ اور حتیٰ کہ پیپلز پارٹی حکومت نے بھی اقوام متحدہ سے بھی ڈھیلی ڈھالی تحقیقات کروا کر بلا ٹالنے کی کوشش کی۔ اب بھی قاتلوں کی ذکر آتے ہی بلاول ہو یا آصف زرداری یا پھر رحمان ملک سب آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں، کون ہے قاتل کسی کو بھی پتہ نہیں۔

ان گنت واقعات گنوائے جا سکتے ہیں مگر یہ انجام سے محروم پانچ ایسے اہم واقعات جنہوں نے پاکستان تاریخ تبدیل کر دی۔ کچھ کردار نمایاں ہیں مگر یہ پورا منظر نامہ کہیں بھی نہیں، ہدائتکار اور بڑے اداکار دھند کی اوٹ میں پوشیدہ ہیں۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ حکومتوں سے اوپر بھی کوئی نادیدہ قوت وجود کا احساس دلاتی ہے۔ جو چاہیں پکاریں خفیہ ہاتھ، تیسری قوت، مقتدر حلقے، اسٹیبلشمنٹ، حقیقت تو یہ ہے کہ حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر یہ نادیدہ قوت پاکستان بننے سے اب تک موجود ہے۔ شاید یہ بھی ایک ایسا افسانہ جس کا کوئی انجام نہیں، ایک ایسا ناول جس کے آخری صفحات غائب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments