تھر کول گوڑانو ڈیم – مقامی آبادی زہریلے پانی کی نذر


(عبدالغنی بجیر۔ اسلام کوٹ، تھرپارکر)۔

\"\"اسلام کوٹ کے قریب تھر کول گوڑانو ڈیم کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے اور متاثرہ مکینوں کے احتجاج کو 2 ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں نے خواتین، بچوں سمیت مرتے دم تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں تھا جسے غیر سنجیدگی کے ساتھ پیچیدہ بنایا گیا ہے۔ اس میں لاکھوں کی تنخواہوں پر تعینات نجی کمپنی کے عملداران کی عدم دلچسپی اور منتخب نمائندگان کی غیر سنجیدگی شامل ہے۔ اس ضمن میں معلومات کے مطابق تھر کول بلاک 2 کی کوئلہ کی کانوں سے نکلنے والے زہریلے پانی کے اخراج کے لئے ڈیم بنانا تھر کول منصوبے کا حصہ تھا۔ جس کے لئے رن آف کچھ کے قریب گاؤں دھکڑچھو میں مذکورہ ڈیم کی تعمیر کا اصل پلان بنایا گیا تھا۔ جس سے خراب پانی آباد زمینوں کو بنجر کرنے کے بجائے رن آف کچھ میں چلا جاتا جو علاقہ پہلے ہی غیر آباد ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق رن آف کچھ پاک بھارت سرحد سے ملحقہ ہونے اور رامسر سائٹ علاقہ ہونے کے باعث ڈیم کی جگہ پہلے پلان سے تبدیل کرتے ہوئے اچانک گوڑانو کے قریب بنانے کا پلان بنایا گیا۔ جس کے دوران مقامی آبادی کی ری سیٹلمنٹ کئے بغیر کام کا آغاز کر دیا گیا۔ ایسے اچانک فیصلے پر ارد گرد کے درجنوں دیہاتوں کے لوگ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ کیونکہ تھر کول بلاک 2 کی کوئلہ کی کانوں کے زہریلے پانی کے اخراج کے لئے گاؤں گوڑانو کے قریب 27 سو ایکڑ پر مشتمل ریتیلے ٹیلوں کے درمیان پیالی نما زمین کو کور کرنے کے لئے دیوار تعمیر کی جا رہی ہے۔ جس میں زرعی نجی زمینیں، چراگاہ، کنویں، قبرستان، مویشیوں کے چراگاہیں، گذرنے کے راستے شامل ہیں۔ جو جلد ہی ڈیم کا حصہ بن جائیں گے۔ اور آبادی کو دربدری کے ساتھ ماحولیاتی اور جغرافیائی تبدیلی کا سامنہ کرنا پڑے گا۔

جن وجوہات کے باعث مذکورہ پانی کو رن آف کچھ میں چھوڑا جا رہا تھا وہ ہی تمام تر منفی اثرات اب اس آباد علاقے پر پڑیں گے۔ جس سے بچنے کے لئے پہلے پلان کے تحت خود حکومت نے اس ڈیم کو آبادی سے کافی دور رکھا تھا۔ چونکہ ڈیم بنانے والی نجی کمپنی انتظامیہ نے 27سو ایکڑ کو ہی ڈیم قرار دیا ہے۔ اور لوگوں کو نجی زمینوں کے پیسے لینے کی آفر کی ہے۔ لیکن تھر پارکر کے جغرافیائی ماہرین کے مطابق 27 سو ایکڑ ایراضی پر بنایا جانے ولا ڈیم چونکہ زہریلے پانی کا ڈیم ہے اس لئے گرد و نواح کے وسیع علاقے کو متاثر کرے گا۔ تھر کے ریتیلے ٹیلے جو عام سی بارش سے ٹوٹ جاتے ہیں نیز بارشی پانی سے زمین کے اندر موجود پانی کا لیول بھی بدل کر میٹھا بن جاتا ہے۔ اسی طرح سے کوئلی کی کانوں کے پھیلے ہوئے جمع شدہ زہریلے پانی سے آدھے تھر کا زیر زمین پانی کڑوا بن جائے گا اور نتیجے میں پینے کا پانی اور ماحولیات بری طرح متاثر ہوں گی۔ یہ ہی وجہ ہے کے مقامی آبادی جگہ کی تبدیلی پر بضد ہے۔

\"\"اس سے قبل صحرائے تھر میں ماضی کی خشک سالی اور قحط کے اثرات نے علاقہ پر جو اثرات چھوڑے ہیں وہ بھی کافی بھیانک ہیں۔ تھر کے دیہات دور دراز اور مشکل راستوں سے جڑے ہوئے ہیں جہاں کے باسیوں کی مشکلات بیان کردہ سے بھی کافی زیادہ ہیں۔ ایسے حالات میں بنا کسی منصوبہ بندی کے ہنگامی بنیادوں پر اس طرح کی تعمیرات سے ہونے والے مستقبل کے نقصانات کا جائزہ لینا بہت ہی ضروری تھا کیونکہ جو لوگ پہلے سے ہی مشکلات کی چکی میں پسے ہوئے ہیں وہ مزید کسی دربدری کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ تھر کے منتخب نمائندگان گوڑانو ڈیم کا کیس وزیراعلیٰ سندھ کے سامنے کسی بھی لحاظ سے ٹھیک طرح سے پیش نہیں کر پائے ہیں۔ اس معاملے کو صرف روایتی احتجاجوں کی نذر کرتے ہوئے متاثرین کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسلام کوٹ پریس کلب کے سامنے گذشتہ دو ماہ سے احتجاج کرنے والے متاثرین کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے گھر چھوڑ دیئے ہیں کیونکہ ہمارے گاؤں میں ڈیم کی تعمیرات سے ہمارے راستے بند ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تھر کول پر ترقی کے مخالف نہیں ہیں۔ مگر اس کا فائدہ لیتے ہوئے نجی کمپنی انتظامیہ ہم سے زیادتی کر رہی ہے۔ یہاں پر ڈیم صرف اس لئے بنایا جا رہا ہے کہ ٹھیکیدار اور کمپنی کو کو فائدہ ہوگا اور خاصی رقم بچا لیں گے۔ مگر ہماری تباہی کی کسی کو فکر تک نہیں ہے۔ یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ہمارے موقف کو سن کر فیصلہ سنائے۔ لیکن دوسری طرف کا پلڑا اس لئے بھاری ہے۔ کیونکہ ہم غریب لوگ ہیں اس لئے ہمارے منتخب نمائندگان بھی ہمارا موقف پیش کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

گذشتہ روز گاؤں بھاوی جوتڑ کی زرعی زمینوں پر بھی بلڈوزر پہنچ گئے۔ کہنا تھا کہ قریبی گاؤں سیہری درس کو منتقل کرنے کے لئے تیاری کی جا رہی ہے مگر پہلے سے موجود آبادی کی ذاتی زمینوں میں بلڈوزر لگانے سے پہلے انہیں نہ اعتماد میں لیا گیا نہ ہی اس کا جائزہ لیا گیا۔ اس طرح کی نقل و حرکت سے پر امن تھر کا امن صرف کمپنیوں کی ناقص منصوبہ بندی سے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ حکومت کو چاہیئے کہ تھر کول پر کام کرنے والی نجی کمپنی کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کے متاثرہ لوگوں کا بھی موقف سنے اور گوڑانو ڈیم کی حدود اور ماحولیاتی پس منظر کا جائزہ لیتے ہوئے گرد ونواح کی لاکھوں کی آبادی کے مستقبل کی قبل از وقت منصوبہ بندی کرے۔ مقامی آبادی کو ڈیم بنانے والی نجی کمپنی کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے آزادانہ ایک کمیٹی تشکیل دے جس میں تھر کے نمائندگان، صحافی، سول سوسائٹی کے افراد شامل ہوں جو ڈیم کی ناگزیر وجوہات سمیت اصل حقائق کا جائزہ لے کر تھر کول منصوبے سمیت مقامی آبادی کے مستقبل کا بہتر تعین کریں۔ تا کہ جہاں اس قومی پراجیکٹ کا سفر آسان ہوں وہاں تھر کے باسی بھی مشکلات سے بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments