کالا جادو سیکھنے کے لئے سندھ میں دو بچوں کا قتل


\"\"یہ میری زندگی کا ایک اہم ترین تجربہ رہا ہے کہ جب بھی کسی کام میں ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو چند احباب اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ایک دم سے کہہ دیتے ہیں \”کہیں کسی نے کالا علم تو نہیں کیا ہے\”۔

مگر یہ حیرت کی بات اس لیے بھی نہیں ہے کہ ہم جس سماج میں بچپن گزار کر جوانی پاتے ہیں وہاں ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ علم کے بھی رنگ ہوتے ہیں۔ کالا علم یعنی گنڈے تعویذ کا عمل کروانا۔ مگر جہاں لفظ علم سننے کو ملے جس کی معنی ادراک یا آگاہی ہے، وہاں ہم اسے کالا کہہ کر علم کے ساتھ جو ناانصافی کرتے ہیں، اس کا اندازہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو نہیں ہوتا۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ علم کا کوئی رنگ نہیں ہوتا بلکہ علم علم ہی ہوتا ہے۔

سندھ میں کالا جادو یا کالے علم کے حوالے سے ہونے والے واقعات آج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ کسی کی پسند کی شادی، کسی کا پیار پانا، اپنے شوہر کو بس میں کرنا، تعلیم خواہ ملازمت کو حوالے سے آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ہمارے جناتی باباؤں کے پاس کالے علم کے ایسے ایسے حربے تیار ہوتے ہیں کہ آپ کو کوئی اور تدبیر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

پندرہ دن میں آپ کا محبوب آپ کے قدموں میں اور ایک ہفتے میں کسی خاتوں کا شوہر اس کا غلام بن سکتا ہے۔ مگر ان سب کا ایک درد ناک اور انسانیت سوز پہلو یہ ہے کہ معصوم بچے اس کالے علم کہ بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ پہلے تو ایسے کام قبرستان میں چلہ کاٹنے تک محدود ہوا کرتے تھے مگر اب بچوں کا قتل بھی اس لیے کیا جاتا ہے کہ کالے جادو کے تمام گر کسی انسانی زندگی کو ختم کرکے سیکھے جا سکتے ہیں۔

بدین میں گرفتار ہونے والے ایک شخص نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس نے کالا جادو سیکھنے کے لیے دو بچوں کو قتل کیا ہے۔

ملزم سکندر باگرانی نے پولیس کو بتایا کہ اس نے 2 بچوں کو اغوا کے بعد قتل کرکے نہر میں پھینک دیا تھا، ملزم نے دعویٰ کیا کہ بچوں کو قتل کرنے کا منصوبہ اس کا نہیں بلکہ اس کے ماموں احسان باگرانی کا تھا، جس کے پاس وہ کالا جادو سیکھنے کے لیے جاتا تھا۔

کالے جادو کے دیوانے لوگ آج بھی کئی گھروں کو اجاڑ رہے ہیں۔ مگر یہ معاملہ صرف ان دو بچوں کے قتل تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ صرف بچے ہی قتل نہیں ہوتے ہیں، بڑے اور عمر رسیدہ لوگ بھی کالے جادو کے حصول کے لیے قتل کئے جاتے ہیں۔

جن بھوت نکالنا، کسی پر سائے کا اثر بتا کر اسے گرم سلاخوں سے داغنا بھی ہمارے ہی سماج کے ایسے واقعات ہیں جنہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر کیا کسی بھی سماج میں کسی فرد کو اس لیے بچوں کو قتل کرنے کی اجازت دی جائے کہ کالا جادو سیکھ کر وہ ان لوگوں کے مسائل حل کرے گا جو کہ نفسیاتی اور سماجی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں؟

کالے جادو کے تمام کرتب سیکھنے والے خود بھی کئی ایسی نفسیاتی امراض کا شکار ہوتے ہیں جن کا علاج ان کے پاس بھی نہیں ہوتا، ان کا اپنا کالا جادو بھی انہیں ان امراض سے نجات نہیں دلا سکتا۔ مگر سماج کے وہ پسے ہوئے طبقات اور توہمات کی دنیا میں گھرے ہوئے لوگ اس حصار سے نکلنے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں عام مسائل کے حل کے لیے بھی جعلی پیروں اور عاملوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔

کیا کسی بھی سماج کے لیے یہ المیہ کم ہے کہ لوگ اپنے نفسیاتی، جنسی اور طبی مسائل کے حل کے لیے ماہر نفسیات یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے کالا جادو کرنے والے کے پاس جائیں، جن کے اپنے ہاتھ ان معصوم بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، جنہیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ انہیں کس پاداش میں قتل کیا گیا ہے۔

بدین میں قتل ہونے والے ان بچوں کے قتل کے پیچھے جس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ کالا جادو کسی کی زندگی بچا نہیں سکتا بلکہ زندگی چھین سکتا ہے۔ تعویذوں اور جھاڑ پھونک پر یقین رکھنے والے لوگوں کو شاید یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ اس قسم کے واقعات سماج میں جن رویوں کو جنم دیتے ہیں وہ اور بھی خطرناک ہیں۔

ایک کالا جادو سیکھنے والا بھی اپنے چیلے سے وہ کچھ کرنے کو کہے گا جو ملزم سکندر نے اپنے ماموں احسان باگرانی کے کہنے پہ کیا ہے۔

جس معاشرے میں کالے جادو کو ہی علم سمجھا جائے وہاں بچوں کو قتل کرنا جائز ہی بن جاتا ہے۔ مگر اس خیال کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے واقعات اس لیے بھی ہوتے ہیں کہ ایک جانب تو ہمارے ہاں بہتر طبی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ اور دوسری جانب ایک نفسیاتی مریض کو ہم ایک عظیم ہستی کا درجہ دے کر اپنے بچوں کو قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔

یہ سارے مسائل جن کی وجہ سے بچوں کو قتل کرنا اور انہیں زندہ جلایا جاتا ہے یہ سب قابل علاج ہیں۔ کسی بھی سماج میں اگر ایک فرد کو نفسیاتی مسائل لاحق ہیں تو اس کا علاج کالا جادو سیکھنا نہیں ہے بلکہ اس کا علاج موجودہ دور کی میڈیکل سائنس ہی فراہم کر سکتی ہے۔ شدید ڈپریشن اور محرومیوں کے شکار لوگ اکثر کالے جادو کا سہارا لیے ہیں۔ مگر ایسے اقدامات ایک ایسے سماج کو جنم دیتے ہیں جہاں پر ہم لوگوں کے نفسیاتی مسائل کو سائنسی بنیادوں پر حل کرنے کی بجائے جھاڑ پھونک سے حل کرنے کی کوشش میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ کیا کسی بچے کو صرف اس بنا پہ قتل کیا جائے کہ کسی کو ایسے جنتر منتر سیکھنے ہیں جن سے اسے لگے کہ وہ ان تمام لوگوں کو اپنے بس میں کر سکتا ہے جو اپنی عقل کے بل بوتے پر جیتے آ رہے ہیں۔

بدین میں قتل ہونے والی دو معصوم جانیں تو اب لوٹ کر نہیں آسکتی ہیں مگر کیا ہمارے ارباب اختیار اور اس سماج کے وہ افراد جو اس قسم کے تمام کاموں کو ایک سماجی برائی سمجھتے ہیں، وہ آنے والے وقت میں ان تمام بچوں اور دیگر افراد کو ان بھیڑیوں سے بچا سکیں گے جن کے لیے آج بھی کسی کی زندگی سے زیادہ وہ کالا جادو اہمیت رکھتا ہے جو کہ دھوکے اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اس قسم کے رویوں سے بچنے کے لیے سائنسی سوچ اور ادراک کی ضرورت ہے، جن کے ذریعے ہم توہمات میں گھرے لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہیں جن کا علاج ماہر نفسیات کی مدد سے ممکن ہے۔

اختر حفیظ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

akhter-hafeez has 20 posts and counting.See all posts by akhter-hafeez

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments