بلاول بھٹوکی پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوا چاہتا ہے!


\"\"وطن عزیز میں صبر آزما طویل سیاسی جدّوجہد اور انتظار کے بعد جمہوریت کا قیام عمل میں آتا ہے۔ اِس سیاسی جدّو جہد میں سیاستدانوں کے ساتھ، میڈیا کے تمام ذرائع کا بھی نمایاں کردار ہوتا ہے۔ موجودہ 9 سالہ جمہوری دور بھی اُس جدّوجہد کا ثمر ہے۔ جب سیاستدان سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرانے کے لیے سڑکوں پر آئے تو جہاں عوام نے سیاستدانوں کی پذیرائی کی وہیں میڈیا کے تمام ذرائع نے اِس جدّوجہد میں سیاستدانوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ اِسی سیاسی جدّوجہد کے نتیجے میں ملکی سیاست کے 2 نمایاں کردار محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترم نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ افسوس کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اب ہمارے درمیان نہیں!

2008 کے انتخابی نتائج سے وفاق، سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومتیں تو قائم ہوگئیں لیکن محترمہ کی کمی شدّت سے محسوس کی جاتی رہی۔ صدر زرداری کے دور حکومت میں بھی جمہوریت سے نالاں طبقہ فکر نے ہرممکن کوشش کی کہ جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اُتر جائے لیکن محترمہ جو میثاق جمہوریت اپنی زندگی میں کرگئیں تھیں وہ جمہوریت کے بدخواہوں کے آڑے آیا اور جمہویت کی گاڑی پوری رفتار اور ہم آہنگی سے نہ سہی لیکن کسی طور چلتی رہی۔ محترمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی حکومت عوام کا اعتماد خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے کھو بیٹھی۔ اُس کے ساتھ ہی (ن) لیگ کو بھی فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سننے پڑے کہ اُس نے حزب اختلاف کا کردار نہیں نبھایا۔ جس کا بھرپور سیاسی فائدہ قائد تحریک انصاف عمرن خان نے 2013 کے انتخابات میں اُٹھایا اور ملک میں ووٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھرے۔

وفاق، پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بالترتیب (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہوگئیں تو عوام کا وہ طبقہ جس کو باشعور کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومتوں سے یہ توقع لگا بیٹھا، خصوصی طور پر عمران خان سے کہ تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں بہتر طرز حکمرانی اور وفاق میں مؤثر حزب اختلاف کی روایت ڈالے گی۔ جس کی تقلید لامحالہ دیگر جماعتوں کو بھی کرنی پڑے گی۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور عوام کا بہتر طرز حکمرانی اور مؤثرحزب اختلاف کا یہ خواب اب تک پورا نہیں ہوا ہے۔ بنیادی وجہ تو اِس کی یہی نظر آتی ہے کہ تحریک انصاف نے انتخابی نتائج کو دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ محترم عمران خان نے اِس انتخابی شکست کو اپنی ذاتی شکست تصور کرلیا۔ حکومت پر مثبت، تعمیری تنقید کی جو توقع عمران خان کے تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کی وجہ سے کی جا رہی تھی اُس کا عوام کو اب تک انتظار ہے۔ دھرنا سیاست کے اثرات ملکی سیاست اور معیشت پر اچھے نہیں پڑے۔ دھرنا سیاست سے جہاں عوام کا اعتماد جمہوریت پر سے اُٹھ رہا ہے۔ وہیں عمران خان اور تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت بھی رو بہ زوال ہے۔

پیپلز پارٹی انتخابی اکھاڑے کی پرانی کھلاڑی ہے اور پاکستانی عوام کا مزاج سمجھتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے موجودہ سیاسی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے عام انتخابات سے قبل ہی بلاول بھٹو کو قومی اسمبلی سے منتخب کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جناب بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد (ن) لیگ کو بتائیں گے کہ حزب اختلاف کیا ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستانی عوام کا باشعور طبقہ، جہاں جناب بلاول بھٹو کو بحیثیت تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان کے قومی اسمبلی میں پیشگی خوش آمدید کہتا ہے وہیں اُن سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کی سیاسی جدو جہد اور قربانیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز کریں گے اور عوام مؤثر حزب اختلاف کی جو امید پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے جناب عمران خان کی شکل میں لگائے بیٹھی ہے اُس کو پورا کریں گے کیونکہ مؤثر حزب اختلاف کا بہتر طرز حکمرانی اور جمہوریت میں بنیادی کردار ہے۔ اگر جناب بلاول بھٹو حزب اختلاف کا کردار بہتر طریقے سے سر انجام دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو توقع کی جاسکتی ہے کہ پیپلزپارٹی عام انتخابات سے قبل اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments