تعریف اس خدا کی جس نے مجھے بنایا


\"\"

کبھی دل چاہتا ہے خدا سے کلام کرنے کو، لوگوں کے رویوں پر آہ وبکاہ کرنے کو۔ ہم دل تو رکھتے ہیں درد نہیں، ضمیر تو رکھتے ہیں بیداری نہیں، الفاظ تو رکھتے ہیں انداز بیان نہیں؟ ہم ہیں کیا؟ کیا انسان ہیں؟ مسلماں ہیں؟ کیا پہچان ہے ہماری؟ ہمارا وجود؟ ہمارا مذہب؟ ہمارا نام؟ ہمارا کام؟ ا ٓخر کیا ہے ہم میں خاص جو ہمیں لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی اجازت دیتا ہے؟ انسان کتنا ہی خود پر ناز کرے، غرور کرے لیکن کہیں نہ کہیں وہ اپنے نا مکمل وجود کی ترجمانی کر ہی دیتا ہے، خدا کی تخلیق میں نقص نکالنا، انسان ہو کر غیرانسانی سلوک کرنا، خود کو فرشتہ اور دوسرے کو شیطان سمجھنا لیکن جب اس کیاپنی ذات کی بات آجاتی ہے تو خود کو انتہائی مہذب، نیک گفتار، عاجز اور خوش طبع شخصیت تسلیم کروانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتا، یہ درست ہے کہ شکل صورت خدا کی دین ہے، اور کسی کو بھی اس میں کسی قسم کا نقص نکالنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اس بات کا صرف اور صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ آپکو خدا کی تخلیق پر عتراض ہے لیکن آپ کی خود کی شکل و صورت، مزاج، کردار کی بات آئےتو، میں تو ایسا؟ میں تو ویسا؟ میں اتنا محنت کش؟ میں اتنا صابر؟ میں اتنا دانش؟ میں اتنا خوش شکل؟ میں سب کچھ مگر تم کچھ بھی نہیں کا نعرہ! توبہ استغفار، اللہ بچائے ایسے مرد اور خواتین سے، پیٹ بھرنے کے لئے کھانا نہیں بس عیب نکانے کی مہم ہی کافی ہوتی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے۔

دوسروں سے تو پیدائشی دشمنی لے کر پیدا ہوتے ہیں کچھ لوگ یا یہ کہہ لیجیے خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں، یہ الفاظ اٰپ نے اکثر سنے ہوں گے:

ارے یہ بھی کوئی طریقہ ہوا کرتا ہے، یہ بھی کوئی انداز ہے، تم تو بہت عجیب انسان ہو!

عجیب سیاہ مائل رنگت تھی توبہ توبہ بھئی ہمیں نہیں کرنی شادی یہاں!

مجھ کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ خود کو شہزادہ سلیم اور ملکۂ عالیہ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ ارے بھائی تمھاری شکل تمھیں مبارک ہو، ہمارا کیا قصور کے تم اپنے علاوہ ہر کسی کو قبول صورت ہی تصور کرتے ہو۔ خدارا شکل کو بخش دیا کریں؟ ناک ایسی، ہونٹ ایسے، کان بڑے، چیچک کے داغ، چھوٹا قد، سیاہ رنگت اور کیا کیا نہیں سننے کو ملتا، خواتین تو پیش پیش ہوتی ہیں خاص کر جب انہیں کسی رشتے کی تلاش ہوتی ہے، لڑکی لمبی ہو، کم عمر ہو، گوری ہو، نوکری پیشہ ہو، ماں باپ کا مکان ہو، اکلوتی ہو، اچھے علاقے میں رہتی ہو، پڑھی لکھی ہو، آنکھیں بڑی ہوں، ناک کھڑی ہو، بال لمبے ہوں اور پتہ نہیں کیا کیا!

مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ لڑکی پسند کرنے آتے ہیں یاسامان خریدنے؟ کوئی گاہک معلوم ہوتا آیا ہے جسے سامان معیاری نہیں مل رہا اور وہ ایک دکان سے دوسرہ دکان، دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی کی تلاش میں ہے۔

اپنے بچوں کو سر پر چڑھانا چھوڑ دیں خدارا! عاجزی و انکساری سکھائیں، چاہے بیٹا ہو یا بیٹی، ہر باپ کے لئے اس کی بیٹی شہزادی ہوتی ہے اور بیٹا شہزادہ، پھر آپ کیوں کسی کے بیٹے یا بیٹی میں کیڑے نکالتے ہیں؟ آپ کا وجود کیا مکمل ہے؟ کوئی برائی، کوئی خامی، نقص نہیں آپ میں؟

خدا کے نزدیک بھی کوئی شخص اگر برتر ہے تو وہ بھی تقوی اور پرہیزگاری کی بنیاد پر! شکل و صورت کا کوئی معیار خدا نے نہیں بنایا یہ آپکے اور ہمارے معیار ہیں، گزارش کروں گی انسانیت کو شرمندہ نہ کیاکریں، انسان وہ ہوتا ہے جس میں انسانیت ہوتی ہےاحساس ہوتا ہے، دوسرے کی عزت نفس کی پہچان ہوتی ہے، دوسرے کی خوشی سے خوشی اور غم میں تکلیف ہوتی ہے۔

اگر آپ میں اتنا ظرف نہیں کے آپ لوگوں کو عزت دے سکیں، اہمیت دے سکیں، محبت دے سکیں تو آپ کو مسلمان تو کیا انسان بھی کہلائے جانے کا کوئی حق نہیں۔

یہ غرور یہ تکبر، یہ شکل و صورت، یہ شان و شوکت کہاں لے کر جائیں گے؟ نہ شکل آپکی نہ پیسہ آپکا، ، سب کچھ تو اس خدا کی دین ہے یہاں تک کے آپ کو پیدا بھی اس نے کیا، ہے کیا آپ کے پاس جو آپکا ہو؟ آپ کے کھانے پر مکھی بیٹھ کر رزق کا دانا لے جاتی ہے آپ اس کو اڑا تک نہیں پاتے اور وہ اپنا حصے کا رزق لے کر اڑجاتی ہے، یہ بساط یہ اوقات ہے انسان کی۔

ہمیں اپنے وجود پر چڑھی مٹی کی تہہ ہٹانے کی ضرورت ہے، دوسروں کا درد کرنا ہےاحساس کرنا ہے، محبت سے پیش آنا ہے، یہی درس انسانیت ہے اور وقار انسانیت بھی

یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدا کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالق دوسرا کا
خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments