مہاتیر محمد۔ نو دہائیوں کا سفر


\"\"

ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد اپنے برتھ سرٹیفکٹ کے مطابق رواں ماہ کی 20 تاریخ کو اکیانوے برس کے ہوگئے ہیں۔ جبکہ ان کے خاندان کے افراد اور دیگر احباب ان کا جنم دن 10 جولائی کو مناتے ہیں۔ مہاتیر نے ایک انٹرویو کے دوران اپنی سوانح حیات لکھنے والے مصنف بیری وائن کو بتایا تھا کہ ان کی اصل تاریخ پیدائش 10 جولائی 1925 ہے۔ محض برتھ سرٹیفکٹ میں 20 دسمبر درج ہونے کی وجہ سے سرکاری طور پر ان کا یومِ پیدائش 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ یوں مہاتیر اس وقت اکیانوے برس پانچ ماہ کے ہو چکے ہیں۔ مہاتیر کا کہنا تھا کہ ان کے والد نے انھیں پرائمری اسکول میں داخل کرواتے وقت ان کی تاریخ پیدائش 20 دسمبر لکھوائی تھی تاکہ ان کے اسکول کے قوانین کے مطابق پانچ ماہ تاخیر سے داخلہ لینے پر انھیں غیر ضروری سوالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بہرحال یہ ایک ایسا جھوٹ تھا جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔

مہاتیر کے والد گرامی کو بھی علم نہ تھا کہ ان کا بیٹا تاریخ میں اپنا نام لکھوائے گا۔ ورنہ شاید وہ تاریخ پیدائش بھی صحیح درج کرواتے اور تاریخ میں تاریخ کو درست لکھا جاتا۔ مہاتیر کے والد ہندوستان کی ریاست کیرالہ سے ہجرت کرکے ملایا میں آباد ہوئے تھے۔ ملائیشیا کے قیام سے قبل صدیوں سے جنوب مشرقی ایشیا کا وہ علاقہ جسے آج جزیرہ نما ملائیشیا کہا جاتا ہے ملایا کہلاتا تھا۔ مہاتیر محمد کے والد نے ایک ملایو خاتون سے شادی کی تھی اور ملایا کی ریاست کیداح میں سکونت اختیار کی جہاں مہاتیر کی ولادت ہوئی۔ مہاتیر کے والد محمد بن اسکندر ایک اسکول ٹیچر تھے۔ مہاتیر ایک محنتی اور با ادب طالبعلم تھے۔ انگریزی زبان کی فصاحت و بلاغت میں وہ زمانہ طالبعلمی میں ہی اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ملایا پر جاپانیوں کا قبضہ ہوگیا اور انگلش میڈیم اسکول بند کروا دیے گئے تو مجبوراَ مہاتیر کو تعلیم درمیان میں چھوڑنا پڑی۔ اس دوران وہ اپنے گھر کو مالی مدد فراہم کرنے کے لئے کافی اور کیلے کا جوس بیچا کرتے تھے۔

جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد وہ دوبارہ اپنی تعلیم جاری رکھنے میں کامیاب ہوئے اور سیکنڈری اسکول کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ جس کی وجہ سے انھیں سنگاپور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ جہاں ان کی ملاقات اپنی مستقبل کی شریک حیات ہاشمہ محمد علی سے ہوئی۔ طبی تعلیم کے ساتھ ساتھ مہاتیر نے صحافت کا کورس بھی مکمل کیا اور مقامی رسالے سنڈے ٹائمز میں مضامین لکھنا شروعکیے۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مہاتیر نے اپنے آبائی علاقے میں کلینک کھول لیا۔

\"\"

31 اگست 1957 کو جب ملایا نے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی تو اس وقت مہاتیر محمد ایک بتیس سالہ نوجوان ڈاکٹر تھے۔ ابتدا میں مہاتیر نے جب سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو ان کی شہرت ایک قوم پرست ملایو رہنما کے طور پر تھی۔ ملایو کمیونٹی کی نمائندہ جماعت یونائٹڈ ملایو نیشنل آرگنائزیشن تھی جو کہ دنیائے سیاست میں اُمنو کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مہاتیر ازادی کے بعد اُمنو میں مقبول ہونے لگے تھے۔ مگر انھیں 1959 کے عام انتخابات کے لئے پارٹی کی جانب سے امیدوار نامزد نہیں کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ مہاتیر محمد اور ملائیشیا کے بانی تنکو عبدالرحمن (جنھیں بابائے ملائیشیا بھی کہا جاتا ہے) کے درمیان اختلافات تھے۔

آزادی کے بعد مہاتیر نے ملایا میں برطانوی اور کامن ویلتھ فوجی دستوں کی موجودگی کی مخالفت کی تھی اور تنکو عبدالرحمن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جس کے بعد سے اُمنو کی سیاست میں دو مخالف بلاک وجود میں آگئے۔ مہاتیر بلاک اور تنکو عبدالرحمن بلاک۔ 16 ستمبر 1963 کو ملایا، سنگاپور اور دو آزاد ریاستوں صباح اور سراواک کے آپس میں الحاق کے نتیجے میں ملائیشیا کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے بعد قوم پرست سیاست کو مزید فروغ حاصل ہوا اور مہاتیر کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوگیا۔ 1964 کے عام انتخابات میں مہاتیر کو اُمنو کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا موقع ملا اور انھیں کامیابی حاصل ہوئی۔ انتخابات کے ایک سال بعد سنگاپور ملائیشیا سے علیحدہ ہوگیا۔ جس کے ساتھ ہی ملائیشیا کی سیاست کا رخ بھی تبدیل ہوگیا۔

1969 کے انتخابات میں مہاتیر محمد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مہاتیر اور تنکو عبدالرحمن کے اختلافات شدت اختیار کرگئے تھے جس کی وجہ سے تنکو نے مہاتیر کو پارٹی سے نکال دیا۔ ملائیشیا کے دوسرے وزیر اعظم تُن عبدالرزاق مہاتیر کو دوبارہ سیاست میں واپس لے کر آئے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ لفظ تُن دراصل ملائیشیا کا اعلی ترین خطاب ہے جو کہ تمام وزرائے اعظم کے ناموں کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ مہاتیر کو بھی وزیر اعظم بننے کے بعد سے تُن مہاتیر محمد کہا جاتا ہے۔ جبکہ تُنکو بھی ایک خطاب ہے جو کہ بابائے ملائیشیا تُنکو عبدالرحمن کے لئے مخصوص ہے۔ سیاست میں واپسی کے ساتھ ہی مہاتیر کا ایک بار پھر سے سیاسی سفر شروع ہوگیا۔ ملائیشیا کا وزیراعظم بننے سے قبل مہاتیر کے پاس مختلف وزارتوں کے قلمدان بھی رہے۔ ملائیشیا کے تیسرے وزیرِ اعظم تُن حسین بن عون کے مستعفی ہونے کے بعد 16 جولائی 1981 کو مہاتیر محمد نے ملائیشیا کے چوتھے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

مہاتیر نے تقریباَ بائیس سال ملائیشیا پر حکمرانی کی اور اپنے ملک کو تیسری دنیا کے ممالک کی صف سے نکال کر صفِ اول میں لاکھڑا کیا۔ آج بھی دوسری قومیں مہاتیر اکنامک ماڈل سے استفادہ کرتی ہیں اور مہاتیر کی پالیسیوں کی روشنی میں اپنے راستوں کا تعین کرتی ہیں۔ اپنے دورِ حکومت میں مہاتیر کے بادشاہوں اور عدلیہ سے بھی اختلافات رہے۔ مہاتیر نے ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں کرنسی کے بحران کا بھی سامنا کیا اور اس بحران سے خوبصورتی کے ساتھ نکلنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ اکتوبر 2003 میں وزارتِ عظمی سے دستبرداری کے بعد مہاتیر نے سیاست سے تقریباَ کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ مگر 2009 میں انھوں نے دوبارہ اُمنو میں شمولیت اختیار کرلی۔ گو کہ وہ ملائیشیا کی پارلمنٹ کا حصہ نہیں مگر ملائیشیا کی سیاست میں آج بھی ان کا موثر کردار ہے۔ مہاتیر ایک اعلی پائے کے لکھاری بھی ہیں۔ ان کی مشہور تصانیف میں مَلے ڈائلمہ، دی وے فارورڈ، ملائیشین کرنسی کرائیسس، اے ڈاکٹر اِن دی ہاؤس اور اے نیو ڈیل فار ایشیا شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments