مغرب میں بڑھتا اسلام فوبیا


\"\"ایک بچہ گھر کے باہر بیل بجانے کی کوشش کر رہا تھا ایک شخص وہاں سے گزر رہا تھا اس نے بچے کو مشکل میں دیکھ کر بیل بجا دی اور بچے سے پوچھا، بیٹا اب کیا کرنا ہے، بچے نے کہا کچھ نہیں انکل بس آئیے اب جلدی سے بھاگ چلیں۔ یہ تو ایک مذاق تھا لیکن اگر یہ حقیقت ہوتی تو اس کے بعد کیا ہوتا اس کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں اور سوچیں تو آپ کو یہی محسوس ہوگا کہ آج کل دینا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی مذاق ہو رہا ہے۔ کچھ بڑی قوتیں بیل بجاتی ہیں، مسلمان ممالک اور ان ملکوں میں مسلمانوں کو آپس میں لڑاتی ہیں اور بھاگ جاتی ہیں اور پھر اپنا اسلحہ فروخت کرتی ہیں اور تماشا دیکھتی ہیں۔ مسلمان ممالک اور مسلمان آپس ہی میں لڑتے ہیں اور مرتے ہیں اور اپنے وسائل ان ملکوں سے اسلحے کی خریداری پر صِرف کرتے ہیں اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ یہی ملک پھر مسلمانوں کو جاہل، گنوار، جنگجو، جنونی اور دہشتگرد کہتے اور سمجھتے بھی ہیں۔ انہی قوتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ایک فضا بنا دی گئی جس کی وجہ سے یورپ میں اب مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں اور ان کی مساجد کو بند کیا جا رہا ہے۔ کچھ بند ہوچکی ہیں اور جو بند نہیں ہوئیں انہیں بند کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کے لئے پوری دنیا میں اس وقت عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ نہ صرف ان ممالک میں جہاں مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں بلکہ ان ممالک میں بھی جہاں ان کی تعداد کم ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یورپین ممالک بھی جہاں کی مذہبی رواداری کی مثالیں دی جاتی ہیں وہاں بھی مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور جرمنی جیسے سیکولر اور جمہوری ممالک میں اس وقت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور خصوصاً مسلم خواتین کے حجاب پر لگاتار حملے ہورہے ہیں۔

برطانیہ میں ایک سروے میں ایسے ایسے انکشافات ہوئے ہیں جس سے پوری دنیا کے مسلمان پریشان ہوگئے ہیں۔ اس سروے کے مطابق چلتی ٹرین میں ایک باحجاب مسلم خاتون پر ایک گروپ نے شراب انڈیل دی اور جب اس خاتون نے احتجاج کیا تو اس کے ساتھ انتہائی بد تمیزی کی گئی اور ہتک آمیز سلوک کیا گیا۔ اس نسل پرستانہ حملہ کی شکار خاتون پر نہ صرف انہوں نے شراب انڈیلی بلکہ زور زور سے چلاتے بھی رہے کہ میں نسل پرست ہوں۔ ٹرین میں کتنے ہی لوگ موجود تھے مگر کسی نے بھی اس خاتون کی مدد نہیں کی۔ ظاہر ہے کسی با حجاب مسلم خاتون پر اس طرح کا یہ حملہ کوئی نیا نہیں ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب ان ممالک میں ہو رہا ہے جو بظاہر مذہبی رواداری اور آزادی کا دم بھرتے ہیں۔ کہیں با حجاب خاتون کے سر سے حجاب نوچ لیا جاتا ہے، کہیں قطار سے نکال کر الگ کھڑا کر دیا جاتا ہے، کہیں جامہ تلاشی اس طرح لی جاتی ہے جیسے کہ اس کو ذلیل کرنا مقصود ہو۔ پوری دنیا میں مسلمانوں اور خصوصاً مسلم خواتین کے خلاف اسلام فوبیا پر مبنی حملوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ لندن میں ایک حالیہ سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ صرف برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف جرائم میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دیگر یورپی ممالک میں کیا صورت حال ہوگی اس سروے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لندن کی میٹرو پولٹین کونسل کے مطابق بھی گزشتہ ایک سال میں مسلمانوں کے خلاف پر تشدد جرائم میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے اور اسلام فوبیا کی تقریباً 816 وارداتیں ہوئی ہیں۔ جب کہ 2 سال قبل 478 وارداتیں سامنے آئی تھیں۔ اس طرح گذشتہ دو سال میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں سو فیصد اضافہ ہوگیا۔

مسلمانوں کے خلاف پر تشدد حملوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ٹیل ماما کے مطابق خواتین اس قسم کے تشدد کا زیادہ نشانہ بنی ہیں۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نسل پرستی یا اسلام فوبیا کا شکار زیادہ تر خواتین ہوئی ہیں۔ اکتوبر 2015 کے دوسرے ہفتے میں ایک مسلم برطانوی طالب علم کو دہشت گرد کہہ کر صرف اس لیے پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا کہ اس طالب علم نے اسکول میں نماز پڑھنے کے لئے صرف ایک کمرہ یا کوئی جگہ مانگی تھی۔ ابھی حال ہی میں ایک سکول نے اپنے مسلمان طلبا کو باہر سڑک پر نماز پڑھنے پر مجبور کیا جو برطانیہ جیسے ملک کے لیے شرم کا مقام ہے۔ چونکہ با حجاب خواتین دور سے ہی نظر آجاتی ہیں اور ان کو دیکھتے ہی شرپسندوں کو بس ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ان کو دہشت گرد کہہ کر مذاق اڑائیں۔ ٹیل ماما نام کی تنظیم کی ڈائریکٹر کے مطابق گلی محلے کی سطح پر جو مسلم خواتین حجاب میں یا سر پر دو پٹہ اوڑھے نظر آتی ہیں، ان کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے مسلم مردوں کے مقابلے میں خواتین اس لئے زیادہ نشانہ بنتی ہیں کہ ایک تو وہ با حجاب ہوتی ہیں اور دوسرے بچوں کے ساتھ بھی ہوتی ہیں۔ اسلام فوبیا ذہن والے لوگوں کی یہ بزدلانہ سوچ ہوتی ہے کہ بچوں کے ہمراہ خواتین کو نشانہ بنانا مردوں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے ظاہر ہے نفرت کا اظہار ہی تو کرنا ہے، اس کے لئے خواتین سے زیادہ بے ضرر اور آسان شکار کون ہوسکتا ہے۔

 مسلمان خود اپنے لئے اس نفرت کے کتنے ذمہ دار ہیں، اس پر بھی بات کرنا ضروری ہے۔ جیسے جیسے دنیا میں مسلمانوں کے لئے نفرت بڑھتی جارہی ہے، ویسے ویسے مسلمان بھی اپنے خول میں سمٹتے جا رہے ہیں۔ آئی ایس آئی ایس، بوکو حرام اور طالبان کی سرگرمیاں پوری دنیا میں مسلمانوں کے لئے نفرت اور اشتعال پیدا کر رہی ہیں اور صرف ان چند تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمانوں پر پوری دنیا میں عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ پوری دنیا کاخصوصاً مغربی دنیا کا میڈیا ایک سازش کے تخت مسلمانوں کو جاہل، گنوار دہشت گرد، جنگجو اور خونخوار بنا کر پیش کررہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خود مسلمان بھی یہ احساس کریں کہ اس نفرت اور تعصب کے لئے وہ خود بھی کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہیں۔ یقیناً کہیں تو ہم سے بھی غلطی ہورہی ہے اس پر ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ آخر یہ غلطی کہاں ہورہی ہے اور اس کا ازالہ کیسے کیا جائے۔ ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی سوچنا چاہئے جو ان گنے چنے لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے پورے مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں اور اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب کہتے ہیں حالانکہ اسلام نے تو پوری انسانیت کے لیے امن کا پیغام دیا ہے اور یہ اس قدر برد بار مذہب ہے کہ اس نے اقلیتوں کو بھی برابر کی آزادی حقوق اور انصاف دیا ہے جس کی تاریخ گواہ ہے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں وہ دین کسی کو کیا نقصان پہنچائے گا جس میں راستے سے پتھر ہٹانے پر بھی ثواب ملتا ہو۔ لیکن اب باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اس بردبرد مذہب اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے اور اس کی روک تھام صرف اسی صوت میں کی جاسکتی ہے کہ مسلم امہ متحد ہو اور اپنی کمزوریوں کو دور کرکے اسلام فوبیا کے خلاف موثر حکمت عملی اپنائیں۔ اسلام فوبیا کے تدارک کی یہی ایک صورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments