کاغذ کے ستون اور تعلیم کے محل


\"\"

ڈیر پاکستانی بھانجی!

کتنی پیاری، خوبصورت اور ذہین لڑکی ہو تم جو دنیا میں‌ کچھ بھی کرسکتی تھیں! جب تمہاری ماں سر میں‌ سرسوں‌ کا تیل لگا کر گھر میں‌ سلی ہوئی فراک پہنا دیتی تھی تو کیسے گڑیا کی طرح‌ دکھتی تھیں۔ تمہاری شادی کا دعوت نامہ وصول ہوا۔ اس کو دیکھ کر مجھے سمجھ نہیں‌ آرہا تھا کہ میں‌ ہنسنا شروع کروں‌ یا رونا۔ اس لئے خاموش رہنا بہتر سمجھا وہ اس لئے کہ ابھی تمہاری عمر کافی کم ہے۔ ابھی پڑھائی بھی پوری نہیں‌ کی۔

جب مجھے معلوم ہوا تھا کہ تمہارے والد صاحب نے تم سات بچوں‌ کے ساتھ تمہاری امی کو گھر سے نکال کر ایک ہندو خاتون کو مسلمان کرنے کا نیک کام سرانجام دیا ہے تو اس وقت بھی مجھے اتنی تکلیف محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی آج ہورہی ہے۔ قانون نے تمہاری ماں اور اس کے بچوں‌ کو مایوس کیا۔ اس نے آٹھ افراد کی زندگی خراب کرنے میں‌ ہاتھ بٹایا۔ کچھ حادثے زندگی کردیتی ہے لیکن جو ہم خود اپنے ساتھ کرنا چنتے ہیں ان کا افسوس زیادہ ہوتا ہے۔ امید ہے کہ ایسے قانون بنائے جائیں‌ گے جو تمہارے والد کی طرح‌ کے لوگوں‌ کو جیل میں‌ ڈال کر ان سے پتھر تڑوائیں‌ اور ان سے جو پیسے ملیں‌، ان کو ان آدمیوں‌ کے پیدا کیے بچوں‌ کو کھانا کھلانے، کپڑے پہنانے اور ان کو اسکول بھیجنے پر خرچ کئیے جائیں۔

تمہاری ماں‌ کی مجبوری میں‌ سمجھ سکتی ہوں‌ جو اپنی بیٹی کو بھائی کے گھر رہنے کے لئے معاوضے میں‌ دے رہی ہیں کیونکہ ان کو باقی چھ بچے بھی پالنے ہیں۔ بغیر تعلیم کے وہ خود نوکری نہیں‌ کرسکتیں۔ لیکن کیا تمہاری چچی گھاس کھا گئی ہیں جو اپنے نشئی بیٹے کا علاج تم سے شادی کر کے کرنا چاہ رہی ہیں۔ نشے کی علت کا علاج شادی نہیں ہوتا بیٹی۔ اس کا علاج بہت مشکل اور طویل ہوتا ہے جس کے لئے اداروں‌ اور ان کو چلانے والے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لوگ آسمان سے نہیں‌ آتے، ہمیں‌ خود کو بنانا ہوتا ہے۔ نشے کے شکار لوگوں‌ کو بیوی اور بچوں کی نہیں بلکہ سنجیدہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب آدھے درجن پوتے پوتیاں‌ بیمار پڑے ہوں گے تو دادی کیسے چین سے سوئیں ‌گی؟ آج ایک فصل کاٹی جارہی ہے جس کے بیج کئی سال پہلے بوئے گئے تھے جب تمہاری ماں‌ اور چچی کو اسکول میں‌ سے نکال کر بیاہا گیا تھا۔

اور آج جو بیج بوئے جارہے ہیں ان کی فصل اگلے بیس سال میں‌ کھڑی ہوچکی ہوگی۔ یہ ایک دائرے کا سفر ہے۔ آج صرف تمہیں ایک بات جاننے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ تم اکیلی ہو۔

تمہاری فیملی میں‌ تھیلیسیمیا بھی ہے۔ اوکلاہوما میں‌ کزن میرج غیر قانونی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیمار اور اپاہج بچے اپنے والدین اور معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں۔ اس لئے جتنا ہوسکے ان بیماریوں‌ کو ہونے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ جب مجھے یہ کارڈ ملا تو میں تین دن تک میلاٹونن اور بیناڈرل کھا کر سوئی۔ تین دن سوگ کی رسم کسی نے سوچ کر بنائی ہو گی کیونکہ تین دن کے بعد ذرا صدمہ کم محسوس ہوتا ہے۔ ایک لفافہ بھیج رہی ہوں۔ اس میں‌ کچھ پیسے ہیں، کچھ بھی حالات ہوں میٹرک کے امتحان میں‌ بیٹھ جانا اور آگے بھی پڑھتی رہنا۔ چاہے تم پر گلی میں‌ لوگ آوازیں‌ کسیں‌ یا کچھ بھی کہیں۔ وہ کہیں گے تم لڑکا جنو، وہ کہیں گے کہ تم بانجھ ہو۔ وہ کہیں‌ گے کہ تم طوائف ہو۔ ایک کان سے سننا اور دوسرے سے نکالنا۔ یہ سب پہلے سے ہی کہا جاچکا ہے اور سنا جا چکا ہے۔ پچاس فیصد کو پڑھنا لکھنا نہیں‌ آتا اس لئے وہ اپنے دماغ میں‌سمجھتے ہیں ‌کہ وہ سب سمجھتے ہیں لیکن اصل میں ‌ایسا نہیں ‌ہے۔ ہاتھ میں تعلیم ہوگی اور دنیا کی کچھ خبر تو تمہاری زندگی میں‌ جو سیاہ دن اور ان سے بھی زیادہ تاریک راتیں‌ آنے والی ہیں‌ ان میں کوئی امید کا دیا جل سکے گا۔

یہ جو دوا کی گولیوں‌ کا پیکٹ ہے اس میں‌ پہلے دن پہلی گولی کھانا اور ہر روز ایک گولی کھانا یاد رکھنا جب تک تمہارا جسم اور دماغ ماں‌ بننے کے لائق ہو سکے۔ جوتے، کپڑے یا کھانے سے بھی اس بات کو زیادہ اہمیت دینا۔ یاد رکھنا، ایک انسان کا بھوکا رہ جانا اپنے سامنے اپنے بچوں کو بھوکا دیکھنے سے کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اگلے سال ایک بچہ ہوگا اور پانچ سال میں پانچ۔ وہاں پر گھر میں‌ یا ہسپتال میں؟ ہسپتال میں‌‌ بلیاں مرے ہوئے بچے اور پلاسینٹا کھا رہی ہوتی ہیں۔ ڈیلیوری لمبی اور تکلیف دہ ہوگی۔ اس کے بعد تمہارے جسم میں سے پیشاب کی بو آیا کرے گی۔ جسم کے مختلف راستوں کے درمیان میں‌ راستہ بن جائے گا اور ایک کے بجائے دوسرے سے چیزیں نکلنے لگیں‌ گی۔ ایسے جیسے اندوہناک حادثے کے بعد گاڑی دوبارہ کبھی نئی نہیں‌ رہتی۔ خواتین ڈائجسٹ یہ نہیں‌ بتاتا کیونکہ سچ کون خریدتا ہے؟ لوگ صرف خواب بیچتے ہیں‌ اور خواب خریدتے ہیں۔

بیٹا، لوگ شادی سے ٹھیک نہیں‌ ہوتے۔ یہاں دل کڑا کے ایک لطیفہ بتاتی ہوں جو ڈاکٹر کلاڈنی اکثر انفکشز ڈیزیز کی روٹیشن میں‌ کہتے تھے جب نشئی گندی سوئیاں‌ استعمال کرکے سردی میں‌ ہسپتال کے گرم بستر کے لئے دل کے دورے کا بہانہ کر کے آتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ معلوم ہے ایک نشئی جھوٹ کب بولتا ہے؟ کب؟ جب اس کا منہ کھلتا ہے۔

کزن میرج سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان میں‌ خاندان میں‌ ہونے والی بیماریوں‌ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ تھیلیسیما کے ساتھ تمہارے بچے کے پیدا ہونے کا ایک بڑا چانس ہے۔ تم نے اپنے سامنے اپنے کزنز کو مرتے اور قبرستان لے جاتے دیکھا ہے۔ ایک بچہ دن کے آخر میں‌ ماں کی ہی ذمہ داری ہوتا ہے وہ جیسا کہ تم لوگ خود ہی سمجھ گئے ہو گے اپنے والد صاحب کی مثال سے۔ اپنے بچے کو بڑا کرنا اور اس کو مرتے دیکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا بیٹی۔ وہ تمہاری آنکھوں‌ کے تارے اور لبوں‌ کی مسکراہٹ چھین لے گا۔

تمہاری نانی کی اتنی عمر تو نہیں، ان کے دانت کیا ہوئے؟ نانا کو جگر کا کیسنر کیوں‌ ہوا؟ گیارہ بچے پیدا کریں تو ہر بچہ ایک دانت لے لیتا ہے اور بچپن میں‌ ہیپاٹائٹس کی ویکسین نہ لگوائیں تو ایسے جگر کے کینسر سے لوگ اس وقت مر جاتے ہیں‌ جب ان کے بچے ابھی اپنے پیروں‌ پر کھڑے نہیں‌ ہوئے ہوتے۔ پھر چھوٹے بچے جن کو ماں‌ باپ نے پیدا کیا تھا، ان کے بہن بھائیوں‌ کو پالنے پڑ جاتے ہیں۔ دیکھو اور سوچو! یہ سمجھنے کے لئے تمہاری عمر بہت کم ہے لیکن تمہارا اپنا اور اپنے آنے والے بچوں‌ کا سارا بوجھ تمہارے اپنے کاندھوں‌ پر ہے۔ ادارے ناکافی ہیں، نہ گھروالے سہارا دے رہے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے، کرتا رہے، اپنا خیال کرنا۔ جن لوگوں کو تم سہارا سمجھ رہی ہو وہ تم سے بھی زیادہ کمزور انسان ہیں اور اندھے بھی۔ تمہیں ہمت کرنی ہوگی، اپنے لئے اور اپنی بیٹیوں کے لئے۔ ان کے بہتر مستقبل کے لئے۔ مجھے معاف کرنا، اس سے زیادہ کچھ نہیں‌ کر پائی۔

فقط تمہاری پرانی پڑوسی ڈاکٹر آنٹی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments