ریشمی رومال تحریک: مغربی صحافی کے مضمون کا جواب(۱)۔


\"\"

(ڈاکٹر محمد جاوید)۔

8 دسمبر1916کے ڈان اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’’Conspiracy in silk‘‘ یہ مضمون ایک مغربی صحافی اوون بینیٹ جونز نے تحریر کیا۔ یہ مضمون دراصل تحریک ریشمی رومال کے تناظر میں تحریر کیا گیا، یہ تحریک ہندوستان میں انگریزی سامراجی تسلط کے خلاف چلنے والی آزادی کی تحریک تھی جس کی قیادت مسلمان علماء کے ہاتھ میں تھی۔
اس مضمون پہ تبصرہ سے پہلے ذیل اس مضمون کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:


ایک صدی قبل ملتان میں انگریزی راج قائم تھا، پنجاب حکومتی حکام نے ایک پیغام رساں کو حراست میں لیا جس کا نام عبد الحق تھا۔ وہ زرد رنگ کے تین خطوط کے ہمرا ہ کابل سے سفر کرتے ہوئے آیا تھا۔ ان خطوط کو اس نے اپنے کوٹ کی اندرونی تہوں میں سلوا کر چھپایا ہوا تھا۔

آغاز میں انگریز حکام نہیں جانتے تھے کہ ان خطوط کا کیا کرنا ہے، یہ خطوط صاف اور تقریباً خامیوں سے پاک اردو میں تحریرکیے گئے تھے جن میں انگریز حکومت کے خاتمے کا منصوبہ بیان کیا گیا تھا۔ ملتان کے کمشنر نے انہیں ایک ’’بچگانہ حرکت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔ لیکن اس کے کچھ ساتھیوں کا نقطہ نظر ان خطوط کے بارے میں یکسر مختلف تھا۔ آنے والے ماہ وسال میں ان خطوط کے بارے میں انگریز نو آبادیاتی( سامراجی) حکام کی طرف سے ہزار ہا صفحات پہ مشتمل تجزیے منظر عام پہ لائے گئے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ان خطوط کو برصغیر میں انگریز سامراج کی حکمرانی کے مستقبل کے طور پہ سمجھا جائے۔

ان خطوط میں سے دو خطوط سکھ سے مسلمان ہونے والے اور دیوبند سے فارغ التحصیل عبید اللہ سندھی نے تحریرکیے تھے۔ وہ کابل اس امید پہ گیا تھا کہ وہ عالمی سطح پہ مدد اکٹھی کرے، اس کا یہ خیال تھا کہ عالمی سطح پہ مسلمانوں کی اجتماعی کوشش سے انگریز کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔

لیکن افغانوں کی طرف سے مایوس کن جواب کے بعد اس نے قلم اور ریشم سنبھالا او ر بہتری کی امیدکے ساتھ، مدرسہ دیوبند کے مہتمم محمود حسن کی حوصلہ افزائی سے ترکی، استنبول کا سفر کیا۔
دونوں افراد (سندھی اور محمود حسن) کا آپس میں خاص تعلق ابھی تک واضح نہیں ہے، بعض کے مطابق اس پورے منصوبے کا لیڈر محمود حسن تھا اور سندھی کو اپنی مرضی پہ چلنے پہ آمادہ کیا۔ دوسری طرف سندھی بہت زیادہ ارادے کا پختہ آدمی تھا اس نے تذبذب کا شکار حسن کے ساتھ اس کی اسکیموں کے مطابق چلنا شروع کیا۔ اس معاملے کی اصل سچائی جو بھی ہو، ہر ایک اس امر پہ متفق ہو سکتا ہے کہ دونوں کے منصوبے شاندار تھے۔

ریشمی خطوط کی صدا تھی کہ’’ایک اتحاد مسلمان باشاہوں کے درمیان‘‘۔ یہی ایک مؤثر طریقہ تھا ہندوستان کے کافروں (انگریز سامراج) کو سزا دینے کا۔ یہ تصور نہ صرف بڑی مسلمان طاقتوں کے نمائندوں تک پہنچایا گیا بلکہ برطانیہ کی پہلی جنگ عظیم کے دشمنوں تک بھی پہنچایا گیا جیسا کہ جرمنی۔

ہتھیاروں کی محفوظ نقل وحمل سے انڈیا میں بغاوت شروع کی جا سکتی تھی۔ محمود حسن کی عمومی قیادت کے تحت اورقیادت بھی تھی جس کا تعلق قسطنطنیہ، تہران، کابل اور خود ہندوستان سے تھا۔ گیارہ فیلڈ مارشل اور کئی کرنل اس جدو جہد کی قیادت کرتے اور انگریز کو ہندوستان سے نکال باہر کرتے۔

لیکن یہ منصوبہ انگریز حکام نے’’شروع ہونے سے قبل ہی ختم“ قرار دیا۔ خطوط کی بر آمدگی کے بعد انگریز نے انتہائی عجلت میں کئی اہم منصوبہ سازوں کو گرفتار کر لیا۔ یہ نائن الیون کے بعد ہتھیار ڈالنے کے پروگراموں سے دلچسپ مماثلت رکھتا ہے، محمود حسن کو مکہ سے قاہرہ لایا گیا اور تفتیش کے بعد مالٹا جزیرے پہ بھیج دیا گیا یہاں تک کہ جنگ عظیم ختم ہو گئی۔ انگریز حکام نہیں چاہتے تھے کہ ان کو ہندوستان ہی میں قید رکھا جائے کیونکہ اس سے مسلمانوں کے اندر انگریز( سامراج) کے خلاف مزید نفرت پھیلنے کا اندیشہ تھا۔

سو سال گذرنے کو ہیں، اس معاملے کو دیکھتے ہوئے بہت ہی مختلف تشریحات سامنے آتی ہیں کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔

انگریزی مواد آج تک اسے’’ریشمی رومال سازش‘‘قرار دیتا ہے جو انگریز حکومت کے مخالف ہیں وہ ’’تحریک رشمی رومال‘‘کہتے ہیں۔ بہت سارے جو مغرب میں اسلامی بنیاد پرستی سے فکر مند ہیں وہ اس کو 1916 کے دیوبندی جنہوں نے متشدد جہاد کی وکالت کی اور جو آج کر رہے ہیں یکساں تناظر میں دیکھتے ہیں۔

تاہم ہندوستان کی موجودہ حکومت اس کو مختلف انداز سے لیتی ہے اس معاملے کو مسلمانوں کی ہندوستان کی آزادی کے لئے متحدہ جدو جہد قرار دیتی ہے۔ 2013 میں بھارتی حکومت نے تحریک ریشمی رومال کو ہندوستان کی قومی آزادی کی تحریک کے طور پہ اپنا حصہ ڈالنے کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اس تعریف و توصیف سے ہندوستان میں موجود دیوبندیوں نے مسرت کا اظہار کیا، ان کے تاریخ دان اس پہلو کو زیادہ اہمیت سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد نے انگریز سامراج کا تختہ الٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا۔

لیکن ان کی کتا بوں میں اس معاملے میں عصری صداؤں کے لئے ایک دوسرا سبق بھی ہے: کہ اسلامی تحریکیں یکجہتی نہ ہونے کی وجہ سے کمزور ہو رہی ہیں۔ لیکن شاید انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ ریشمی رومال خطوط کس نظر سے دیکھے گئے، اور اب تقابل کریں تو جو زبان انگریز سامراجی حکام نے ایک صدی پہلے استعمال کی تھی اور آج پاکستانی کرتے ہیں۔

دستاویزات ظاہر کرتے ہیں انگریز سامراجی حکام نے ان خطوط پہ صفحہ در صفحہ سرکاری تبصرہ میں ان مذہبی علماء کے بارے میں اپنے خوف کا اظہار کیا جو لوگوں کے جذبات ابھارتے ہیں۔
جیسا کہ ایک سرکاری عہدیدار نے لکھا: یہ ممکن ہے، شاید ایسا نہ ہو، وہ وقت آ سکتا ہے جب مسلسل جہاد کا پرچار کرنے والے ہندوستان میں اور سرحد پاربڑی تعداد کومتاثر کریں جیسے یہ انفرادی سطح پہ کر چکے ہیں۔

British criminal Investigation Department برٹش کرمنل انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس منصوبے نے افغانستان کے سرحدی قبائل میں ’مذہبی جنونیت‘ کو بڑھا کر، بہکانے والی تعلیمات اور دوسرے لفظوں میں انگریز کے خلاف نفرت بڑھا کر انگریزوں کی حکمرانی کو ختم کیا۔

ان الفاظ کو بدل دو: ’’جنونیت‘‘ کو’’انتہا پسندی‘‘ کے ساتھ اور ’’انگریز حکومت‘‘ کو ’’پاکستانی‘‘ کے ساتھ اور تم مغربی سیاستدان کو آج غور سے سن سکتے ہو ی آئی ایس پی آر( پاک فوج شعبہ تعلقات عامہ) کا بیان نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں سن سکتے ہو۔


یہ مضمون اس لئے مجھے اہم لگا کیونکہ مغربی مستشرقین کی عام روش کے مطابق اس میں بھی ایک سعی ناکام کی گئی کہ اس تحریک کو جو کہ ہندوستان میں ایک غیر ملکی سامراجی تسلط کے خلاف قومی آزادی کی نقیب تھی کوایک مذہبی’’انتہا پسندی‘‘یا مذہبی جنونیوں کی تحریک کے طور پہ پیش کر کے اسے عصر حاضر میں اسلام کے نام پہ قتل و غارت گری کرنے والے گروپوں سے نظریاتی طور پہ جوڑ دیا جائے۔

مجھے یہ تحریر اسی سامراجی سوچ کا تسلسل نظر آتی ہے جب انگریزی سامراجی غلامی کے خلاف کام کرنے والے مسلمان گروپوں کو مذہبی جنونی اور انتہا پسند قرار دیا جاتا رہا ہے، جو سامراجی مفادات کے تابع قومی آزادی کا سودا کرتے رہے انہیں اعتدال پسند قرار دیا جاتا رہا۔ انگریزی اقتدار کے زمانے میں بھی ایک سول سروس کے انگریز ملازم جس کا نام ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر تھا’’ ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ کے نام سے انگریز کے خلاف چلنے والی تحریکوں کے بارے کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا جو آج اکیسویں صدی میں ایک انگریز صحافی Jones Owen Bennett کر رہا ہے۔ جس طرح سے اس نے سید احمد شہید کی تحریک کو ’’وہابی تحریک‘‘ کا نام دے کر بدنام کیا اور اسے مذہبی جنونی قرار دیا۔ اسی طرح آج اسی سیاسی تحریک کو جس کا تسلسل ریشمی رومال تحریک تھی اس کو عصر حاضر میں قتل وغارت گری کرنے والے ’’ سامراجی آلہ کار گروہوں‘‘ سے نظریاتی طور پہ جوڑنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔

\"\"

اس مضمون کے لکھاری صحافی شاید تاریخ کے مطالعہ سے نابلد ہیں یا جان بوجھ کر انہوں نے روایتی تعصب کا مظاہرہ کیا۔

یہاں میں مختصراً تاریخ کے ان گوشوں پہ روشنی ڈالنا چاہوں گا، جن کو اگر ’’British Consipracy against Great India‘‘ یعنی عظیم ہندوستان کے خلاف سازش قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ یہ سازش مسلمان حکمرانوں کے خلاف کی گئی کیوں کہ گذشتہ کم وبیش آٹھ سو سال سے وہ ہندوستان پہ حکمران تھے اور اسے’’ سونے کی چڑیا بنایا‘‘ انگریزوں نے ہر سطح پہ سازشیں کر کے مسلمانوں سے اقتدار چھینا، اور تقریباً ڈھائی سو سال میں معاشی و اقتصادی استحصال کے ذریعے اس’’ سونے کی چڑیا ‘‘کو کنگال بنایا۔

ذیل میں انگریز مصنف ڈبلیو، ڈبلیو ہنٹر ہی کے الفاظ میں اس حقیقت کو پیش کرنا چاہتا ہوں جس کا اوون بینیٹ جونز نے شاید مطالعہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ذیل میں ڈبلیو، ڈبلیو ہنٹر کے وہ بیانات پیش خدمت ہیں جس سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ انگریزی سامراج کا سب سے پہلا اور اہم ترین نشانہ کون تھے:

1۔ ’’مسلمان شہنشاہ کی ظاہری برتری کو مٹانے سے بہت پہلے ہم نے مسلمان حاکموں کو بر طرف کرنا شروع کر دیا تھا‘‘(1)

2۔ ’’1864میں ہم نے دلیرانہ قدم اٹھایا میرے خیال میں یہ اقدام بڑا ہی غیر دانشمندانہ تھا یعنی مجلس قوانین ساز کے ایک ایکٹ کے ذریعہ ہم نے تمام مسلمان قاضیوں کو برطرف کر دیا اس قانون نے نئی ہندوستانی سلطنت کی اس عمارت کو مکمل طور پر دارالحرب میں بدل دیا۔ ‘‘(2)

3۔ ’’مسلمانوں کی حیثیت یک قلم تبدیل ہو گئی اور موجودہ نسل اس تبدیلی کی مطلق ذمہ دار نہیں بجائے اس کے کہ وہ ہندوستان کے مالک ہوتے ان کے حقوق چھین لئے گئے جن کا اب ان کو دوبارہ حاصل کرنا ضروری ہو گیا۔ ‘‘(3)

4۔ ’’ہندوستانی مسلمان برطانوی حکومت کو غفلت، بے اعتنائی کا مجرم، جذبات، شجاعت سے معرا اور سرمایہ میں کمپنیوں کی طرح بددیانتی سے کام لینے والے اور دیگر بڑی نا انصافیوں کا جن کا سلسلہ سو سال تک پھیلا ہوا ہے مرتکب ٹھہراتے ہیں۔ ‘‘(4)

5۔ ’’یہ وہ قوم ہے(مسلمان) جسے برطانوی حکومت کے ماتحت تباہ و برباد کر دیا گیا ہے‘‘(5)

6۔ ’’ہم نے بنگال میں قدم رکھا تو مسلمانوں کے ملازمین کی حیثیت سے لیکن اپنی فتح و نصرت کے وقت ان کی مطلق پرواہ نہیں کی، اور نودولتیے طبقے نے گستاخانہ ذہنیت کے ساتھ اپنے سابق آقاؤں کو پاؤں تلے روند ڈالا۔ ‘‘(6)

7۔ ’’ہم ان متواتر اور مسلسل نا انصافیوں کے احساس کو دور کریں جو انگریزی حکومت کے ماتحت مسلمانوں کے اندر پیدا ہو گیا ہے‘‘(7)

8۔ ’’وہ قوم ہے جس کی روایات بہت شاندار ہیں مگر جس کا اس کے باوجود کوئی مستقبل نہیں اگر اس قوم کی تعداد تین کروڑ ہے تو یہ محض اس قوم کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کے حاکموں کے لئے بھی ایک بہت ہی اہم سوال ہے‘‘(8)

اسی طرح ایک اورنگریز اکابر’’مسٹر لیکی‘‘ کو یہ کہنا پڑا ’’اگر دنیا میں کوئی بغاوت حق بجانب کہی جا سکتی ہے تو وہ ہندوستان کے ہندو، مسلمانوں کی ہے۔ ‘‘(9)

اس حقیقت کوکو مؤرخ کبھی نہیں چھپا سکتا کہ انگریزی سامراج نے جو سازشیں اورجنگ مسلمانوں کے خلاف شروع کی، انہیں تباہ و برباد کیا، اب اس جنگ کو یقیناً آگے بڑھنا تھا، مسلمان اس وقت قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے، کیونکہ اقتدار ان کے ہاتھ سے چھینا گیا تھا، اور انہیں براہ راست انگریزی سامراجی مظالم کا شکار ہونا پڑا تھا۔

یہاں اس پہلو کی بھی وضاحت کر لوں کہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد مسلمانوں کے اقتدار میں بھی بہت ساری ایسی خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں جنہیں عصری تقاضوں کی روشنی میں درست کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ سیاسی نظام کی ان خرابیوں کی نشاندہی اس وقت شاہ ولی اللہ نے کی۔ اور مختلف عنوانات سے انہوں نے ان خرابیوں کو دور کرنے کا حل بھی پیش کیا، لیکن ابھی اس حوالے سے کوئی باقاعدہ سیاسی جدو جہد کا آغاز ہوتا کہ انگریزوں کی مداخلت نے اس کا موقع نہیں دیا، لہذا شاہ ولی اللہ کے مرکز سے انگریزوں کی مداخلت اور ان کی ریاست کے خلاف سازشوں کے خلاف پورے ہندوستانی قوم کی آواز بنتے ہوئے ان کے بیٹے شاہ عبد العزیزنے انگریزوں کے خلاف دار الحرب کا فتویٰ دے دیا، اور مسلمانوں کو بالخصوص یہ پیغام دے دیا کہ وہ آزادی کی جدو جہد ایک مذہبی فریضہ کے طور پہ انجام دیں۔ اس فتوے کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں اور مرہٹوں میں عداوت ختم ہوئی اور انہوں نے کھل کر انگریزوں کے خلاف لڑنا شروع کیا، مسلمان مرہٹوں کی فوج میں شامل ہوئے، شاہ عبد العزیز نے اپنے معتمد سید احمد کو امیر علی خان سنبھلی کے پاس بھیجا جو اس وقت جسونت رائے ہولکر کے ساتھ ملک کر ایک عرصے سے انگریزوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ لیکن بعد ازاں’’1818ء تک مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پنجابی سلطنت کے علاوہ ہندوستان کی تمام چھوٹی بڑی طاقتیں انگریزوں کے سامنے ہتھیار پھینک چکی تھیں۔ اب انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم تمام رعایا پہ ضروری ہو گیا تھا، اس صورتحال میں انگریزوں کے خلاف البتہ ایک طاقت تھی جس نے انگریز کے خلاف سر جھکانے کا نہیں سوچا یہ وہ تحریک تھی جس کا تعلق شاہ ولی اللہ کی سیاسی فکر سے تھا، سید احمد اور ان کے رفقاء کی تحریک نے انگریزوں کے خلاف اس جدو جہد کو جاری و ساری رکھا۔ اور اسے اپنامذہبی فریضہ سمجھ کر آگے بڑھاتی رہی، ان تحاریک کی قیادت زیادہ تر مسلمان علماء کے ہاتھ رہی، لہذا اسی وجہ سے انگریزوں کو ان کے خلاف مختلف قسم کے مذہبی پرو پیگنڈے کر کے ان کے اثر کو معاشرے میں کم کرنے کی سازشیں کرنی پڑیں۔ شاہ ولی اللہ کی فکر سے وابستہ آزادی کی یہ تحریکیں انگریزی اقتدار کے خلاف متحرک رہیں، لہذا بیسویں صدی عیسوی میں ان تحریکوں نے عالمی حالات کے تناظر میں اپنے آپ کونئے انداز سے ڈھالنا شروع کیا۔


ریشمی رومال تحریک: مغربی صحافی کے مضمون کا جواب(2)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments