ریشمی رومال تحریک: مغربی صحافی کے مضمون کا جواب(2)۔


(ڈاکٹر محمد جاوید)۔

پہلا حصہ\"\"
۔
1914ء میں تحریک ریشمی رومال انگریز سامراج کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی چلنے والی ایک قومی تحریک کا حصہ اور تسلسل تھی، اس تحریک کا بنیادی منصوبہ یہ تھا کہ باہر سے انگریزی حکومت کے خلاف جنگ اسلامی ممالک کی طاقت سے اور انگریزوں کے دشمنوں کی مدد سے شروع کرائی جائے اور اندرونی طور پہ منظم طور پہ انگریزی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائیں جائیں اور اسے ہندوستان کی سر زمین سے نکال باہر کیا جائے۔ یقیناً اس وقت عبید اللہ سندھی اور ان کے رفقاء کے ذہنوں میں اسلامی دنیا سے مدد اور ان کی حمایت کی خوش فہمی تھی جو بعد ازاں ختم ہو گئی اور انہوں نے مستقبل میں ایسی کسی خوش فہمی کو پالنے کی سختی سے ممانعت کر دی۔

اگرچہ کہ اس تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے علماء کا تعلق مدرسہ دیوبند سے تھا لیکن اس میں یونیورسٹی اور کالجز کے طلباء اوردیگر دینی مراکز اور مکاتب فکر کے علماء و افراد بھی شریک جدو جہد رہے، انہوں نے وطن کی آزادی کے لئے اپنی جانوں اور مالوں کی بے شمار قربانیاں دیں، اگرچہ کہ ان کی تحریک اسلامی عقائد کی بنیاد پہ آزادی کے مقصد پہ جدو جہد کر رہی تھی، لیکن انہوں نے اپنے ہندو بھائیوں سے بھی شانہ بشانہ مل کر آزادی کی جدو جہد کے لئے کام کیا۔

اوون بینیٹ جونز نے جب عبید اللہ سندھی کا کابل کے حوالے سے ذکر کیا تو ان کی کابل میں ان تحریکی سر گرمیوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھا جس میں انہوں نے ہندو لیڈر راجہ مہندر پرتاب کی سرگرمیوں میں ان کا ساتھ دیا اور کابل میں پرو وینشل حکومت بنانے میں ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ یہ ایک پہلا موقع تھا جب کٹر ہندو اور انتہائی مذہبی مسلمان اپنے وطن کی آزادی کے مقصد کے لئے ایک پلیٹ فارم پہ یکجا ہوئے۔ دونوں نے چار سال تک آزادی کے لئے مل کر کام کیا، حکومت موقتہ ہند Provisional Government کے وزیر اعظم برکت اللہ کے ہندونیشلنسٹس لیڈروں سے انتہائی گہرے تعلقات تھے، انہوں نے قومی آزادی کے مشترکہ مقصد کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہی وہ کاوشیں اور جدو جہد تھی کہ آج بھی ہندوستان کی حکومت اس تحریک کو قومی آزادی کی تحریک کے طور پہ مناتی ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ سامراجی سوچ کا حامل متعصبانہ طرز فکر آج بھی انگریزی صحافیوں میں موجود ہے۔

شاہ ولی للہ کے مرکز دہلی سے شروع ہونے والی سیاسی تحریک کوئی مذہبی جنونینوں کی تحریک نہ تھی بلکہ اسلامی فکر کی تجدید اور ایک نئے اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سیاسی اور معاشی نظاموں کی طرف رہنمائی کی علمی اور عقلی تحریک تھی۔ اسی تحریک کے عسکری صلاحیت کے حامل گروپوں نے وقت کے تقاضوں کے مطابق وطن کی آزادی کی خاطر قابض سامراجی طاقت کے خلاف بے دریغ قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ لیکن دوسری طرف علمی اور فکری سطح پہ بھی کام ہوا ہے، اس تحریک نے وقت کے ساتھ ساتھ علمی و عقلی رہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔
اب اس پوری تحریک کو ’’مذہبی جنونیت‘‘ کی نمائندہ قرار دینا تاریخی حقیقت کو مسخ کرنے کے برابر ہو گا۔ علی گڑھ کی ترقی پسند تحریک ہو یا دیو بند کی مزاحمتی تحریک دونوں کا مرکز شاہ ولی اللہ کا فکر ہی تھا۔ عبید اللہ سندھی کے بقول آخری شکست سے پہلے ہی دہلی کی مفتوح ہونے پر یہ تحریک منتشر ہو کر دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔

1۔ علی گڑھ پارٹی کو آپریٹو(co operative) سر سید اس کے لیڈر تھے۔

2۔ دیو بند نان کو آپریٹو(non co operative) مولانا قاسم اور مولانا محمود الحسن اس کے حامل تھے۔ ‘‘(10)

عبید اللہ سندھی گذشتہ تحریک کی جدو جہد کے نتائج پرتبصرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ’’انقلاب 1857ء کے بعد مسلمانان ہند کی اندرونی طاقت دو حصوں میں منقسم ہو گئی، ایک کا مرکز علی گڑھ بنا اور دوسری کا مرکز دیوبند قرار پایا علی گڑھ نے مسلم لیگ پیدا کی اور یہ اس کی سیاست کی آئینہ دار ہے۔ دیوبند نے جمعیۃ العلماء ہند پیدا کی اور اس کی سیاست اس جماعت کی شکل میں پڑھی جا سکتی ہے اب یہ دونوں تحریکیں رک گئی ہیں اور مسلمانوں کی کشتی ساحل مراد تک نہیں پہنچا سکیں۔ ‘‘(11)

مزید لکھتے ہیں کہ’’اب یہ سکیم فیل ہو گئی تو مولانا محمود الحسن نے مستقبل کے بارے میں چند اشارات دیے، لہذا میں اب پنی ذمہ داری پر تحریک کا تیسرا دور چلانا چاہتا ہوں‘‘(12)
عبید اللہ سندھی کے شاگردپروفیسر سرور تحریر کرتے ہیں کہ

’’شاہ ولی اللہ ہندوستان کی اسلامی علم وفکر کے جس دور کے فاتح تھے شیخ الہند مولانا محمود الحسن اس کے خاتم ہیں اور اب اس نئے دور کے فاتح مولانا عبیداللہ سندھی ہیں مولانا نئے فلسفہ وحکمت کو پڑھتے اور اسے آزمانے کی دعوت دیتے ہیں‘‘(13)

اب شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک کے نئے دور کے سرخیل عبید اللہ سندھی ہیں، وہ اس نئے دور کی حکمت عملی کے بارے میں کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں’’میں برطانیہ سے لڑنے والی طاقتوں کے ساتھ شریک رہ چکا ہوں، اس وقت مذہبی نقطہ نظر سے میں اسے اپنا فرض سمجھتا تھا، ہم اس جنگ میں شکست کھا گئے مگر اپنے مذہبی فیصلہ کی صحت کا اب بھی یقین رکھتے ہیں۔ (14)
’’لیکن آج حالات مختلف ہیں، برطانیہ کی مسلمانوں کے ساتھ کوئی مذہبی جنگ نہیں۔ ہم اپنے سیاسی مطالعہ کے موافق اپنے ملک کے لئے برطانیہ سے اس وقت پر خاش غلط سمجھتے ہیں، اس ایجی ٹیشن کا مطلب دوسری قومیں صحیح نہیں سمجھ سکتیں، ہمیں عدم تشدد کی پابندی سے ترقی کا موقع برٹش کام ویلتھ میں رہ کر مل سکتا ہے۔ دوسری صورت میں نظر نہیں آتا۔ ‘‘(15)

اس نئے دور میں عبید اللہ سندھی نے عدم تشدد کو اپنی تحریک کی بنیاد بنا دیا۔ وہ بیان کرتے ہیں:
’’جس زمانے میں ہم ہر طرف سے مایوس ہو گئے اور ہم نے عدم تشدد کو ایک سیاسی پرو گرام کی شکل میں منظم ہوتے مشاہدہ کر لیا تو ہماری حکمت کی ذہنیت بیدار ہوئی یعنی جب حالات ایسے پیدا ہو جائیں جیسے ایک منسوخ شریعت کے وقت ظاہر ہونے تھے تو حکیمانہ عقل مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنا قیاس اپنی ذمہ داری سے اسی منسوخ شریعت کے موافق پیدا کر کے اس پر عمل کر لینا چاہیے اس طرح ہم نے عدم تشدد کو اپنے پروگرام میں اہم جگہ پہ رکھا۔ (16)

مزید ضاحت کرتے ہیں:
(1) ہم نے اپنے اندر لڑائی لڑ کر آزادی حاصل کرنے کی طاقت نہ دیکھ کر عدم تشدد کو قبول کیا۔
(2) ہم کسی بیرونی طاقت کے اشتراک سے آزادی حاصل کرنے کے روادار نہیں ہیں۔

\"\"

ہمارے خیال میں عدم تشدد کی پابندی سے وہی آزادی حاصل ہو سکتی ہے جو بالتدریج ہو اس سے پہلے’’ڈومینین اسٹیٹس‘‘ کے درجے کا ہوم رول ہو گا اور کافی زمانے تک ہند ’’برٹش کامن ویلتھ‘‘کے اندر رہے گا اس کے بعد سمجھوتے سے خارجی اور حربی اختیارات منتقل ہوں گے ان اختیارات پر پورا قبضہ حاصل ہونے کے بعد ’’کامل آزادی‘‘کا لفظ اصلی معنی میں صادق آتا ہے، عدم تشدد کی پابندی سے یہ درجہ حاصل کر لینا اہل ہند کی عقل مندی اور برطانیہ کی مصلحت شناسی سے دور نہیں، اس امکان کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے عدم تشدد کو اپنے پروگرام میں قبول کر لیا۔ ’’ہمارا خیال ہے کہ کامل آزادی حاصل ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک ہندوستان برطانیہ کا حلیف بن کر رہے گا اور حکمراں قوت کے ساتھ سمجھوتے سے مدارج طے کیے جائیں گے۔ ’’ہم نے عدم تشدد کو اس کے لوازم کا پورا مطالعہ کرنے کے بعد قبول کیا ہے ہمیں اپنی اس کمزوری کے اظہار میں مسرت محسوس ہوتی ہے، کیونکہ ہم سیاسی جہل و غرور میں مبتلا رہنا جرم عظیم سمجھتے ہیں۔ ‘‘(17)
گویا عصر حاضر میں اگر کوئی گروہ شا ولی اللہ کی اس تحریک کے تسلسل کو آگے بڑھانا چاہتا ہے، یا اس سے تعلق استوار رکھنا چاہتا ہے تو اسے عبید اللہ سندھی کو اس دور کی حکمت عملی کا امام ماننا پڑے گا۔ ایسی کوئی بھی تحریک جو اس دور میں کسی بھی سطح کی مسلح جدو جہد میں شامل ہے یا ایسے نظریات کا پرچار کرتی ہے’’وہ سیاسی جہل وغرور‘‘میں مبتلا ہے اس کا کسی بھی سطح پہ کوئی بھی تعلق تحریک ریشمی رومال کے اکابر کے نظریات سے نہیں ہے۔

اب اگراس دور کی جہادی تحریکات کا تجزیہ کیا جائے تو ان تمام تحریکوں کے تانے بانے مغربی ممالک کی ایجنسیوں اور ان کے سیاسی مراکز سے جڑے ہوئے ہیں۔ نائن الیون کے واقعات ہوں یا دنیا بھر میں اسلام کے نام پہ بننے والے مختلف مسلح گروپس، یا مشرق وسطیٰ میں انسانوں کے قاتل گروپس جو اسلام کا نام استعمال کر رہے ہوں ان سب کا تاریخی تسلسل یہ بتاتا ہے کہ انہیں نظریاتی اور مالی سپورٹ بہم پہنچانے والے اوون بینیٹ جونز ہی کے ہم وطن سیاسی بازی گر اور خفیہ ادارے ہیں۔ ذرا سا سوویت یونین کے خلاف جنگ کے زمانے کا تجزیہ کیا جائے تو اس حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے، سوشلزم کے خلاف ایک بہترین ہتھیار کے طور پہ اسلام کو بھر پور طریقے سے استعمال میں کون لایا؟ سوویت جنگ میں کروڑوں ڈالر خرچ کرنے والی خفیہ ایجنسی نے کس کس مد میں یہ رقم خرچ کی، کس طرح سے پاکستان میں اور مشرق وسطیٰ میں جہادیوں کی فصلیں بوئی گئیں، اور انہیں اپنے اپنے وقت پہ کاشت کیا گیا، کتب خانے بنائے گئے، مصنفین تیارکیے گئے، ’’خدا بچاؤ‘‘ کے نام سے مسلح تحریکوں کے لئے تربیتی مراکز بنائے گئے، تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہی’’مغربی سیاست دان‘‘جو آج اسلامی جنونیت سے خوف کھاتے ہیں وہی ’’ افغانستان میں مشرق وسطٰی اور پورے ہندوستان سے تیارکیے گئے کرائے کے جہادیوں کے ساتھ مل کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔

اوون بینیٹ جونز یہ سمجھنا بھول گئے کہ وہی تبلیغ جو ایک وقت میں انگریز سامراج کے خلاف سر حدی علاقوں میں ہو رہی تھی، اور ان کے اقتدار کے لئے خطرہ بن گئی تھی، اب اسے امریکی خفیہ ایجنسیوں اور مالی امداد نے پھر سے اپنے جنگی ہتھیار کے طور پہ پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقوں میں اس طرح رواج دیا کہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہو گیا۔

اسی طرح اکیسویں صدی کی سامراجی قوتوں نے پہلے خود ’’ مروجہ جہادی کلچر‘‘ کو تخلیق کیا، اس مقصد کے لئے مولویوں کی فیکٹریاں اور لٹریچر کے کارخانے لگائے گئے، جہادی کلچر کونئے نئے عنوانات سے متعارف کروایا گیا، اس کے لئے خاص طور پہ اپنی آلہ کار حکومتوں اور ایجنسیوں کو استعمال کیا گیا، ، میڈیا کی طاقت سے مقدس بنایا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا’’مجاہد قرار دیا‘‘ اور پھر جب سوویت یونین بکھر گیا تو پھر عالمی سامراجی سیاسی اور خفیہ مراکز نے اپنا ایجنڈا بدل دیا، راتوں رات وہی’’ مجاہدین‘‘’’دہشت گرد‘‘’’ بنیاد پرست‘‘’’ مذہبی جنونی‘‘ بن گئے۔ اب ساری دنیا کو ان ہی گروپوں کے خلاف جنگ کے نام پہ مشرق وسطیٰ کے ممالک اور افغانستان پہ فوجی مداخلت شروع کی اور ان ممالک کو سیاسی، معاشی طور پہ تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ اور ان کے معدنی وسائل پہ کنٹرول حاصل کر لیا۔

اوون بینیٹ جونز کوتو مروجہ جہادی کلچر ریشمی رومال تحریک کے درمیان تو تعلق نظر آ گیا، لیکن اسے اتنی زحمت نہیں ہوئی کہ وہ کم ازم مروجہ’’ جہادیوں‘‘ کے کارسازوں کے بارے میں بھی کچھ معلومات حاصل کر سکتے۔

کسی بھی مزاحمتی تحریک میں مذہب کا نام آتے ہی خصوصاً مغربی اہل سیاست کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اسے مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی سے تعبیر کریں۔ ہر سیاسی جدو جہد کے پیچھے کوئی نظریہ ضرور کارفرما ہوتا ہے جیسے سوشلزم کے علمبرداروں نے نہ صرف عظیم قربانیاں دیں بلکہ لاکھوں مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارا، اسی طرح سے سرمایہ داریت کے پیرو کاروں نے اپنی معاشی و اقتصادی استحصالی نظرئیے کی بدولت دنیا کے حصے بخرے کیے، قوموں کو تباہ و برباد کیا، کروڑوں انسانوں کو ذلت، غربت و افلاس کی زندگی میں دھکیلا اور دھکیل رہے ہیں۔ اب ان سب کا طریقہ واردات مختلف ہو سکتا ہے لیکن سب اپنے اپنے سیاسی و اقتصادی مقاصد کے لئے سرگرم رہتے ہیں، لیکن جب اسلام کا نام آتا ہے سب کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، دہشت گردی، انتہا پسندی، جنونیت نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ جو سیاسی تحریک یا پبلک کو متحرک کرنے کا نظریاتی آلہ سوشلسٹ استعمال کرتے ہیں یا سرمایہ دار کرتے ہیں اسی طرح کا اسلامی عقائد و نظریات کا آلہ اس کی سیاسی تحریک کے علمبردار استعمال کرتے ہیں۔ اس میں اتنی پریشانی یا خوف کیوں ہے؟ ہر قوم کا یہ بنیادی انسانی حق ہے کہ وہ اپنے خاص نظریات و عقائد کی روشنی میں سیاسی حکمرانی کے لئے جدو جہد کرے۔

جہاں تک آئی ایس پی آر کے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے بیان پہ غور کرنے والی بات ہے تو اس کا پس منظر بھی موجود ہے، یقیناً جو فصل کئی سالوں میں بوئی گئی اس کی آبیاری کی گئی اسے کاٹنے میں تو قت لگے گا۔ اس دہشت گردی کے سہولت کاروں (تخلیق کاروں) کو ختم کرنے، ان کے نظریاتی ایجنٹوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے اتنا ہی اخلاص اور قوت چاہیے جتنا ان کو بنانے کے زمانے میں صرف کیا گیا۔

آج شاہ ولی اللہ کی تحریک عبید اللہ سندھی کی فکر عدم تشدد پہ سختی سے پابند ہے، بلکہ وہ کامل جمہوریت، انسان دوستی، لبرل ازم پہ یقین رکھتی ہے اور پین اسلامک ازم کی بجائے استحصالی نظاموں سے قومی آزادی اور پھر اینٹی سامراجی علاقائی اتحاد کی فکر کا پرچار کرتی ہے۔ اور اسی میں انسانیت اور مسلمانوں کی بھلائی کو مضمر سمجھتی ہے۔ اس کے نزدیک اسلام کے عادلانہ اصول بلا تفریق مذہب وملت انسانیت کے لئے یکساں حقوق اور انسانی فطرت کے ارتقاء کے ضامن ہیں۔ ایسی کوئی بھی جدو جہد جو انسانی فطری ارتقاء میں رکاوٹ بنے وہ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں اور ہر وہ عمل جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے وہ اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک کل انسانیت کی بھلائی کے لئے کام کرنا اور انسانیت کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانا ہی بلند ترین نصب العین ہے۔

(حوالہ جات)
1۔ ڈبلیو، ڈبلیو ہنٹر، ہمارے ہندوستانی مسلمان، اقبال اکیڈمی، موچی گیٹ لاہور، 1940ء، ص205
2۔ ایضاً، ص206سے205
3۔ ایضاً، ص206
4۔ ایضاً، ص220
5۔ ایضاً، ص226
6۔ ایضاً، ص220
7۔ ایضاً، ص219
8۔ ایضاً، ص226
9۔ محمد میاں، مولانا، علماء ہند کا شاندار ماضی، مطبوعہ یو پی انڈیا، 58ھ، ص50
10۔ محمدسرور، پروفیسر، خطبات ومقالات مولانا عبید اللہ سندھی(ترتیب وتقدیم مفتی عبد الخالق آزاد)لاہور، دار التحقیق والاشاعت، لاہور2002ء، ص162سے163
11۔ ایضاً، ص182
12۔ عبیداللہ سندھی، مولانا، افادات وملفوظات(مرتبہ پروفیسر سرور)لاہور، سندھ ساگر اکیڈمی، 1996ء، ص332
13۔ ایضاً
14۔ محمدسرور، پروفیسر، خطبات ومقالات مولانا عبید اللہ سندھی(ترتیب وتقدیم مفتی عبد الخالق آزاد)لاہور، دار التحقیق والاشاعت، لاہو2002ء ص324سے325
15۔ ایضاً، ص325
16۔ ایضاً، ص 272 سے273
17۔ ایضاً، ص 272 سے273



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments