حلب کا ایک بچہ، موت سے ذرا پہلے


\"\"بہت زوردار دھماکا تھا۔ خوف سے میری آنکھ کھل گئی لیکن دکھائی کچھ نہیں دیا ہر طرف اندھیرا تھا۔ مجھے تاریکی سے وحشت ہوتی ہے۔ میں نے چیخ کہ ماں کو بلانا چاہا لیکن آواز ہی نکل نہ پائی۔ سب کچھ الٹ پلٹ ہو چکا تھا۔ مٹی اور دھول سے میرا دم گھٹ رہا تھا مجھے شدید تکلیف ہو رہی تھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کی چوٹ کہاں لگی ہے؟ سر میں، سینے میں، ہاتھ پہ، پاؤں پہ۔ پورا جسم زخم بن گیا تھا۔ مجھے انتظار تھا کہ ماں میری تکلیف بغیر کہے محسوس کرتے ہوئے دوڑتی ہوئی آئے گی۔ لیکن انتظار انتظار ہی رہا۔ میری آنکھوں میں چبھن تھی۔ دل بند ہو رہا تھا۔ میں چیخنا چاہتا تھا، ہاتھ پاؤں مارنا چاہتا تھا لیکں اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکا۔ جسم کا کوئی بھی حصہ حرکت کرنے پہ آمادہ نہ تھا۔ دھول سے سانس لینا دشوار تھا۔ کیا ہوا ؟کیوں ہوا؟ کچھ بھی سمجھنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن ایک بات واضح تھی کہ زندہ بچنا ممکن نہیں تھا اس کے باوجود دل میں شدید خواہش تھی کہ زندہ رہوں۔ زندگی ہر رنگ ہر روپ ہر مشکل میں بقا چاہتی ہے۔ یہ تلخ ترین حالات کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن آسانی سے ہار نہیں سکتی۔ میرے ذہن میں یہی بات گونج رہی تھی کہ مجھے زندہ رہنا ہے۔ پھر ذہن کے پردے پہ ماں، باپ، بہن بھائیوں دوستوں کے چہرے ابھرنے لگے۔ کچھ بھولے بسرے مناظر بالکل واضح ہو گئے تھے۔ سب لوگ کہاں تھے؟ رات ہم سب ایک ہی چھت کے نیچے تھے، حالات خراب سہی لیکن اتنے بھی خراب نہیں تھے کہ موت یوں حملہ آور ہو جاتی۔

رات ہمشہ کی طرح پرسکون نہیں تھی لیکن میرے والدین کوشش کر رہے تھے کہ مجھے گڑ بڑ کا احساس نہ ہو۔ میں کھیلتے کھیلتے رک جاتا انہیں دیکھتا وہ مسکرا کے مجھے دیکھتے اور کھیل میں مشغول ہو جاتا۔ سنا تھا کہ جنگ کا عالم ہے۔ لوگ خوف زدہ تھے اپنے گھر چھوڑ کے جا رہے تھے۔ میرا خاندان ابھی کشمکش میں تھا۔ بابا اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ میں بھی نہیں چاہتا تھا۔ یہ سوچ کر کہ سب دوست ساتھ نہیں ہوں گے دل اداس ہو جاتا تھا۔ مجھے اپنا سکول بہت پسند ہے، وہاں میرے بہت سے دوست ہیں، ہم پلے ٹائم میں خوب مزے کرتے ہیں۔ مجھے اپنے کھلونوں سے محبت ہے۔ وہ ٹیڈی بئیر جو مجھے اپنی پچھلی سالگرہ پہ ملا تھا میں اسے ہمشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ چھوٹے بھائی کو بھی نہیں دیتا۔ ابھی شام ہی تو میری اس سے اس بات پہ لڑائی ہوئی تھی کہ وہ ٹیڈی کو لینا چاہتا تھا۔ شام بھی کچھ اداس تھی۔ ہم لوگ کھیلنے کے لیے پارک نہیں جا پائے تھے۔ میرے کچھ دوست یہاں سے جا چکے تھے۔ اسی لیے ہم گھر رہے۔ میں پوچھنا چاہتا تھا کہ یہ سب کیا ہے پھر بھول گیا۔

ٹیب میں موجود کارٹون اتنے اچھے تھے کہ مجھے خیال نہیں رہا کہ کچھ پوچھنا بھی تھا۔ میرے سینے میں پھر ٹیس اٹھتی ہے۔ آج کیوں کوئی مجھے اٹھانے پیار کرنے نہیں آیا تھا؟ رات کو یہ کمرہ تھا لیکن اب تو کمبل کی طرح مجھ پہ لپٹ گیا تھا۔ دھماکوں کی گونج جاری ہے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ مدد، مدد، لیکن کوئی نہیں سنتا۔ سنا تھا لوگ مرنے پہ بھی خوش ہوتے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ میرے نانا کی وفات کے وقت میں بہت رویا تھا۔ مجھے بہت دن تک خوف محسوس ہوتا رہا تھا کہ میں مر گیا تو کیا مجھے بھی ایسے مٹی میں دبا آئیں گے۔ مجھے تو اپنی مانو بھی ابھی تک یاد آتی ہے جب وہ مری تھی تو میں کتنے دن رویا تھا۔ کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ پھر کوئی کیسے کسی کے مرنے پہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی موت کسی اور کی موت کا بدلا ہے؟ لیکن بابا بتاتے ہین کہ کچھ طبقے اس ظلم کو ظلم نہیں سمجھتے۔ مجھے یہ سب سمجھ نہیں آتا لیکن مجھے جینا ہے۔ ماما بابا کے پاس جانا ہے۔ بھائی کے ساتھ کھیلنا ہے۔ تکلیف بڑھتی جا رہی ہے کوئی تو مدد کو آؤ۔ دل بند ہو رہا ہے۔ جسم نے کام کرنا بالکل چھوڑ دیا ہے۔ ذہن پہ تاریکی چھا رہی ہے۔ میں آخری بار چیختا ہوں مجھے جینا۔۔۔ تاریکی ہے، گڈ مڈ ہوتے مناظر۔ سکون ہو گیا ہے۔ سکوت ہے، شاید یہی موت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments