بلاول کی شادی اور دو مشہور سیاسی کنوارے


\"\"جمشید دستی، جب سیاست میں آئے تو انہیں بہت پذیرائی ملی، اس کی وجہ ان کا عوامی انداز اور خصوصاََ مظفر گڑھ میں اپنے حلقے کی عوام کے لئے فری بس سروس چلانا تھا جس کی ڈرائیونگ وہ آج بھی اکثر اوقات خود کرتے ہیں۔ اس انداز نے انہیں دوسرے سیاست دانوں سے مختلف بنایا اور یہی ان کی وجہ شہرت ٹھہری۔ علاقہ کے لوگوں کے مسائل حل کروانے پر انہیں 1122 کا نام دیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا جیالا کہلوانے والے جمشید دستی نے کم و بیش 4 سال قبل پارٹی سے خود کو الگ کر لیا اور آئندہ آزاد حثیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ وہ آزاد الیکشن لڑے بھی اور پاکستان کی مضبوط ترین وزیر خارجہ کی شناخت رکھنے والی خاتون حنا ربانی کھر کے والد نور ربانی کھر کو ان کے حلقہ میں شکست دی۔ یقیناََ یہ ایک ایسے شخص کی کامیابی ہے جس کا پس منظر سیاسی نہیں تھا۔ یہاں تک ان کےسیاسی سفر کی سمجھ ضرور آتی ہے لیکن پیپلز پارٹی سے علیحدگی انہیں راس نہیں آئی۔ اس کے بعد انہوں نے خود اعلانات کئے کہ کچھ سیاسی جماعتیں ان سے پارٹی شمولیت کے لئے رابطہ کر رہی ہیں۔ تاہم وہ ابھی فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ پھر انہوں نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے جلسوں اور لانگ مارچ میں شریک ہو کر ان کے موقف کی تائید کی اور جلد ہی ان دونوں سیاسی اور مذہبی و نیم سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خلاف بولتے سنے گئے۔ جمشید دستی پر جعلی سند رکھنے کا الزام بھی لگا۔

اب جمشید دستی خود کو، \”ان\” رکھنے کے لئے ایسی زبان کا استعمال کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح خبروں کی ہیڈ لائن میں رہیں اور عوام کو ان کے طرز تخاطب سے یہ اندازہ بھی رہے کہ موصوف واقعی جعلی ڈگری ہولڈر ہیں۔ لیکن ابھی خبروں میں رہنے کی ان کی خواہش پوری نہیں ہو پا رہی۔ حالیہ ناکامیوں کے بعد انہوں نے اپنی توپوں کا رخ مسلسل بلاول بھٹو زرداری کی جانب کر دیا ہے اور بمباری کرتے ہوئے وہ اپنی حدود کا تعین بھول جاتے ہیں۔ بلاول نے اپنی شادی کے حوالے سے سوال کا جواب دیا کہ لڑکی ڈھونڈنے کا کام ان کی بہنیں بختاور اور آصفہ کریں گی تو اس پر جمشید دستی کا تبصرہ سامنے آ گیا۔ بلاول جیسے کی شادیاں نہیں ہوتیں۔ اس نوعیت کا بیان جمشید دستی نے ایک بار نہیں، بار بار دیا۔ سیاست میں اختلاف نہ ہو تو سیاست بد صورت لگتی ہے لیکن جنس پر تنقید کرنا ہرگز مناسب عمل نہیں، خاص طور پر ایسے افراد کو یہ گفتگو زیب نہیں دیتی جو خود کو لیڈر کہلوانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

\"\"27 دسمبر کو ملتان میں پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی جمشید دستی سے سوال کر بیٹھے کہ آج بے نظیر بھٹو کی برسی ہے، آپ ان کے کارکن رہ چکے ہیں آج کے دن کی مناسبت سے کچھ کہہ دیں۔ بے نظیر کو تو انہوں نے بہادر خاتون قرار دے دیا لیکن ساتھ ہی ایک بار پھر بلاول کی جانب لپک گئے اور کہا کہ اس کا مجھے پتہ نہیں چلتا وہ مرد ہے یا عورت۔ اس معاملے میں جمشید دستی راولپنڈی کی لال حویلی والے شیخ رشید کے روحانی شاگرد لگتے ہیں۔ خود کو عوامی لیڈر سمجھنے والے شیخ صاحب بھی تنقید کرتے ہوئے بلاول کو \”بلو رانی\” کہہ کر پکارتے ہیں اور انہیں بھی یہ پریشانی ستاتی ہے کہ بلاول کی عمر شادی کی ہو چکی ہے تاہم ان کے خاتون یا مرد ہونے کا تعین کرنا باقی ہے۔ عرض ہے کہ بلاول کی عمر 28 برس ہے اور ابھی ان کی شادی کی عمر مزید کچھ سالوں تک باقی رہے گی لیکن پاکستانی سیاست کے دو عالمی شہرت رکھنے والے کنواروں میں سے شیخ رشید اس وقت 66 بہاریں اور خزائیں دیکھ چکے ہیں اور جمشید دستی بھی 16 سال کی بالی عمر سے نکل کر 40 کے قریب ہیں۔ بلاول بھٹو کی اصلیت بتاتے بتاتے آپ دونوں اپنی حقیقت چھپا گئے۔ 2014 کی بات ہے جاوید ہاشمی جمہوری حکومت بچانے کے لئے عمران خان کا لانگ مارچ چھوڑ کر اور قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر واپس ملتان آ گئے تھے۔ وہ اپنی رہائش گاہ پر روزانہ ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کرتے اور پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور دھرنے سے متعلق چند انکشاف کرتے۔ جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس کا جواب شیخ رشید صاحب اسلام آباد میں عمران خان کے کنٹینر پر کھڑے ہو کر شام کو دیا کرتے تھے۔ جاوید ہاشمی سنتے سنتے ایک روز تھک کر بولے کہ میں بات عمران خان کی کرتا ہوں جواب رشید بٹ دیتا ہے، رشید بٹ خود کو شیخ کہتا ہے۔ ہے بٹ تو تسلیم کرنے میں شرم کیسی؟ ملتان سے تعلق رکھتا ہے، آج بھی اس کے بہن اور بھائی یہیں آباد ہیں اور ریشم کے دھاگے کا کام کرتے ہیں لیکن خود کو پنڈی کا شیخ بنایا ہوا ہے۔ رشید بٹ وہی ہے جسے جاوید ہاشمی نے 2008 کے عام انتخابات میں راولپنڈی کے حلقہ سے بھاری مینڈیٹ حاصل کر کے لال حویلی واپسی کا راستہ دکھایا تھا۔

\"\"جمشید دستی اور ان کے خاندان پر بھی منشیات فروشی کے مختلف مقدمات درج تھے جو انہوں نے ممبر قومی اسمبلی کا فائدہ لیتے ہوئے اثر و رسوخ سے ختم کروائے لیکن رشید بٹ اور جمشید دستی صاحب اپنی حقیقتیں چھپانے کے لئے سیاست میں ایسی جملے بازی کا استعمال کرتے ہیں جو اخلاق سے گری ہوئی ہے۔ بلاول زرداری ہے بھٹو بن سکتا ہے یا نہیں، جانشین وہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کا ہی ہے اور ان کے خاندانی پس منظر کی اصلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ بات الگ کہ ہمارے خاندانی نظام پدرسری ہیں، اگر اس کا مذہبی پہلو دیکھیں تو آل محمدﷺ حضرت بی بی فاطمہؓ سے ہی چلی ہے۔ مسلم خاندان بطور سنت اسے اپنا سکتے ہیں۔ کوئی قباحت نہیں۔ جہاں تک سیاست میں اختلاف کی بات ہے، بلاول کی سیاست سے آپ ایک نہیں ہزار بار باعزت انداز گفتگو سے اختلاف کریں، ان کے حلقہ میں جا کر الیکشن لڑیں اور جیت کر آئیں۔ رہی بلاول کی شادی تو آپ جیسے دو مشہور غیر شادی شدہ افراد کی عمر کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی بلاول کے پاس وقت کافی ہے لیکن آپ دونوں حضرات کو اگر اسے مرد اور عورت ہونے کا جنسی آئینہ دکھانا مقصود ہے تو پہلے اس آئینہ میں خود کو بھی کھڑا کرنا ہو گا۔ رشید بٹ تو بھینس کو گھر نہ لانے کے سستے جملے میں خود کو چھپا گئے، جمشید دستی بھی بلاول پر تنقید سے قبل اپنے چھوٹے بھائی جاوید دستی ( جو ایم – این۔ اے کا الیکشن لڑ کر ہار چکے ہیں ) کی جانب ضرور دیکھیں، عوامی حلقے ان کی بھی جنس پر ویسے ہی انگلیاں اٹھاتے ہیں جیسے جمشید دستی بلاول پر۔

میمونہ سعید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

میمونہ سعید

میمونہ سعید جیو نیوز سے وابستہ ہیں۔ وہ ملتان میں صحافت کے فرائص سرانجام دیتی ہیں ۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف اوکلوہوما کی فیلو بھی رہ چکی ہیں ۔

maimoona-saeed has 9 posts and counting.See all posts by maimoona-saeed

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments