انسانی بھلائی کی کوشش اور آگ کا کھیل


\"\"امی ابا ںے گھرداری ایک کمرے کے کرائے کے مکان سے شروع کی تھی۔ ابا کی تو تعلیم بھی شادی کے وقت ثانوی تھی، گریجویشن شادی کے بعد مکمل کیا۔ ماسٹرز بھی کرنا چاھتے تھے لیکن گھریلو ذمہ داریوں ںے موقع ںہ دیا۔ بہرحال ہمیشہ سے دیانتدار اور محنتی رہے ہیں اور ساتھ والدہ کمسنی کے باوجود سلیقہ مند اور کفایت شعار، نتیجہ تیزی کے ساتھ زندگی میں ترقی کے مراحل طے کرتے گئے۔ جتنی تیزی سے گھر میں خوش حالی آئی اتنی ہی تیزی کے ساتھ فیملی میں افراد کا اضافہ بھی ہوتا چلا گیا۔ فیملی بڑھی تو گھر چھوٹا لگنے لگا چناچہ والد صاحب نے گلشن اقبال کے علاقے میں ایک نو تعمیرشدہ فلیٹ خرید لیا اور وہاں شفٹ ہوگئے۔

ہمارا شمار ان چند فیملیز میں تھا جو اس نئے تعمیر شدہ اپارٹمنٹس میں شفٹ ہوئے۔ مئی کا مہینہ تھا اور گرمیاں عروج پر۔ اپارٹمنٹ میں بجلی کا عارضی انتظام تھا، بعض اوقات بجلی دو دو دن تک غائب رہتی، پانی کے حالات بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ لیکن ہم بچوں کو پانی یا بجلی سے کیا لینا دینا، ہم تو نئی جگہ نیا گھر دیکھ کر ہی خوش تھے۔ اس پر مزید یہ کہ اپارٹمنٹس کے چاروں طرف چار دیواری تھی، ایک محفوظ ماحول تھا اس لئے پرانے محلے کی طرح گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمیں یہاں گھر میں قید ہو کر نہیں رہنا پڑتا تھا۔ خاص کر جب بجلی کا بریک ڈاون ہوتا تب ہم رات گئے تک باہر کھیلتے یا پڑوس کے دادا دادی کے گھر کے سامنے چارپائیوں پر بیٹھ جاتے اور کئی کئی گھنٹے ان کے قصے کہانیاں سنتے۔ جو لوگ اپارٹمنٹس کے گراؤنڈ فلور پر رہتے ہیں ان کو بخوبی اندازہ ہوگا ایسے فلیٹ کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ یوں مانو جیسے گھر کا برآمدہ۔

بے فکری اور شرارتوں سے بھرے وہ دن اور ان دنوں میں کی گئی کارروائیاں آج بھی یاد آتی ہیں تو بےاختیار ہنسی آجاتی ہے، عمروں میں زیادہ فرق نہ ہونے کی بنا پر سب ہی بھائی بہن ان کارروائیوں میں پیش پیش ہوتے، اکثر اوقات ایک دوسرے کو نئی واردات کے لئے گراں قدر مشوروں سے بھی نوازتے۔

کبھی کبھار اگر گھر کا موسم ناسازگار ہوتا تب ہم بھائی بہن فلیٹ کی سیڑھیوں پر ڈیرہ ڈال دیتے۔ فلیٹس میں تب تک زیادہ گھر آباد نہیں ہوئے تھے چنانچہ ہمارے شور شرابے سے کسی کو تکلیف نہیں تھی۔ اکثر رات کے کھانے کے بعد ہمارا ٹھکانہ وہیں ہوتا، اور اگر کبھی بجلی چلی جاتی تو سیڑھی کی دیوار پر موم بتی جلا کر رکھ دی جاتی تاکہ آنے جانے والے لوگوں کو راستہ نظر آسکے۔ گھپ اندھیری بلڈنگ میں یہ ٹمٹماتی روشنی کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ ہم سب بچوں کی یہ کوشش ہوتی کہ موم بتی زیادہ سے زیادہ دیر تک جلتی رہے۔ اس کام کر لئے ہر طرح کے ٹوٹکے استعمال کئے جاتے لیکن ہر بار موم بتی پہلے سے زیادہ تیزی سے جل کر ختم ہوجاتی۔

مسلسل ناکامیوں کے باوجود انسانیت کی خدمت کا شوق ہمیں کسی طرح سکون سے نہ رہنے دیتا۔ چنانچہ ایک دن ہم نے دیرپا موم بتی کے لئے نئی ترکیب ڈھونڈی۔ سب سے پہلے اماں کی نظر بچا کر کچن سے کوکنگ آئل لے کر آئے اور جلتی ہوئی موم بتی پر قطرہ قطرہ ٹپکایا۔ ہونا ہوانا کچھ نہ تھا لو اور دھیمی ہوگئی۔ فیصلہ یہ ہوا کوکنگ آئل سے کام نہیں چلے گا۔ بالوں میں لگانے والا تیل لایا جائے، چاچو کے مایوں میں بالوں کا تیل ڈال کر ہی دیے جلائے گئے تھے۔ اماں ابّا کی نظر سے بچ بچا کر سنگھار میز سے زیتون کے تیل کی شیشی اڑائی گئی۔ صد حیف اس کا نتیجہ بھی پہلے جیسا ہی نکلا۔ ہم سب سر جوڑے بیٹھے کہ کس طرح موم بتی (جو اب تیزی سے گھلتی جا رہی تھی) کو کم ازکم آج کی رات مسلسل روشن رکھا جائے۔

خاکسار کا شاطرانہ دماغ بچپن سے ہی اس طرح کے جوڑ توڑ میں ماہر رہا ہے چنانچہ ایک انوکھا آئیڈیا دماغ میں آیا کہ کیوں نہ کوکنگ آئل کی بجائے پیٹرول استعمال کیا جائے۔ آئیڈیا زبردست تھا، مسئلہ یہ تھا کہ پیٹرول کہاں سے درآمد کیا جائے۔ وہ مسئلہ بھی یوں حل ہوگیا کہ ابّا کی بائیک سے نکال لیا جائے۔ دو چھٹانک پیٹرول سے کیا فرق پڑے گا۔۔۔۔۔!! ایک بار پھر گھر کے اندر ڈائیو لگائی گئی۔ چھوٹی بہن کے گرائپ واٹر کی بوتل خالی کر کے (تھوڑا سا گرائپ واٹر تھا، وہ ہم نے پی لیا) لے آئے۔ برخوردار بھائی صاحب نیچے کھڑی بائیک سے پیٹرول نکال لائے اور بسم اللہ کہہ کر بوتل جلتی ہوئی موم بتی پر الٹ دی۔ اس کے بعد اچانک بہت ساری باتیں ایک ساتھ ہوئیں۔ روشنی کا ایک تیز جھماکا ہوا، بوتل میں آگ لگ گئی اور ساتھ ساتھ جہاں پیٹرول ٹپکتا گیا وہاں وہاں آگ پھیلتی چلی گئی۔ ہم سب ایک ساتھ چیخنے لگے۔ امی ابّو اور پڑوس کی آنٹی باہر نکل آئے اور ہم سب رنگے ہاتھوں بمع آلات تخریب کاری پکڑے گئے۔ اعلیٰ قسم کی جھاڑ پھٹکار کے بعد سب کو گراؤنڈ کردیا گیا۔ اس دھماکہ دار کارروائی کے بعد ویسے بھی ہم سب اس حد تک دہل گئے تھے کہ اگلے کئی دن باہر کا رخ نہیں کیا۔

ہمیں اندازہ نہ تھا کہ ہمارا انسانی خدمت کے احساس سے سرشار یہ بظاہر نیک عمل اتنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ بہرحال اس واقعہ سے ہماری کارروائیاں تو بند نہ ہوئیں البتہ دو باتیں پلے سے باندھ لیں؛ ایک تو یہ کہ آگ سے نہیں کھیلنا چاہیے، دوسرے نام نہاد انسانی بھلائی کے چکّر میں اپنے ہی گھر کو پھونک ڈالنے سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں۔

ہم بچے تھے ہمارے لئے یہ ایک ہی سبق کافی تھا اس دن کے بعد کبھی ایسی حماقت دوبارہ سرزد نہ ہوئی، جانے ہمارے بڑے کب یہ بات سمجھ سکیں گے اور طاقت و اقتدار کی ہوس میں نفرت و تفرقے کی جو آگ معاشرے میں لگا دی گئی ہے اسے مزید ہوا دینا کب بند کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments