عدالت تلور کو بھی انصاف نہ دے سکی


 شبیر رخشانی

\"Shabir_Rakhshani_Pasport\"کیا انصاف اندھا ہے؟ یا انصاف کسی اڑتی چڑیا کا نام ہے جو فضاؤں میں آزاد گھوم رہی ہے اور جسے زمینی انسان زندہ پکڑنے کے در پے ہے یا انصاف کسی خاص طبقے کی دسترس اور قبضے میں ہے، چند لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو کسی اور کو ملتا نہیں۔
ارے بھائی مجھے انصاف چاہیئے، ارے کوئی منصف تو لاؤ جو انصاف دے سکے۔ صدیاں گزر گئیں لیکن منصف کوئی نہیں ملا۔ اطراف میں آنکھیں ہی آنکھیں تھیں جو دیکھتی گئیں، کان تھے جو سنتے گئے لیکن سبھی نے سنی ان سنی، دیکھی ان دیکھی کردی۔ انصاف نہیں ملا۔ آواز کہیں فضاؤں سے ٹکرا کر پلٹ آئی تو کبھی آسمان والوں کے کانوں تک بھی پہنچی لیکن زمین سے کوئی بھی اس کی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ آہ! نجانے کتنی آوازیں دم بخود رہ گئیں اور کتنوں کا دم گھٹنے لگا۔ سماج انصاف انصاف کے نغمے گاتا رہا پر اس کی موسیقی میں وہ دَم نہیں جو دلوں کے تاروں کو چھیڑ سکے۔ کوئی نہیں تھا جو ان منصفوں کی یاد مناتا جن کے در سے کوئی نامراد نہ لوٹا۔ بس آپ اور ہم اس شہر کے باسی ہیں جس نے اوروں کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے، اپنے ترازو درست کر لیے اور اپنا نام منصفوں میں پایا لیکن جو اپنے ہی رفیقوں اور رعایا کہ لیے اندھا، گونگا اور بہرا ہے۔
یہاں کے منصفوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں، بس ایک مرتبہ دروازہ کھٹکھٹاؤ اور بس۔ لیکن کھٹکھٹانے والے کھٹکھٹاتے کھٹکھٹاتے بوڑھے ہو جاتے ہیں مگر دروازہ نہیں کھلتا۔ انصاف نہیں ملتا اور اور ناانصافی کے مارے ایک اور کہانی، ایک اور خبر اور ایک اور کالم کا رزق بن جاتے ہیں۔
پچھلے ایک سال سے بے چارہ تلور انصاف کا طلب گار تھا۔ فائل کئی جگہوں سے ہوتی ہوئی نہ جانے کہاں تک پہنچ گئی۔ شکر ہے کہ فاضل عدلیہ نے یہ حکم صادر نہیں کیا کہ تلور کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے خود حاضر ہونا پڑے گا ورنہ سائیبیریا سے آیا ہوا یہ تلور نہ یہاں کی سرکاری زبان سے واقف ہے نہ اس کے پاس ویزا ہوتا ہے۔ عین ممکن تھا کہ پہلی ہی پیشی پر اسے پابند سلاسل کیا جاتا اور احتجاج کرنے پر کمرہ عدالت میں ہی کسی بندوق کے ہاتھوں خاموش کرا دیا جاتا۔ تلور نہ خود پیش ہوا نہ کسی نے اس کی مرضی جانی۔ جو بھی پیش ہوا اپنی اپنی راگنی الاپتا رہا کسی نے کہا کہ تلور کا شکار جائز ہے، کسی نے کہا کہ اس کا شکار روکنے سے سفارتی تعلقات کو خطرہ ہے، کوئی بولا کہ یہ عدالت کا کام ہی نہیں کہ وہ پابندی عائد کرے۔ بے چارہ تلور چیختا چلاتا رہا۔ بھئی مجھ سے بھی پوچھا جائے کہ مجھے جینا ہے کہ نہیں۔ بالآخر فیصلہ تلور کی زندگی کے خلاف آگیا۔ تلور کا مقدمہ لڑتا ہوا انسان، انسان کے سامنے ہار گیا۔
بھلا اب تلور صاحب کو کون سمجھائے کہ آپ بے زبان ہوتے ہوئے ایسے معاشرے سے انصاف کے طلبگار ہیں جہاں انصاف کی بھیک مانگتے ہوئے لوگ بے زبان ہو گئے ہیں، وہ نہ جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں وہ بھی ایک ان دیکھی خارجہ پالیسی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں تو آپ کو کون پوچھے؟
ریاست پاکستان میں انصاف ایک مہنگا سودا ہو گیا ہے۔ ناانصافی اور لاقانونیت کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ انسانوں نے منصفوں کی راہ تکنا ہی چھوڑ دی ہے۔ اب انصاف اسی کا اور اسی کے لیے ہے جو انصاف خرید سکتا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور انتشار اسی ناانصافی کا بویا ہوا پھل ہے جسے آج مختلف اشکال میں کاٹا جا رہا ہے۔ معاشرے کی ناانصافی کا یہ حال دیکھیے کہ کل تک جو ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے تھے طاقت اور اختیار ملتے ہی وہ بھی ظالموں میں سے ہو گئے۔ آج اگر کسی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو یا تو وہ خاموش ہو جاتا ہے، خود کشی کر لیتا ہے یا پھر خود بندوق اٹھاتا ہے اور اپنا منصف آپ بن جاتا ہے، خود فیصلے کرتا ہے اور پھر خود ہی ان پر عملدرآمد کراتا ہے۔ لیکن کیا طاقت اور ہتھیار کی زبان سے انصاف ممکن ہے؟
آج معاشرے کو جس طاقت کی ضرورت ہے وہ انصاف کی طاقت ہے۔ یہاں کے باشندے بیرون ملک جا کر وہاں کے قانون کی مکمل پاسداری کرتے ہیں، سزا کے خوف سے غلط قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ وجہ یہ کہ وہاں کے ہر شہری کے لیے قانون کا دروازہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ وہاں مساوات ہوتی ہے۔ وہاں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے، ناانصافی سے گریز کیا جاتا ہے، سپاہی کی عدم موجودگی بھی قانون کی پاسداری کی ضمانت دی جاتی ہے۔ وہاں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔ انسانی آزادی اور عزت نفس کو تحفظ دیا جاتا ہے۔
معاشرتی ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے اس کی وجوہ پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے، وہ کون سے عوامل ہیں جو ناانصافی کو فروغ دیتے ہیں۔ ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ناانصافی ختم کرنے کے لیے نا انصافی کے نت نئے ذرائع ڈھونڈ لیے جاتے ہیں۔ اب اگر تلور کو انصاف نہیں ملا تو اس میں تلور کا نہیں ہمارا نقصان زیادہ ہوا ہے۔ انصاف ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو معاشرے کو امن دلا سکتا ہے بھائی چارے کو فروغ دے سکتا ہے۔ شہریوں کے حقوق کا خیال ریاست کا اولین فریضہ ہونا چاہیئے۔ شہری ریاست کے اقدامات کو اپنے حقوق کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتے ہوں۔ لیکن یہاں انسانوں کا معاملہ بھی تلوروں سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments