نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی اور نجی عسکری تنظیمیں


\"\"

وجاہت مسعود صاحب نے اپنے 24 دسمبر کے کالم میں ایک جنرل صاحب کی ایک تجویز کو بہت بری طرح رد کیا ہے۔ وجاہت صاحب لکھتے ہیں کہ ”ایک بہت اہم خبر ریٹائرڈ جنرل شعیب امجد نے دی ہے۔ ہمارے مقتدر ترین خفیہ ادارے کے سربراہ نے سال رواں میں وزیراعظم کو ایک خط لکھ کر تجویز کیا تھا کہ ’پرامن جہادی تنظیموں‘ کے ارکان کو سرکاری ملازمتیں دی جائیں اور جو جہادی عناصر اس پر آمادہ نہ ہوں، انہیں ’ڈی ریڈیکلائز‘کر کے سکیورٹی اداروں کا حصہ بنا دیا جائے۔ سبحان اللہ! کیسی مثبت سوچ ہے۔ گویا تجویز یہ تھی کہ ریاست دشمن سوچ سے لڑنے کی بجائے قاتل کو گھر میں رہنے کی اجازت دے دی جائے، اسے جینے اور نقل حرکت کی پوری آزادی ہو۔ پرامن شہریوں کو اس کی سوچ پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہ ہو“۔

ہماری رائے میں، جنرل صاحب کی تجویز درست ہے جبکہ وجاہت صاحب کا اعتراض نامناسب ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بڑی تعداد میں ایسے عسکری تربیت یافتہ افراد موجود ہیں جن کو ضیائی سوچ کے تحت پراکسی وار کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ وہ صرف تربیت ہی نہیں رکھتے، بلکہ دنیا کی اعلی تربیت یافتہ ترین افواج سے لڑ کر اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ صرف جماعت الدعوہ کی طاقت کا اندازہ ہی پچاس ہزار افراد سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔ یہ ’پرامن جہادی تنظیموں‘ کبھی بھی پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہیں لڑی ہیں۔ مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ان کی کمان حکومت کی بجائے عام شہریوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر ان کی موجودہ قیادت کے ہٹنے کے بعد کوئی ایسی قیادت سامنے آ جاتی ہے جو کہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو تو پھر کیا ہو گا؟

ہماری گزشتہ حکومتوں اور اداروں نے افغان جنگ میں ایک بہت بڑی غلطی کی تھی۔ بھٹو کے دور میں جب افغانستان کی جانب سے پختونستان کے شوشے کے جواب میں افغانستان میں مسلح شورش کی سرپرستی شروع کی گئی تو اس چیز کا خاص خیال رکھا گیا کہ گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود جیسے افغان نوجوانوں کو ہی تربیت دے کر لڑنے بھیجا گیا جبکہ پاکستانی نوجوانوں کو اس شدت پسندی سے محفوظ رکھا گیا۔ ضیا دور میں یہ حکمت عملی ایسی بدلی کہ گلی گلی میں ریکروٹمنٹ کے لئے دفتر کھل گئے اور چند برسوں میں ہی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جنگ کی ماہر ہو گئی۔ لیکن ایک فرد کو کسی کی جان لینے اور اس سے بڑھ کر اپنی جان دینے پر آمادہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے ان نوجوانوں کو سخت گیر جہادی نظریات کے ذریعے ریڈیکلائز کیا گیا۔

افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جب بہ امر مجبوری پاکستان کو امریکہ کا اتحادی بن کر لڑائی میں کودنا پڑا، تو ان میں سے کئی نوجوان اور تنظیمیں انہیں دلائل کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف لڑنے لگیں جن کے ذریعے ان کو افغان حکومت سے لڑنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ پاکستانی پالیسی سازوں نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ ان ریڈیکلائز کیے گئے نوجوانوں کو پر امن کر کے واپس معاشرتی دھارے میں کیسے شامل کیا جائے گا۔ ان عسکری تنظیموں کے ممبران کو معاشرے میں ضم کرنے کی خاطر کئی حل پیش کئے جا سکتے ہیں۔

ایک تو تنظیم پر سختی سے پابندی عائد کر دی جائے۔ قیادت ختم ہو جائے گی۔ یہ ہزاروں تربیت یافتہ افراد اپنے لئے کوئی کام دھندا بھی دیکھیں گے کہ گھر چلا سکیں۔ وہ لڑنے کے علاوہ کچھ جانتے بھی نہیں ہیں کہ اعلی تعلیم حاصل کرنے اور کوئی ہنر سیکھنے کی عمر میں وہ لڑنے کا ہنر ہی سیکھتے رہے ہیں۔ وہ پھر اسی ہنر کو کام میں لانے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں جو کہ ان کو آتا ہے، یعنی لڑنا۔ کالعدم تحریک طالبان سے لڑائی کے زمانے میں یہ سننے میں آتا رہتا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان کے لڑاکے کو پاک فوج کے سپاہی سے دگنی تنخواہ دی جاتی ہے۔ داعش تو اس سے بھی زیادہ تنخواہ دینے کی متحمل ہے۔ کیا ہم ان لڑاکوں کو مارکیٹ میں چھوڑ دیں کہ جو دہشت گرد تنظیم بھی چاہیے، ان کو پیسے دے اور ریاست پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں پر ہی لگا دے؟

دوسرا حل یہ ہو سکتا ہے کہ سرکار ان کو ملازمت فراہم کرے۔ سول اداروں میں ملازمت کی صورت میں کچھ قباحتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ان سول اداروں کے ریڈیکلائز ہو کر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بننے کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا۔

تیسرا حل یہ ہو سکتا ہے کہ ان افراد کو فرنٹئیر کانسٹیبلری یا رینجرز وغیرہ کی طرح کی تنظیم کی صورت میں ملازمت فراہم کی جائے جس کے منظم دستوں کا کنٹرول ویسے ہی فوج کے افسران کے ہاتھ میں ہو جیسے رینجرز وغیرہ کا ہوتا ہے۔ دس پندرہ سال بعد یہ نوجوان اتنے گرم خون کے مالک بھی نہیں رہیں گے جتنے کہ اس وقت ہیں، اور ان کے قویٰ بھی رفتہ رفتہ مضحمل ہوتے جائیں گے۔ اس دوران انہیں گھر چلانے کے لئے ایک معقول مشاہرہ ملتا رہے گا اور ان کو ادھر ادھر جھانکنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس لحاظ سے ان جنرل صاحب کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ مزید نوجوانوں کو ریڈیکلائز ہونے سے کیسے بچایا جائے؟ بدقسمتی سے نیشنل ایکشن پلان میں مسلح لڑاکوں کو عسکری شکست دینے کے قلیل مدت کے ہدف پر تو توجہ دی گئی ہے، مگر اس طویل مدتی مسئلے، جو کہ اصل جنگ ہے، پر توجہ بالکل بھی نہیں ہے۔

دسمبر کے اوائل میں ایک سینئیر امریکی اہلکار نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2014 سے لے کر اب تک داعش کے کم از کم پچاس ہزار جنگجو مارے جا چکے ہیں، اس کی ریکروٹنگ میں کمی ہوئی ہے مگر اب بھی سینکڑوں افراد اس میں شامل ہو رہے ہیں۔

ہمارے لئے بھی یہ ایک مسئلہ ہے کہ ان نئے شامل ہونے والوں کو کیسے روکا جائے؟ اس کے لئے فکری تعلیم کی ضرورت ہے جو کہ انسانی جان کی حرمت، امن کی اہمیت اور رواداری کی تعلیم پر مشتمل ہو۔ معتدل سوچ کو ترویج دینا ہو گی۔ دہشت گردی کی حالیہ بڑی وارداتوں میں ایک چیز دکھائی دے رہی ہے کہ یہ دہشت گرد مدارس سے نہیں بلکہ جدید عصری تعلیم دینے والے اداروں سے تعلیم یافتہ تھے، اور ان کو مختلف دروس یا مختصر مذہبی کورسوں کے ذریعے ریڈیکلائز کیا گیا تھا۔

حکومت کو نہ صرف مسجد و منبر پر کنٹرول کرنا ہو گا، بلکہ پڑھے لکھے افراد کے لئے منعقد کی جانے والی ان درس کی محفلیں منعقد کرنے والوں کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل بنا کر انہیں اپنے کنٹرول میں لانا ہو گا۔ مشرق وسطی کے عرب ممالک اور ترکی وغیرہ میں خطیبوں اور اماموں کو باقاعدہ لائسنس حاصل کرنا پڑتا ہے۔ خطبات بھی حکومت سے منظور شدہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کو بھی ایسا کرنا ہو گا تاکہ تفرقہ بازی اور تشدد کی تعلیم نہ دی جا سکے۔

عصری تعلیم دینے والے اداروں کے نصاب کو بھی رواداری، برداشت اور امن کے مقاصد کو سامنے رکھ ترتیب دینا ہو گا۔ آپ انتہا پسند سوچ کے حامل افراد کو معاشرے سے بندوق کے زور پر ختم نہیں کر سکتے ہیں، ان کے ذہن سے نفرت کا زہر نکال کر ان کو معاشرے میں ضم کر کے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔  ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو پرامن معاشرے کے حامل کسی ترقی یافتہ ملک کے نصاب کو کاپی کیا جائے، یا پھر ہم واپس پاکستان کے 1970 کی دہائی کے نصاب پر پلٹ جائیں۔ نظریاتی تعلیم کے نام پر دوسرے مذاہب و مسالک سے نفرت سکھانے کی بجائے ہمیں طلبہ کو اپنے سے مختلف لوگوں سے محبت کرنا سکھانا ہو گا۔

اس وقت بھی سنی اور شیعہ مسالک سے تعلق رکھنے والے نوجوان جہادیوں کی ایک قابل ذکر تعداد شام کے محاذ پر لڑنے کے لئے جا رہی ہے اور ان میں سے کچھ واپس بھی آنے لگے ہیں۔ یعنی پاکستان میں ’برادر اسلامی ملکوں‘ کی پراکسی وار کا ایک نیا خونی دور شروع ہونے کو ہے۔

مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے اپنے اپنے مقاصد ہیں۔ وہ مسلک کے نام پر، یا کسی دوسرے مفاد کے حصول کے لئے، پاکستان کے مفاد کو دیکھنے کی بجائے ’برادر اسلامی ملکوں‘ کے ایجنڈے پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ہماری حکومت ان جماعتوں کے دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس لئے نیشنل ایکشن پلان صرف مرض کی علامت کو وقتی طور پر دبانے کے کام آ سکتا ہے، مگر بیماری کا علاج نہیں کر پائے گا۔


نیشنل ایکشن پلان کی اصل ناکامی کیا ہے؟
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments