بلوچستان میری جان نہیں چھوڑتا


\"\"خدا جانتا ہے کہ لکھنا نہیں تھا۔ لکھ کر کرنا بھی کیا تھا کہ لکھوں تو بلوچ یاروں سے پنجابی، اسٹیبلشمنٹ اور بعض اوقات آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہونے کے طعنے ملے۔ اور اوپر سے پنجابی یار بھی پنجابی میں \”گُجیاں گُجیاں سٹاں\” مارتے رہے، کہ اور لکھو اور مزے لو، مگر سچ کہوں گا کہ بلوچستان کی محبت میں سنہ2005 میں اس وقت گرفتار ہوا جب اس کے بارے میں اپنی کسی \”ملازمتانہ\” سرگرمی کے حوالے سے وہاں جانے، مسلسل سفر کرنے اور پھر بار بار جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ ہر مرتبہ کچھ نیا ہی دیکھنے اور سیکھنے کو ملتا رہا۔ آج چند لمحے قبل، وصی بابا کا آرٹیکل \”گوادر کا جہانِ حیرت: ترقی، سرمچار، مقامی آبادی کے خیالات\” پڑھا تو سوچا کہ \”منا، اک بار اور سہی!\”

اپنے اک گم گشتہ بلوچ دوست کہ جن سے دلی دوستی تھی، مگر وہ پنجاب اور لاہور کو طوائفوں کا مسکن بنانے پر مصر رہے کیونکہ ان کی صوبائی مجبوری تھی جو اک بلوچ-پشتون کی کہی ہوئی اک بات کی پشت پناہی پر مجبور کرتی تھی، تو ان کو سلام کیا۔ ان سے کوئی سال بھر پہلے بات کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ مزاحمت کا وقت 2010 تک شاید کچھ درست معلوم ہوتا تھا کہ بگٹی کا زخم ابھی مندملی کے قریب تر تھا، اور \”سید\” مشرف بھی ملک سے فرار ہو چکے تھے، اور خیر سے آج کل پھر \”فراری\” ہی ہیں، فراری ہی رہیں تو ان کی اور ان کو یہاں سے نکالنے والوں کی دوہری مہربانی ہی ہے۔ اپنے بلوچ دوست سے یہ بھی کہا کہ 2010 کے بعد، سرمچاری، اب ہچمچاری (دہشت گردی) میں بدل چکی ہے اور یہ بات اپنے ہاتھ آنے والے ہر اک فورم اور ہر اک موقع پر کہی۔

بلوچ یار مجھے پنجابی سمجھ کر اپنے تئیں بنگلہ دیش کا طعنہ مارتے یہ بھول جاتے تھے کہ بنگلہ دیش اور بلوچستان کے معاملات میں سیاست اور جغرافیائی کیمیاء کا فرق زمین آسمان سے بھی زیادہ ہے۔ یہی کہتا رہا، کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا کہ سی-پیک، پنجاب، وفاق سے جڑنے میں ہی بلوچستان میں بسنے والوں کا مستقبل ہے اور یہ کہ سرمایہ داری نظام کا چلنے والا یہ انجن اب رکنے کا نہیں۔ اس انجن کے سامنے آ کر آزادی کے جھوٹے خواب کا نعرہ مار کر خود کو نقصان دینا عقل نہیں حماقت کا تقاضا ہی ہو سکتا ہے اور یہی وہ وقت ہے کہ جب پاکستان شاید اپنی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ اک لوکل اور ریجنل معاشی بیانیہ بنانے کی جانب بڑھ رہا ہے تو اس انجن کے ساتھ ریل کی بوگیوں کی مانند جڑا جائے۔ میں بہت پُر امید ہوں اور سیاسی، جغرافیائی اور علاقائی معاملات شاید اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ آنے ولے چند اک سالوں میں پاکستان کی معاشی آؤٹ لک بہت بدل چکی ہو گی۔

میرا تعلق پنجاب کے اک غریب گھر سے ہے اور میں اپنی زندگی کے تجربہ کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے لیے پاکستانی ریاست کی حقیقت وہی ہے جو پاکستان کے کسی بھی علاقے میں بسنے والے غریب گھر کے بچے کی ہو سکتی ہے۔ میرے پاس جب اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے وسائل ختم ہوگئے تو ریاست میری مدد کو نہ آئی۔ اسلام آباد کراچی کمپنی میں جب میں تین دن بھوکا سویا تو میرے مونہہ میں چوگا ڈالنے ریاست نہ آئی۔ فلیٹ کے مالک نے جب سامان اٹھا کر باہر پھینکا تو بھی ریاست آس پاس نہ تھی۔ میرے پاس جب اپنے والد کے علاج کے لیے پیسے موجود نہ تھے تو ریاست تب بھی کہیں نہ تھی اور ایسی درجنوں مثالیں ہیں جو میں اپنی ذات کے حوالے سے دے سکتا ہوں۔ مگر اس ساری کشمکش میں شدید کوشش کی کہ پاکستان میں مروج سیاسی، سماجی اور معاشی نظام سے جڑ کر اس سے اپنے اور اپنے جیسے دوسروں کے لیے فوائد کشید کیے جائیں۔ اب زندگی مناسب سی کامیابی کی خوشبو دیتی ہے اور یہ کام اک دن، اک سال، اک دہائی میں نہ ہوا۔ تقریباً چوبیس سال لگ گئے، محنت ابھی بھی جاری ہے!

یہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ میں اپنی سماجی اور معاشی کلاس سے تعلق رکھنے والے بیٹوں اور بیٹیوں کی معاشی و سماجی ترقی کے بارے میں اک مثبت متعصب رویہ رکھتا ہوں اور اس بات کو ہمیشہ کہتا ہوں کہ بہت سی جنگیں اور مسئلے کہ جن کو تم اپنے لیے زندگی اور موت کی کشمکش بنائے بیٹھے ہوتے ہو وہ دراصل کسی نادیدہ چوٹی پر بیٹھے کسی سیاسی و مذہبی رہنما کا معاشی، سیاسی اور طاقت کے حوالے سے ذاتی یا قبائلی مسئلہ ہوتا ہے۔ ایسی ہی بہت ساری جھوٹی جنگوں میں بلوچستان اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں جاری خونریزی اور مارا ماری میں، میری ماں جیسی ماؤں کے بیٹے قتل ہوتے رہے، قتل کرتے رہے۔ آج سنہ 2016 کے دسمبر میں جمع تفریق کیا ہے؟ مجھ جیسے بیٹوں اور بیٹیوں، خدارا سوچو تو سہی!

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اک پڑھے لکھے اور قوم پرست، کہ جن کو میں \’رئیل پالٹک\’ میں نسل پرست رہنما کہتا ہوں، جب اپنی نسل پرستی کے ایورسٹ پر بیٹھے تھے تو عین اس وقت ان کے بھائیوں کے پاس وفاقی ہوابازی کے ادارے کے ٹھیکے موجود تھے جو کوئٹہ ائیرپورٹ کی کشادگی کے حوالے سے تھے۔ بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے اک گیس فیلڈ کی زمین کے مالک چھ سال قبل 2010 میں اس بات پر پریشان تھے کہ وہ حکومت کے ساتھ اپنی رائلٹی کو دوگنا کیسے کروائیں۔ بلوچستان کی بلوچ نسل پرستی کے اک سرخیل کو پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر 1992 میں پاکستان لے کر آئے جب ان کا \”سرخ انقلاب\” افغانستان میں مری جتنا ٹھنڈا ٹھار ہو گیا۔ استعفیٰ دے کر شہرت پانے والے اک بلوچ رہنما کے قریبی رشتہ داروں کے پاس ٹیکسٹ بک بورڈ کا اک لمبا ٹھیکہ موجود رہا۔ اک نسل پرست رہنما کے بھانجے نے لاہور میں پراپرٹی پر جب کوئی چار ہزار گنا، جی ہاں چار ہزار گنا منافع کمایا تو میرے مذاق کے جواب میں بولا کوئٹہ پر لعنت بھیجو، ادھر کیا ملتا ہے؟ باقی بگٹی جونئیر کی داڑھی، جو بلوچ روایات کے مطابق تھی، وہ ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیض کے ساتھ پہلے افغانی اور اب بھارتی پاسپورٹ کو پیاری ہو چکی ہے۔

تم اور مجھ جیسے مرتے مارتے رہے۔ تم اور مجھ جیسوں کو مروانے والے جیبیں گرم کرتے رہے۔

خدارا، اس مارا ماری کے مستقل دائرے سے نکل آؤ۔ اپنے لئے، اپنے پیاروں کے لیے ممکنات تلاش کرو، ترقی تراشو۔ محنت، شدید محنت، مسلسل محنت کرو۔ چوبیس سال بھلے لگتے ہوں، مگر مسلسل محنت کا صلہ ملتا ضرور ہے۔ مجھے کچھ ہاتھ آیا ہے، تو تمھارے بھی ہاتھ کچھ آئے گا۔ سچ کہتا ہوں کہ اپنی ذات کی حیثیت میں تمھارے لیے کچھ کر سکا تو ضرور کروں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔ تم ایک نہیں آدھا قدم آگے بڑھو، بہت ہیں جو کئی سو قدم آگے بڑھیں گے۔ غلط العام، سیاسی ہوں، نسل پرستانہ یا مذہبی، ان سے نکلنے کی ذاتی و گروہی دلیری دکھاؤ۔ ان سے نکل آؤ۔ پاکستان اور دنیا، تمھیں بہت نوازیں گے۔ فطرت محنت کو ضائع نہیں کرتی۔ نہیں کرے گی۔ آگے تو آؤ!

بلوچستان پر نہ لکھنے کا خود سے وعدہ کیا تھا۔ کیا کرتا مگر کہ بلوچستان میری جان ہی نہیں چھوڑتا۔ اور اگر بلوچستان میری جان نہیں چھوڑتا، تو میں بھی اس کی جان کیوں چھوڑوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments