مطالعہ کیسے کیا جائے؟


بہاولپور کی تاریخی سنٹرل لائبریری کا ذکر تو قارئین کی اکثریت نے سن ہی رکھا ہو گا۔ یقیناً  اس تاریخی کتب خانے سے کئی احباب کی  یادیں بھی وابستہ ہوں گی۔ اب شاید پندرہ سولہ سال ہونے کو آئے اور یادوں پر وقت کی گرد پڑ گئی، لیکن بہاولپور میں دو سال قیام کے دوران چونکہ وہاں کافی وقت گزرا لہٰذا  پردۂ ذہن پر کئی کتابی نقوش آج تک  پختہ ہیں۔ مثال کے طور پر وہیں پہلی دفعہ سارتر کی ایک دو کتابوں کا اردو ترجمہ انگریزی کے متقابل بغور دیکھنے کا موقع ملا تو   ہمارے ناپختہ ذہن کا یہ دریچہ کھلا کہ ترجمہ بھی کوئی اہم ادبی صنف ہے۔ اس سے پہلے ہمارا یہ احمقانہ خیال تھا کہ مترجمین بس کوئی ادبی کلرک قسم کے لوگ ہوتے ہیں جولغت کے ذریعے ایک زبان سے دوسری زبان میں مفہوم منتقل کر لیتے ہیں۔ وہیں پہلی دفعہ لائبریری کیٹلاگ میں  ڈاکٹر فضل الرحٰمن کی انگریزی (کئی سال بعد  لاہور میں  پرانی کتابوں کی ایک دکان پر اس کا اردو ترجمہ نظر آیا جو  شاید سیدی و مرشدی  قبلہ عثمان قاضی صاحب کے کتب خانے پرموجود ہو)  کتاب ’’اسلام‘‘ کے کارڈ پر نظر پڑی جو اب اکیسویں صدی میں بھی ’’ممنوعہ‘‘ ہی چلی آ رہی تھی۔ کافی تگ و دو سے اس مقفل الماری تک بھی رسائی ہوئی جہاں  یہ ’’ممنوعہ‘‘ کتابیں موجود تھیں۔ نہ جانے آج کیا صورت حال ہے۔

خیالات کی رو بھٹک کر کہیں سے کہیں چلی گئی، فی الوقت جس  دلچسپ واقعے کا تذکرہ مقصود تھا  وہ ایک نوجوان دوست سے متعلق تھا جو  ہمارے دفتری رفیق تھے اور ہم سے روز یہی پوچھتے رہتے تھے کہ ’’مطالعہ کیسے کیا جائے؟‘‘، ’’کیا پڑھا جائے؟‘‘، ’’کوئی اچھی کتاب  بتائیے؟‘‘، ’’کوئی ایسی کتاب بتائیے جو ’میں‘ پڑھ سکوں؟‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ آخری سوال میں صیغۂ واحد متکلم پر زور دینے سے شاید ان کی مراد یہ تھی کہ ان کے شعور میں جھانک کر بطور ’’مشیرِمطالعہ‘‘ ان کو کوئی کتاب تجویز کی جائے۔ خیر ایک روز جب ہم لائبریری  جانےکا پروگرام بنا رہے تھے تو موصوف ساتھ ہو لیے۔ لائبریری میں داخل ہوئے تو ان کے چہرے پر کچھ عجیب ملے جلے سے تاثرات تھے، کبھی ان پر کسی ایسے  زاہدِ  خشک کا سا گمان ہوتا تھا جیسے مسجد کا جھانسہ دے کر مے خانے کے دروازے پر اتار دیا گیا ہو اور کبھی کسی ایسے بچے کا جس کے ذہن میں موجود طلسم کدہ  حقیقت کا براہِ راست سامنا کرتے ہی چکنا چور ہو گیا  ہو۔ میں حیران تھا لیکن اب تقریباً یقین سا ہو چلا تھا کہ موصوف پہلی بار کسی لائبریری میں آئے ہیں۔ نہ جانے ان کے ذہن میں کیا تصور تھا کہ آگے کیا منتظر ہو گا۔ مرکزی ہال میں داخل ہوئے تو بے ساختہ میری طرف مڑے اور پوچھنے لگے،’’جی سر،  فرمائیے! اب کیا کروں؟‘‘۔اس سے آگے کے واقعات میں اہم بات صرف اتنی ہے کہ موٹر سائیکل میری تھی اور  موصوف کو کسی نہ کسی طرح  اخبارات کے سہارے چار پانچ گھنٹے گزارنے پڑے۔

یہ واقعہ سنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جب بھی کتاب خوانی کا ذکر چھڑتا ہے یا کتابوں  پر تعارف یا تبصرے کے بات آتی ہے  تو کئی سوالوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ سوال اس طرح نہیں ہوتے جیسے رسالوں ڈائجسٹوں وغیرہ میں ’’آپ کے مسائل اور ان کے حل‘‘ والے  متعین سوالات ہوتے ہیں۔ ان  سوالات کا عمومی ابہام ہی ان کو ایک  مشترکہ لڑی میں پروتا ہے جو کسی حد تک  تو ایک مخصوص سمت نما کی تلاش اور کسی حد تک خود سمت  کی آگہی سے  عبارت  ہوتی ہے۔ لیکن  بہرحال کسی حد تک متنوع ہونے کے باوجود  ان  تمام  سوالوں کا نقطۂ ارتکاز یہی ہوتا ہے کہ مطالعہ کیسے کیا جائے؟ بے لاگ رائے کی اجازت دیجئے تو یہ  مبہم سا سوال  بیک وقت ا تنا معصوم اور لذیذ ہوتا ہے جیسے کوئی ( منچلا یا معصوم؟) نوجوان پوری سنجیدگی سے کمرہ جماعت میں استاد یا پھر محلے کی مسجد میں کسی مولوی صاحب سے یہ سوال  پوچھے کہ حضرت آگاہ کیجئے کہ مباشرت کیسے کی جائے؟ دونوں سوالوں  کے درجہ ہائے  لذت و معصومیت  پر موازنے سے قطع  نظر  یہاں صرف اس ابہام کی نشاندہی  مقصود ہے  کہ ہماری رائے میں مطالعہ ہو یا مباشرت ،یقیناً کوئی ایسا اٹل میکانی اصول دریافت نہیں کیا جا سکتا جسے عمومی طور  پر لاگو کیا جا سکے۔ گمان یہی ہے کہ قرأتِ متن  ہو یا عملِ مباشرت  ، یا پھر انسانی مسرت و تسکین سے جڑا کوئی بھی متجسس  فعل، وجود و شعور کے سفلی سے  لے کر ارفع ترین درجات کے بیچ  تنی لامتناہی رسی پرڈولتے ہوئے چلنے کی ایک پرلطف کوشش ہے۔ ایک ایسی رسی جس سے گرتے ہی انسان کی آنکھ کھل جائے وہ سکھ کا سانس لے کہ یہ ایک خواب تھا۔ اگر ایک اٹل اصول کی دریافت  لازم  ٹھہرے تو پھر یہاں کارفرما  اصول  تجسس، فہم، تحقیق، آگہی، تلاشِ حق وغیرہ نہیں  بلکہ صرف اور صرف مسرت اور تسکین ہے۔

لہٰذا لحظہ دو لحظہ  ٹھہریےاور پہلے خود سے یہ سوال پوچھئے کہ مطالعہ کیونکر کیا جائے اور اگر جواب  یہ ہو کہ ایک نادیدہ سی  تسکین کی خاطر تو پھر سمجھ لیجئے کہ  کیسے اورکیا کا سوال  اپنی عمومیت  میں بس ضمنی لیکن ایک ناگزیر جزوقتی پڑاؤ سے زیادہ کچھ نہیں۔ ظاہر ہے آگے تو بڑھنا ہے اور سامنے کئی راہیں بھی موجود ہیں۔ منطقی بات یہی ہے کہ ہر راہ پر باری باری سفر کیا جائے اور کچھ دور چلا جائے۔ واپس لوٹا جائے یا سفر جاری رکھا جائے۔ کئی راہوں پر مزید چلنے کی خواہش  ہی محسوس  نہیں ہو گی ۔  کئی پر یہ گمان ہی اداسی پیدا کر دینےوالا ہو گا کہ راہ ختم نہ ہو جائے اور مسرت کا عمل رک نہ جائے۔  کئی راہوں پر چل کر معلوم ہوگا کہ  سفر دیکھا بھالا ہے اورکسی دوسرے راستے پر بھی یہی مناظر دیکھنے کو ملے تھے۔ کئی راہیں  نئے درسی سوالات کو جنم دیں گی۔ مختلف مقاصد سفر کی مزید خواہشات کو جنم دیں گے۔ بامعنی سوالات خود بخود سامنے آتے چلے جائیں گے۔ ادب  کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟  کلاسیکی ادب کو کیسےپڑھا جائے؟  عوامی ادب کو کیوں کر پڑھا جائے؟  انتخاب و ترجیح کیسے ہو؟  سائنسی کتب، تجزیاتی کتب، سماجی  علوم، فلسفہ و تاریخ، غرض ہر میدان کے لئے سوالوں میں کچھ نہ کچھ ردوبدل ضرور ہو گا اور ہر میدان میں مطالعے  کے گُروعلیحدہ ہوں گے۔ یہ گُرو اس میدان کے اساتذہ بھی ہو سکتے ہیں اور آپ  ہی جیسے مزید قاری بھی جو  اس مخصوص عجائب گھر میں آپ کی نسبت کچھ زیادہ گھومے ہیں۔

یوں اگر بغور دیکھئے تو ہمارا قائم کردہ اصولِ مسرت یعنی مطالعہ برائے مطالعہ ہی وہ واحد اصول ہے جو دراصل کسی قاری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ خود کو ’’قاری‘‘ کہہ سکے۔ ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں مطالعہ کئی مشاغل میں سے  ایک جزوقتی مشغلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ دھندا ہے۔ یعنی غم ِروزگار کے ساتھ کتاب خوانی بطور ایک متوازی زندگی،ایک مستقل سفر، ایک نہ ختم ہونے والی مسرت، مسلسل تسکین کا ایک لاحاصل لذتیت پسند آدرش۔ کتابوں کے بارے کتابیں تو بہت لکھی گئی ہیں لیکن  خود فنِ  مطالعہ پر بھی اساتذہ کی کچھ دلچسپ  قلم طرازیاں موجود ہیں۔ پہلی مثال دنیا بھر کے قارئین کی پسندیدہ ترین کتاب ’’ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ کے خالق لوئس کیرل  کی ہے۔ ان کے چار  مشہور اصولوں میں  سے مجھے صرف ایک سے تقریباً کلی اتفاق اور باقی تمام  سے شدید جزوی اختلاف ہے۔ ان کا پہلا اصول یہ ہے کہ کسی  کتاب کو درمیان سے چھان پھٹک  کر ذائقہ نہ چکھا جائے بلکہ نیت باندھ کر آغاز ہی سے شروع کیا جائے۔ دوم، آگے  نہ بڑھا جائے جب تک فہم کے تقاضے پورے نہ ہو جائیں۔ سوم، کوئی عبارت کم از کم  تین بار پڑھنے پر بھی سمجھ نہ آئے تو جان لیجئے کہ آپ کا ذہن  تھکا ہوا ہے، سو کچھ آرام کے بعد واپس اسی جگہ لوٹیے۔ چہارم،  اپنے فہم کی کمزوریوں اور حماقتوں کا جائزہ لینے کے لئے خود سے یا کسی دوست سے کتاب پر ضرور گفتگو کیجئے۔

ظاہر ہے کہ آخری  اصول کے علاوہ  باقی تمام اصول عمومی طور پر  ہر متن پر لاگو نہیں کئے جا سکتے۔ کیرل کئی  دلچسپ راہوں کے مسافر تھے لیکن چونکہ ان کی مرکزی راہ منطق  و ریاضی تھی، لہٰذا  ان کے یہ اصول واضح طور   ایک مصنوعی سے منطقی و ریاضیاتی  اٹل پن کا شکا ر  ہیں۔ان کے اس نہایت مختصر سے مضمون کا نام ہی  ’’ہم کیسے سیکھیں‘‘ (How to Learn) ہے جو یقینا مطالعے کی ایک مخصوص معنوں میں تحدید ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments