قوت برداشت اور ناقابل علاج لوگ


\"\" وزیر اعظم نواز شریف نے تنقید اور نکتہ چینی کو جمہوریت کی روح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جمہوریت میں قوت برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران مختلف مواقع پر تقاریر کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ میثاق جمہوریت پر قائم ہیں لیکن اگر کوئی ماننے پر راضی نہ ہو تو اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت ملک کے 20 کروڑ عوام کے مفادات کو نظر انداز نہیں کرسکتی اور ان کی بہبود کے لئے کام کرتی رہے گی ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ لوگوں کو ان سے پوچھنا چاہئے جو ملک میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے۔ وزیر اعظم کے یہ بیانات ان خبروں کے جلو میں سامنے آئے ہیں جن کے مطابق حکومت اپوزیشن کے ساتھ مصالحت کرنے کی کوششیں شروع کررہی ہے۔

نواز شریف کی یہ بات تو درست ہے کہ اختلاف رائے اور نکتہ چینی جمہوریت کا حسن ہے لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ جوابدہی اور اپوزیشن کی تجاویز کی روشنی میں سرکاری فیصلوں کی اصلاح بھی جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ ملک میں پارلیمانی جمہوریت قائم ہے۔ اس میں اگرچہ اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو حکومت بنانے کا اختیار ہوتا ہے لیکن اپوزیشن بھی فیصلہ سازی کے عمل میں پوری طرح شامل ہوتی ہے۔ تاہم یہ طریقہ اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب حکومت اور اپوزیشن باہمی احترام کا رشتہ استوار کرتے ہوئے مثبت رویہ اختیار کریں ۔ نہ حکومت کے ہر فیصلہ کو مسترد کیا جائے اور نہ حکومت اپوزیشن کی ہر بات کو نظر انداز کرتے ہوئے من مانی کاشعار اپنائے۔ اگر وزیر اعظم کی یہ بات مان لی جائے کہ اپوزیشن کے بعض عناصر ’ناقابل علاج‘ ہیں تو ان سے یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ اپوزیشن کی ایسی کون سی پارٹیاں ہیں جن کے ساتھ حکومت نے تعاون اور اشتراک کی بہتر مثال قائم کی ہے۔ اس بحث میں سے اگر پاکستان تحریک انصاف کے تقاضوں کو زیر بحث نہ بھی لایا جائے تو بھی مسلم لیگ (ن) گزشتہ ساڑھے تین برس کی مدت میں کو ئی قابل قدر پارلیمانی رویہ ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہے۔

وزیر اعظم کا یہ دعویٰ بھی ناقابل فہم ہے کہ وہ میثاق جمہوریت پر عمل کررہے ہیں۔ یہ معاہدہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید کے درمیان لندن میں اس وقت طے پایا تھا جب وہ دونوں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس معاہدہ کے مطابق دونوں پارٹیاں مستقبل میں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست کرنے سے باز رہنے پر متفق ہوئی تھیں۔ اگر ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں اس معاہدے کی روح کے مطابق عمل کرتیں تو ایک مثبت اور تعمیری سیاسی ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ نے بھی میثاق جمہوریت کو صرف نعرے کے طور پر ہی استعمال کیا ہے ۔ جب دوسری پارٹی سے مفاہمت کی ضرورت محسوس کی گئی ہے تو میثاق جمہوریت کو یاد کرلیا جاتا ہے ورنہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں دیا جاتا۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت اگر ٹاک شوز کے علاوہ قومی اسمبلی میں بھی اپنے وزرا کی گفتگو اور اپوزیشن کے بارے میں ہتک آمیز لب و لہجہ پر غور کرے تو اسے پتہ چل سکتا ہے کہ یہ رویہ میثاق جمہوریت تو کیا بنیادی انسانی طرز عمل کے بھی خلاف سمجھا جائے گا۔ اسی طرح نواز شریف اور ان کے رفقا نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جس طرح حکومت کو ہر طرح زچ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ بھی ابھی دور کی بات نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو اپوزیشن کا رویہ تو ناقابل اصلاح لگتا ہے لیکن وہ خود اپنے ساتھیوں کی اصلاح کرنے اور تعاون کی پارلیمانی فضا پیدا کرنے میں کوئی کردار ادا کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ پاناما پیپرز کے حوالے سے اپوزیشن کی تجاویز کے بارے میں حکومت کا طرز عمل اس کی واضح مثال ہے ۔ حکومت اس معاملہ پر اتفاق رائے کرکے آگے بڑھنے کی بجائے، اس حوالے سے قانون سازی میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ حالانکہ اپوزیشن کا یہ مطالبہ زبان خلق ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان اپنے مالی وسائل اور بیرون ملک اثاثوں کا حساب دے۔ لیکن حکومت کا خیال ہے کہ ٹال مٹول سے کام لے کر اس بات کو لوگوں کی یاد داشت سے محو کروایا جا سکتا ہے۔

یہ درست ہے کہ ملک کے موجودہ انتخابی نظام اور سیاسی طریقہ کار کے مطابق مسلم لیگ (ن) انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ بعض ضمنی انتخابات میں حکمران پارٹی نے کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ لیکن ان کامیابیوں کو وزیر اعظم کی نیک نامی کا تصدیق نامہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر انتخابی کامیابی سے کسی شخص کے گناہ دھوئے جاسکتے ہیں تو ملک میں عدالتوں اور قانون کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ وزیر اعظم ضرور مصالحت کی بات کریں لیکن انہیں اس اصول کو ماننا پڑے گا کہ اگر ان کی ذات پر کوئی الزام عائد ہوتا ہے تو وہ اس کا جواب دے کر اور خود کو بے گناہ ثابت کرکے ہی یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ الزام لگانے والے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس سے پہلے اس قسم کا نعرہ خود حکومت کی طرف سے عوام کو سبز باغ دکھانے کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments