شام میں امن کی موہوم امید


 \"\"روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی طرف سے شام میں حکومت اور باغی مسلح گروہوں کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق رائے اور مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے بات چیت شروع کرنے پر آمادگی کے اعلان سے 6 برس میں پہلی بار اس بدنصیب ملک میں امن کی موہوم امید پیدا ہوئی ہے۔ جنگ بندی جمعہ کو علی الصبح شروع ہوگی۔ شام کی حکومت اور باغیوں کے نمائندوں نے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ روسی صدر کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق اس معاہدہ میں باغیوں کے 7 گروپ شامل ہیں جن کی کمان میں 62 ہزار جنگجو ہیں۔ یہ جنگ بندی روس اور شام کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہو سکی ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ ان کا ملک شام کے باغی گروہوں کی طرف سے جنگ بندی کے معاہدہ پر عمل درآمد کی ضمانت دے گا۔ اس حوالے سے مذاکرات گزشتہ کئی ہفتوں سے ترک دارالحکومت انقرہ میں ہو رہے تھے۔ اس معاہدہ میں امریکہ شامل نہیں ہے لیکن امریکہ کے حمایت یافتہ کئی گروپ جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ روس اس سے قبل یہ کہہ چکا ہے کہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد شام میں امن کےلئے کوششوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ روس اور موجودہ امریکی حکومت کے درمیان بداعتمادی کی فضا موجود رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے متعدد ملاقاتوں میں شام میں امن کےلئے مذاکرات کئے تھے لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ تاہم امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد صدر باراک اوباما کی حکومت عملی لحاظ سے غیر موثر ہو گئی تھی۔ اس صورتحال میں حلب سے باغی فوجیوں کو نکلنا پڑا اور اب وہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ معاہدہ پر مجبور ہوئے ہیں۔

نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ وہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے گروہوں کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان کی جنگ صرف داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہوگی۔ اگرچہ باغی گروہوں کو عرب مملک کی امداد اور تعاون حاصل ہے۔ لیکن حلب سے پسپائی اور امریکی اعانت سے محروم ہونے کے بعد ان میں صدر بشار الاسد کی فوج کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہوگی۔ شام کی سرکاری افواج روس کی مدد ملنے کے بعد نئے اسلحہ سے لیس تازہ دم ہو کر اپنے مخالفین کے خلاف میدان جنگ میں اتری تھیں۔ جنگ بندی پر عملدرآمد کی صورت میں فریقین کے درمیان ایک ماہ کے بعد سیاسی مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ خبروں کے مطابق یہ مذاکرات قازقستان میں ہوں گے اور ان میں ملک میں اقتدار کی تقسیم پر بات چیت کی جائے گی۔ ان مذاکرات میں ترکی اور باغی گروہ بدستور بشار الاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ البتہ روس صدر بشار کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ بشار االاسد اس دوران یہ تاثر دے چکے ہیں کہ اس سلسلہ میں حتمی فیصلہ کا اختیار شام کے عوام کو حاصل ہے۔ تاہم اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں امن کی بحالی اور کسی مستحکم حکومت کے قیام کے لئے بشار الاسد بعض ضمانتوں کے ساتھ اقتدار سے علیحدہ ہونے پر راضی ہو جائیں۔ شام میں امن کا قیام اور مستقل سیاسی مفاہمت کےلئے کوئی معاہدہ طے پانے کی صورت میں اسے روس کی عظیم الشان کامیابی سمجھا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں روس کو مشرق وسطیٰ میں گہرا اثر و رسوخ حاصل ہو سکے گا اور عالمی سفارت کاری میں اس کی صلاحیتوں کا لوہا مانا جائے گا۔

شام میں خانہ جنگی مارچ 2011 میں عوام پر حکومت کے جابرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔ بشار الاسد کا تعلق ملک کی علوی اقلیت سے ہے جو شیعہ عقائد کی حامل ہے جبکہ آبادی کی بڑی تعداد سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ خانہ جنگی کے پہلے مرحلے میں ہی سرکاری افواج پر دباؤ بڑھنے کے بعد ایران نے بشار الاسد کی حمایت کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ دوسری طرف سعودی عرب کی قیادت میں متعدد عرب ملکوں کی طرف سے مختلف باغی گروہوں کو مالی امداد اور اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ امریکہ بھی بشار کے باغیوں کی حمایت میں میدان میں اتر آیا اور باغیوں کی فوجی تربیت اور اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس طرح جو تحریک جمہوری حقوق کے حصول اور حکومت کے جبر و استبداد کو ختم کروانے کےلئے شروع ہوئی تھی، اس نے باقاعدہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی۔ ملک کے مختلف گروہ مختلف ملکوں سے رابطہ و تعلق کی بنیاد پر کارروائیاں کرنے لگے۔ جن شامی لوگوں نے آمریت کے طویل دور سے نجات کا خواب دیکھا تھا، وہ اب آگ اور خون کے طوفان سے گزر رہے ہیں۔

پونے چھ برس قبل شروع ہونے والی اس خانہ جنگی میں ملک کی کل 25 ملین آبادی میں سے 11 ملین کے لگ بھگ دربدر ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ 5 سے 6 ملین شامی باشندے ترکی ، لبنان اور اردن میں پناہ گزینوں کے طور پر انتہائی ابتر حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں لوگ اپنے ہی ملک میں ایک حصہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اور زندگی بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق شام کی خانہ جنگی میں 4 لاکھ لوگ جاں بحق ہوئے ہیں لیکن کوئی بھی ادارہ یا ماہرین ہلاکتوں کا درست اندازہ لگانے کے قابل نہیں ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں پر مختلف گروہوں کا قبضہ ہے۔ ہر گروہ نے اپنے مخالف لوگوں کو ہلاک یا قید کرنے کا اقدام کیا ہے۔ حلب جیسا تجارتی مرکز اور قدیم ثقافت کا نمائندہ شہر کھنڈر بن چکا ہے اور اس ماہ کے دوران شامی افواج کا قبضہ بحال ہونے سے پہلے یہ شہر 5 برس تک باغیوں اور حکومت کی فوج کے درمیان جنگ کا میدان بنا رہا تھا۔

ان حالت میں عراق کی جنگ میں سر اٹھانے والے انتہا پسند گروہوں نے شام کو اپنی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنایا اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے وسائل کی بدولت اپنی عسکری قوت اور مالی وسائل میں اضافہ کیا۔ داعش کے نام سے ابھرنے والے دہشت گرد گروہ نے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں جون 2014 میں اسلامی خلافت کے قیام کا آغاز کیا۔ یہ گروہ عراق کے علاوہ شام کے بڑے علاقوں پر قابض ہو گیا۔ اس طرح اسے جو وسائل میسر آئے انہیں دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کو استوار کرنے پر صرف کیا جانے لگا۔ خانہ جنگی میں شامل مختلف گروہوں کی حمایت کرنے والے سب ملکوں نے اگرچہ ہمیشہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مخالفت کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن اس گروہ کو کسی نہ کسی طرح وسائل اور اعانت بھی میسر آتی رہی ہے۔ مغربی ذرائع ترکی پر داعش کی حمایت کا الزام لگاتے رہے ہیں جبکہ صدر اردگان نے گزشتہ دنوں امریکہ پر ایسا ہی الزام لگایا تھا۔ گزشتہ سال دسمبر میں ترکی نے روس کا ایک طیارہ مار گرایا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں وسیع خلیج حائل ہو گئی تھی اور روس نے ایسے شواہد فراہم کئے تھے جن میں ترکی پر داعش کی سرپرستی کرنے کا ثبوت دیا گیا تھا۔ البتہ سال رواں میں گرمیوں کے دوران صدر اردگان کے خلاف ترک فوج کے بعض عناصر کی بغاوت کی کوشش کے بعد ترکی سفارتی لحاظ سے تنہا ہو چکا تھا۔ ترک حکومت امریکہ کو ناکام بغاوت کا ذمہ داری سمجھتی تھی اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ بغاوت ترکی کے جلا وطن مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کے حامیوں نے کروائی تھی اور گولن براہ راست اس میں ملوث ہیں۔ گولن امریکہ میں مقیم ہیں اور ترکی ان کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے۔

سیاسی ، سفارتی اور اقتصادی دباؤ کی وجہ سے ترکی کو روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنا پڑے۔ روس بھی امریکہ کے ساتھ تصادم کی صورتحال میں ترکی کے ساتھ ٹکراؤ کو غیر ضروری سمجھتا تھا۔ اس دوران امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہو گئے۔ ٹرمپ کی کامیابی سے صدر باراک اوباما کی حکومت عملی طور سے غیر موثر ہو چکی ہے۔ ٹرمپ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں اوباما حکومت کے برعکس حکمت عملی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے ایک طرف شام کی سرکاری افواج کو حلب پر قبضہ بحال کرنے میں مدد فراہم کی تو دوسری طرف ترکی کو اس بات پر راضی کیا کہ شام کے سوال پر اختلافات کے باوجود دونوں کا اسی میں فائدہ ہے کہ اس ملک میں امن بحال ہو اور دہشت گرد گروہوں کو کنٹرول کرنے کےلئے اقدامات کئے جائیں۔ اسی روسی حکمت عملی کے نتیجہ میں شام میں جنگ بندی کا معاہدہ ممکن ہو سکا ہے۔

صدر پیوٹن کے اعلان کے مطابق اس حوالے سے فریقین نے تین دستاویزات پر دستخط کئے ہیں۔ ایک جنگ روکنے کا معاہدہ ہے۔ دوسری دستاویز میں جنگ بندی کی نگرانی کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور تیسری دستاویز میں شام کی حکومت اور باغی گروہوں نے سیاسی مفاہمت کےلئے مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ان تین مراحل پر کامیابی سے عملدرآمد روس اور ترکی کی سفارت کاری کا امتحان ہوگا۔ اس حوالے سے متعدد مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ سب سے بڑی مشکل مختلف گروہوں کے درمیان بداعتمادی کا ماحول ہے۔ اس شبہ کو یقین اور امن کی راہ ہموار کرنے کی خواہش میں تبدیل کرنے ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ معاملہ بھی اہم وجہ نزاع ہوگا کہ کون سے گروہ دہشت گرد ہیں، جنہیں جنگ بندی اور سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ خاص طور سے النصرہ فرنٹ کا معاملہ اختلافات کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ گروہ شام میں القاعدہ کے ایجنڈے پر کام کرتا رہا ہے۔ تاہم مختلف باغی گروہوں کے ساتھ اشتراک کےلئے اس گروہ نے مختلف نام بھی اختیار کئے ہیں۔ حلب میں جنگ کے دوران بھی یہ گروہ کسی نہ کسی طرح سرکاری فوجوں کے خلاف برسر پیکار تھا۔ اب یہ فتح الشام کے نام سے بشار الاسد کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ روس اور شام اسے دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح جنگ بندی کا اطلاق اس گروہ پر بھی نہیں ہوگا۔ گروہ کے مختلف حصے خود کو کسی نہ کسی باغی گروہ کا ساتھی ظاہر کرکے مشکلات اور اختلافات پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد اگر مذاکرات اور سیاسی معاہدہ کی نوبت آتی ہے تو فریقین کے درمیان دمشق میں سیاسی اقتدار میں حصہ لینے کےلئے سخت جدوجہد ہوگی۔ شام کی حکومت سمیت سب گروہوں کو مختلف بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور خانہ جنگی کے دوران فرقہ وارانہ اختلافات تصادم کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ صورتحال بھی امن معاہدہ اور سیاسی حل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہوگی۔

ان سب مشکلات کے باوجود اگر سیاسی معاہدہ طے پا گیا اور شام میں متفقہ حکومت قائم ہو گئی تو اسے کھنڈر بنے ہوئے ملک کی تعمیر اور بے گھر ہونے والی نصف آبادی کے عظیم اور دشوار کام کا سامنا ہوگا۔ فی الوقت جنگ بندی اور امن کی موہوم امید پیدا ہوئی ہے۔ اس کی کامیابی کےلئے ضروری ہے کہ بیرونی طاقتیں مختلف گروہوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کا سلسلہ بند کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments