گزرتے سال کو الوداع ۔ ابھرتے لبرل سال کو مرحبا


\"\"

سال دو ہزار سولہ کا خون خون سورج اپنا دامن تار تار لیے رخصت ہورہا ہے۔ سال دوہزار سترہ کا چاند اپنے دامنِ روشن میں امید کی کرنیں اٹھائے حسرت کے آسمان پر طلوع ہونے کو ہے۔ یہ تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں کہ ابھی کچھ حادثے رہتے ہیں۔ خیر کی بات یہ ہے کہ حادثوں کے ملبے سے برامد ہونے والا عبرت کا سامان ہمیں درست سمت میں قدم اٹھانے پرمجبور کررہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر دوسری رات کے پہلو سے طلوع ہوتے ہوئے سورج کے ماتھے پر خون کے کچھ تازہ گرم چھینٹے ملتے ہیں مگر اس سے بھی اہم یہ ہے ہر رات جب ایک خورشید کو قتل کرتی ہے تو صبح ایک نڈھال ہی سہی، نیا سورج ضرور تراش لاتی ہے۔

یہ سال جمہوری اور غیر جمہوری طاقتوں کے بیچ سرپھٹول کا سال تھا۔ ہر قدم بے یقیینی سی تھی۔ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ قانون ساز ادارے کے عقبی دروازے پر دستک اب ہوئی کہ تب ہوئی۔ مگر خیر ہوگئی۔ بہت شور تھا کہ غالب کے پرزے اڑنے کو ہیں۔ سب اسلام آباد پہنچے، مگر تماشا نہ ہوا۔ سال کا اختتامی منظر یہی بتاتا ہے کہ تماش بینوں کو اب مایوسی کا ہی منہ دیکھنے کو ملتا رہا کرے گا۔

پرامن پاکستان کے خد وخال واضح کرنے کے لیے بیانیے کی اہمیت کلیدی ہے۔ فرسودہ بیانیے سے خلاصی پاکر ایک نئے بیانیے کی بنیاد ڈالے بغیر بات بن نہیں سکتی۔ خارجہ پالیسی اور داخلی سیاست کا محور اگر فرسودہ بیانیہ ہی ہو اور آپ دہشت گردوں کی کمر توڑ رہے ہوں، تو یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کنویں سے ڈول پہ ڈول نکالے جائیں اور کتے کو کنویں میں ہی رہنے دیں۔ آج تک ہم ڈول ہی نکالتے رہے۔ کلبِ نامقدس کو کنویں میں گوارا کیا۔ پھر زمانے بھر سے پوچھا کیا کہ ہمارے دن پھرتے کیوں نہیں ہیں۔ فرسودہ روایتی بیانیے سے ایک نئے جوابی بیانیے کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ یہ سفر ممکن اس لیے ہوا کہ ریاست نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سماج نہیں، بیانیہ ریاست دیتی ہے۔ اور یہ کہ بیانیہ نافذ کرنے کی نہیں، رائج کرنے کی چیز ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اسے نافذ کرنے کی کوشش کی، ناکام ٹھہرے۔ ناکام ہی ہونا تھا۔ انہوں نے لبرل ازم کا ویسا ہی استعمال کیا جیسا استعمال جنرل ضیا نے اسلام کا کیا۔ جنرل ضیا نے عرش کی نمائندگی ایسے فقیہانِ بے توفیق کو سونپ دی جو خاتون کو حجاب کروانے کی قسم کھا چکے ہیں اور پرویز مشرف نے لبرل ازم کا جھنڈا ایسے چنا جور گرم گروہ کو سونپا جو حجاب اترواکر ہی دم لینا چاہتے ہیں۔ مشرف صاحب نے فرمایا، میں انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتا ہوں۔ کیسے؟ وہ ایسے کہ دینی دارس کو جدید خطوط پہ ڈال دوں گا۔ جدید خطوط کیا ہیں؟ دینی مدارس کے طلبہ کو انگریزی سکھائیں گے کمپیوٹر کے آگے بٹھائیں گے۔ نتیجہ؟ نتیجہ یہ کہ انتہا پسندی کمپیوٹرائزڈ ہوگئی۔ سبحان اللہ۔ طالبان اگر کمپیوٹرائزڈ ہوجائیں تو القاعدہ ہی بنے گی نا صاحب۔ القاعدہ نہ بنی تو حزب التحریر یا تنظیم اسلامی بن جائے گی۔ ایک انتہا پسند اور غیر جمہوری ذہن سی ایس ایس اور ایل ایل بی بھی کرلے تو کیا فرق پڑے گا؟ بس اتنا ہی نا کہ مدرسے کا فاضل کسی قاتل کو ہار پہنائے گا اور یونیورسٹی کا فاضل اسی قاتل کو گال پہ چوم لے گا۔ سراہنے میں تو دونوں برابر کے شریک ہیں۔ دراصل پرویز مشرف صاحب نے کنویں کی منڈیر پر ترقی پسندی کا ایک بیل لا کر باندھ دیا تھا۔ کولہو کا بال جس چال بھی چل لے، کتنی مسافت طے کرلے گا؟ وہی ڈھاک کے تین پات؟

حیران کن طور پر درست سمت میں پوری جمع تقسیم کے ساتھ میاں محمد نواز شریف قدم اٹھاتے نظر آرہے ہیں۔ معاملہ حیران کن اس لیے بھی ہے کہ میاں صاحب کی پلکوں پر امیر المومنین کا منصب کسی بے تعبیر خواب کی طرح بسیرا کرتا رہا ہے۔ جمہوریت کی مانگ میں مذہب کا سندور بھرنے کی جسارت وہ کرتے رہے ہیں۔ توقع کے بالکل برخلاف انہوں نے مسئلے کی بنیاد کو پکڑلیا ہے۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ ایسی چنگاری بھی اے خدا ہمارے خاکستر میں ہے۔ وہ جس کی توقع ہم پاکستان پیپلز پارٹی سے لگائے رہ گئے اس پر میاں نواز شریف پورے شعور کے ساتھ اتر رہے ہیں۔ ہم نے یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ کشمیر کے انتخابات میں بلاول بھٹو بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے ’’ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ابھریں گے۔ پی پی کے دوست ہم سے شاکی ہیں۔ مگر کیا کریں صاحب، اب بیعت صرف اس بنیاد پر تو نہیں ہوسکتی نا کہ آپ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور بے نظیر بھٹو کے فرزند ہیں۔ معاملہ تو پاکستان کی بقا و سلامتی کا ہے۔ سوال تو تاریک خیالی سے دامن چھڑانے کا ہے۔

ہم تصور نہیں کرسکتے تھے کہ اس ملک میں کسی ایسے شخص کو سزا ہوسکتی ہے جس نے خود عدالت لگا کر توہین رسالت کا مقدمہ دائر کیا ہو، خود فیصلہ سنایا ہو اور پھر خود گردن ماردی ہو۔ ہم نے دیکھا کہ کسی بھی روایتی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر ریاست کے نمائندوں نے ریاست کی حیثیت کو برتر ثابت کیا۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ وزیر اعظم دیوالی کے تہوار کے موقع پر ہندو شہریوں کے پاس کراچی تشریف لے گئے۔ اگرچہ رنگ پھینکنے کی رسم ہولی کے تہوار میں ہوتی ہے مگر وزیراعظم کا یہ بیان اہم تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھ پر بھی رنگ پھینکیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک احمدی شہری کا قتل ہوا اور وفاقی وزیر تعزیت کو گئے۔ اقتدار میں آنے سے قبل وزیر اعظم نے قائد اعظم یونیورسٹی کے فیزکس ڈیپارٹمنٹ کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کر کے خوف کی اس فضا پہ کچھ قابو پایا جس میں ڈاکٹر عبدالسلام کی ممتاز علمی حیثیت کا اعتراف کرنا مشکل تھا۔ اقلیت کو اس بات سے اعتماد حاصل ہوا کہ حکومت نے کرسمس کے موقع پر کرسمس ٹرین چلانے کا اعلان کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جہاں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سفارشات کا تضادات سے بھرپور دستاویز تیار کی وہاں پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں کچھ واضح قراردادیں آئیں۔ ہمیں یہاں اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہیئے کہ سندھ اسمبلی نے تمام تر دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے حال ہی میں تحفظِ اقلیت کا بل منظور کیا جس کے تحت مذھب بدلنے کی عمر اٹھارہ سال رکھی گئی ہے۔ یہ بلاشبہ ایک مشکل قدم تھا جو بخوبی اٹھایاگیا۔

لشکر جھنگوی کا نیٹ ورک توڑنے میں اور جنوبی پنجاب میں موجود انتہا پسند گروہوں کا تعاقب کرنے میں بھی حکومت کا کردار لائق ستائش رہا۔ معرکے کا کریڈٹ اگرچہ طاقتور ترین شعبہ ابلاغیات رکھنے والوں کو گیا، مگر اس معرکے میں پولیس نے اپنا لہو پیش کیا۔ اس بات پر افسوس کیا جانا چاہیئے کہ دفاعی اداروں نے دہشت گردوں کے صرف اس نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالا جس نے دفاعی اداروں کو نشانہ بنایا تھا۔ ایک واضح لکیر کھینچ کر میٹھے میٹھے جہادیوں کو قوم پر بدستور مسلط رکھا۔ یعنی پاک بھارت کشیدگی میں بھارت کی نمائندگی تو وہاں کے وزیر اعظم کرتے رہے مگر پاکستان کی نمائندگی ڈی جی آئی ایس پی آر اور حافظ سعید فرما رہے تھے۔ عالمی راہداریوں سے حال ہی میں لوٹنے کے بعد میاں نواز شریف نے جہادی تنظیموں سے نمٹنے کے لیے نہ صرف یہ کہ سنجیدگی دکھائی بلکہ جہادی تنظیموں کے جملہ حقوق اپنے نام رکھنے والوں کے ساتھ حتی الامکان پنجہ آزمائی کی۔ اس کو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے تو نری بددیانتی ہوگی۔ ریاست جب اپنے عمل اور فہم سے بیانیے کے فروغ پر آجائے تو پذیرائی کوئی بات نہیں رہتی۔ پھر مولانا عبدالغفور حیدری اور جناب سراج الحق بھی کرسمس کا کیک کاٹنے تک تو آہی جاتے ہیں۔ وہ دن بھی آہی جائے گا جب یہ بھی مان لیا جائے گا کہ عقیدے، رنگ اور نسل کی بنیاد پر شہریوں کے بیچ تفریق کرنا بڑی خرابی ہے۔

گیند زمین پر لگے گی تو اٹھے گی۔ اہم یہ ہے کہ گیند کا زمین کی طرف سفر شروع تو ہو۔ میرا احساس یہ ہے کہ عمارت کی آخری منزل پر بیٹھے غاصبوں کے ہاتھ سے گیند چھڑائی جاچکی ہے۔ آخری منزل فلک بوس سہی، گیند اب زمین کی طرف آرہی ہے۔ یہ سفر بہت تیزی سے کٹ رہا ہے۔ جوں جوں گیند زمین کی طرف بڑھ رہی ہے توں توں ہیجان پیدا ہورہا ہے۔ دو ہزار سترہ میں یہ گیند زمین سے ٹکرائے گی۔ بات غلط بھی ہوسکتی ہے مگر خوش گمانی پالنے میں حرج ہی کیا ہے۔ جس اونچائی سے یہ گیند آرہی ہے اسی طاقت سے یہ واپس اچھلے گی۔ ایک بڑا ٹھپہ کھائے گی، پھر اس سے چھوٹا، اور پھر اس سے چھوٹا۔ ٹھپوں کا یہ سلسلہ تھمتا اور سکڑتا جائے گا، کچھ دیر گیند زمین پر رینگے گی اور پھر پورے قرار و اطمینان کے ساتھ رک جائے گی۔ پھر گیند اپنے کورٹ میں ہوگی۔ گیند کے یہ ٹھپے کتنے برسوں پہ محیط ہوں گے، اس سوال پر غور کرنے کی بجائے اس خوشگوار پہلو پر نظر کرنی چاہیئے کہ مدتوں کی اس مسافت کو طے کرنے کے لیے کاروان نے تسمے تو کس لیے ہیں نا۔ اب بس حوصلہ درکار ہے۔ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔

ریاست نے غفلت کی چادر کچھ سرکادی ہے۔ ریاست کی نمائندہ ایوان کے قائد نے ایک حقیقت کا جیسے ادراک کرلیا ہو، جسے انہوں نے ایک خطبے میں بیان کیا۔ ایک روشن پاکستان کی امید کے ساتھ وزیر اعظم کے اسی بیان پر کالم کا اور سال کا اختتام کرتے ہیں

’’پاکستان کا مستقبل ایک لبرل پاکستان ہے‘‘ (انشااللہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments