ٹرمپ اور دنیا کی تباہی


\"\"الیکشن کے دن کے بعد کا ہفتہ امریکیوں کے لئے ایک بہت مشکل وقت تھا۔ ساری دنیا ایک صدمے میں‌ تھی۔ ریستورانوں‌ میں‌ دوپہر کے وقت شراب پانی کی طرح‌ بہنے لگی، خودکشی سے بچانے والی فون لائنیں دھڑا دھڑ بجنے لگیں اور کینیڈا کی جانب ہجرت کی ویب سائٹس ٹریفک کی وجہ سے کریش ہو گئیں۔ مریضوں کی آںکھوں‌ میں‌ آنسو تھے، کچھ کو ہیلتھ انشورنس چھن جانے کی فکر تھی اور کسی کو اپنے لائف اسٹائل کی آزادی چھن جانے کی۔ جس کا کسی کو یقین نہیں‌ تھا وہ حقیقت میں‌ بدل گیا۔ ٹرمپ کا اپنا منہ کھلا رہ گیا تھا کہ وہ اگلا صدر منتخب ہوگیا۔ لوگ بند کمروں سے نکل کر کھل کر کہنے لگے کہ انہوں‌ نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالے حالانکہ وہ الیکشن سے پہلے خاموش تھے۔ 53 فیصد سفید فام خواتین نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالے جس پر سب پوچھتے رہ گئے کہ آخر کیوں۔ کیونکہ ٹرمپ کے لئے ڈالا گیا ووٹ خواتین کے خلاف ووٹ ہے۔

ہر کسی کا ٹرمپ کی پالیسیوں سے نفرت کرنے کا جدا جواز ہے۔ امریکہ کے دشمن ایک طرف خوش ہیں‌ کہ اس نے ایک پاگل آدمی کا انتخاب کرکے اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ دوسری طرف لوگ سمجھ رہے ہیں  کہ امریکہ کو کچھ ہونے والا نہیں کیونکہ ادارے مضبوط ہیں۔ اس بات میں‌ مجھے کوئی شک نہیں‌ کہ ٹرمپ امریکہ کو تباہ کرنے کے راستے پر چل رہا ہے۔ سوال یہاں‌ پر صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کیا ہم اس کو ایسا کرنے دیں‌ گے؟ اس بارے میں‌ امریکی اور باقی دنیا کے عوام کو تعلیم یافتہ بنانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاکہ وہ اس طوفان کے آگے پل باندھیں کیونکہ اس پر انسانیت اور اس کے مستقبل کا دارومدار ہے۔

ایک صاحب نے لکھا کہ کسی بھی ملک کی تباہی میں اس کے اندرونی عناصر و عوامل کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں جو کہ ایک حقیقت ہے۔ امریکہ کے اندر اینٹی انٹلکچوئلزم کا دھاگا ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اس کو دائرے میں‌ کامیابی سے ابھی تک رکھا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ زیادہ تر امریکیوں‌ نے ٹرمپ کو ووٹ نہیں‌ ڈالے اور اپنے اپنے دائروں‌ میں‌ احتجاج جاری رکھیں‌ گے لیکن دوسری طرف اس بات سے نظر نہیں‌ پھیری جاسکتی کہ جن لوگوں‌ کے ہاتھ میں طاقت دے دی گئی ہے وہ امریکہ کے لئے بھی خطرہ ہیں اور باقی دنیا کے لئے بھی۔

1997 میں‌ نکلی مووی \”ایناکونڈا\” میں‌ پال سیرون کہتا ہے کہ \”یہ دریا تمہیں‌ ایک ہزار طریقے سے مار سکتا ہے۔\” ٹرمپ کس کس طرح‌ امریکہ کو تباہ کرسکتا ہے وہ بھی ایک ہزار سے کم نہ ہوں‌ گے۔ کہاں‌ سے شروع کروں؟ فوسل فیول پر انحصار سے ماحولیات کی تباہی، نیوکلئیر جنگ، امیگریشن کے قوانین، نسلی اور مذہبی نفرت اور تفریق یا خواتین کا استحصال۔ اس آدمی نے جھوٹ کے مینار کھڑے کرکے کم تعلیم یافتہ اور بے ہنر سفید فام آدمی سے خالی وعدے کر کے ووٹ حاصل کئے۔ دنیا بہت پیچیدہ ہے۔ انڈیا پاکستان، چین تائیوان، اسرائیل اور فلسطین۔ پروفیسر ساری زندگی ریسرچ کرتے ہیں پھر کچھ ڈپلومیٹک حل الفاظ کو ناپ تول کر دیں گے۔ بغیر سمجھے یا جانے کسی بھی مسئلے پر تڑا تڑ ٹوئیٹ نہیں‌ کرتے۔

خواتین کے حقوق سے شروع کرتی ہوں کیونکہ میں‌ خود بھی ایک خاتون ہوں اور میری ایک بیٹی بھی ہے۔ \”مسنگ وومن\” یعنی کہ گم شدہ خواتین لفظ کو امرتیا سین نے بیان کیا۔ اس ریسرچ پر ان کو نوبل پرائز بھی دیا گیا تھا۔ ان کی ریسرچ کے مطابق دنیا میں‌ سے 100 ملین خواتین غائب ہیں۔ یہ توازن جن علاقوں میں‌ بگڑا ہوا ہے ان میں‌ جنوبی ایشیا، چین اور افریقی آگے ہیں۔ پیدائش کے وقت دیکھا جائے تو لڑکیاں‌ زیادہ پیدا ہوتی ہیں لیکن ان ممالک میں‌ ان کے ساتھ برے سلوک کی وجہ سے وہ زیادہ تعداد میں‌ کم عمری میں مر جاتی ہیں۔ خواتین کی تعداد کم ہوجانے سے ان کی زندگی بہتر نہیں ہوئی بلکہ اس سے دیگر مسائل جیسے کہ ہیومن سیکس ٹریفکنگ میں‌ اضافہ ہوا۔ چین اور انڈیا میں‌ ایسے علاقے ہیں‌ جہاں‌ ایک نسل جوان ہو چکی ہے اور ان کے لئے شادی کرنے کے لئے لڑکیاں موجود نہیں کیونکہ وہ اس دنیا سے جا چکی ہیں۔ یورپ اور امریکہ ان جگہوں‌ میں‌ ہیں جہاں‌ خواتین کی زندگی اور صحت کے بہتر خیال کئے جانے کی وجہ سے ان کی تعداد مردوں‌ کے یا تو برابر ہے یا پھر زیادہ ہے۔

آدھی زندگی پاکستان میں‌ گزاری اور آدھی امریکہ میں‌۔ دونوں‌ ملکوں‌ میں‌ رہنے کا، پڑھنے کا اور امریکہ میں‌ کام کرنے کا ذاتی تجربہ ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں‌ امریکہ میں‌ رہنا ایک خاتون کے لئے نہایت آسان، آرام دہ اور پرسکون ہے۔ امریکہ میں‌ اگر ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اس کا زندہ رہنے کا، صحت مند رہنے کا اور تعلیم یافتہ ہونے کا زیادہ چانس ہے۔ وہ چاہے اکیلی رہے، ادھر ادھر گاڑی میں‌، ٹرین میں‌ ہوائی جہاز میں‌ جہاں‌ بھی چلی جائے کوئی پریشان نہیں کرسکتا۔ کریں‌ تو اس کی پکڑ ہے۔ جاب پر قوانین سخت ہیں۔ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے کیس سے سب ڈرتے ہیں۔ اگر طلاق ہو تو جوڑے کا سب کچھ آدھا آدھا تقسیم ہوتا ہے اور ان سے ان کے بچے نہیں چھینے جاسکتے۔ خواتین کو اپنے خیالات، مذہب اور اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کی آزادی ہے۔ وہ اپنے والدین، شوہر یا سسرال کی ملکیت نہیں‌ بلکہ اپنے ملک کی ایک برابر کی آزاد شہری ہیں۔ اب ہر انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ ان سب چیزوں‌ کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرے یا خود کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کرے۔ یہ فیصلہ ان کے لئے اور کوئی نہیں  کرتا، وہ اپنے لئے خود کرسکتی ہیں۔

ٹرمپ ایک بگڑا ہوا امیر زادہ ہے جس پر آدھی درجن خواتین جنسی حملوں‌ کا الزام لگا چکی ہیں۔ ایک بس میں‌ ٹرمپ کی آواز بھی ریکارڈ کی گئی جس میں‌ اس نے خود خواتین کو ان کے جنسی اعضا سے پکڑنے کا اعتراف کیا۔ جس دن ٹرمپ انتخاب جیتا، اس کے اگلے دن سارے ملک میں‌ ایسے واقعات ہوئے جن میں خواتین ہراساں کی گئیں، ان کو کیٹ کالز کی گئیں۔ یہاں‌ تک کہ ایک سرجن کام ختم کرکے صبح چھ بجے پارکنگ لاٹ میں‌ گئی تو اس پر آدمی سیٹیاں بجانے لگے۔ ٹرمپ نے ایسے لوگوں‌ کی ہمت بڑھائی۔ ٹرمپ کی صدارت خواتین کے حقوق کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے۔ یہ ہر خاتون کا ڈراؤنا خواب ہے کہ ان کے بیٹے ٹرمپ کو اپنا صدر یا رول ماڈل دیکھیں یا یہ کہ ان کی بیٹیوں‌ کے ساتھ ایسا ہو۔ اسی وجہ سے ٹرمپ کی

اناگیوریشن کے اگلے دن ملین ومن مارچ طے ہے جو کہ تیس مختلف شہروں‌ میں‌ کیا جارہا ہے۔ سب سے بڑی ریلی واشنگٹن ڈی سی میں‌ ہے۔ مارچ میں لاکھوں‌ خواتین شرکت کر رہی ہیں جو آنے والی ایڈمنسٹریشن کو ایک کھلا پیغام ہے کہ خواتین کے بنیادی حقوق پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔

دور سے باہر سے دیکھنے پر لوگ صرف سطح دیکھتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے بکنی پہن کر ایم ٹی وی کی وڈیو بنانے والی خواتین ہی مغربی خواتین کی نمائندہ ہیں اور وہ تو پہلے سے آزاد ہیں اور ان کی زندگی اچھی ہی لگ رہی ہے تو یہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد امریکہ میں‌ کیوں‌ چل رہی ہے؟ اس کا جواب نہ تو چھوٹا ہے اور نہ ہی آسان۔ پاکستان میں ایک خاتون کے بچوں‌کی شرح‌پانچ ہے جو کہ دنیا میں‌سب سے زیادہ ہے۔ ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ کم تعلیم یافتہ اور کم عمر لڑکیوں‌ کے بچے بھی بڑے ہوکر غریب بنتے ہیں۔ امریکہ میں‌ بچے ہونے کی شرح‌ ایک اعشاریہ آٹھ ہے۔ بہت ساری خواتین پروفیسر، ڈاکٹر، ٹیچر یا لائر ہیں جن کو بچے پیدا کرنے میں‌ کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ ان کی پرسنل چوائس ہے۔ اگر ان سے برتھ کنٹرول چھین لیا جائے گا تو نہ صرف جو جابز وہ کر رہی ہیں وہ بھی نہیں‌کریں‌گی بلکہ امریکہ کی آبادی بھی کنٹرول سے باہر ہو جائے گی۔ نارتھ امریکہ بھی انڈیا کی طرح‌ بن جائے گا جہاں‌ اتنے لوگ ہیں کہ آپ سانس تک مشکل سے لیں۔

امریکی خواتین نہ صرف اپنے ملک کی معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہیں بلکہ وہ دنیا بھر میں تعلیم اور بہبود کے اداروں‌ کو سپورٹ کررہی ہیں۔ وہ پیسے بھیجتی ہیں‌ جن سے انڈیا اور افریقہ کے دور دراز علاقوں میں‌ ہسپتال اور اسکول چلائے جاتے ہیں۔ بہت ساری دنیا میں‌ سفر کرکے مریضوں اور غریبوں‌ کی مدد کرتی ہیں۔

ہر انسان صرف اپنے خیالات، جذبات، تکالیف اور مسائل ہی سمجھ سکتا ہے۔ خواتین کے مسائل سمجھنے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لئے خواتین لیڈرز کا آگے آنا بہت اہم ہے۔ براک اوباما کی صدارت میں‌ امریکہ میں‌ پروگریسو تبدیلیاں‌ آئیں۔ انہوں‌ نے دو بیٹیوں‌ کے باپ کے ناتے اس مسئلے کو اجاگر کیا کہ خواتین کو برابر کی نوکری کرنے پر سفید فام مردوں‌ سے کم تنخواہ ملتی ہے۔ ایک کالی خاتون ایک ہی جاب کرنے پر ایک سفید فام آدمی کو ملنے والی تنخواہ کا 60 فیصد وصول کرتی ہے۔ ایشیائی خواتین میں‌ یہ حالات بہتر پائے گئے۔ ایک ایشیائی خاتون ایک جیسی جاب کرنے کے لئے ایک سفید فام آدمی کی تنخواہ کا 90 فیصد لیتی ہیں۔ ہر پیشے میں خواتین کی شمولیت بڑھانے کے میدان میں ریسرچ میں‌ پیسہ لگایا گیا۔ اس کے علاوہ اس بات کو لازمی بنایا گیا کہ ہیلتھ انشورنس کمپنیاں خواتین میں‌ کینسر ڈھونڈنے والے ٹیسٹ اور برتھ کنٹرول کو ان سے مزید فیس لئے بغیر مہیا کریں۔ اس کے علاوہ ابارشن کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک طرف تنگ نظر عیسائی تنظیمیں‌ بچوں‌ کو سیکس ایجوکیشن دینے اور برتھ کنٹرول کے خلاف بھی ہیں اور پھر وہ ابارشن کو بھی غیر قانونی بنا دینا چاہتے ہیں۔ یہ ایک مشکل موضوع ہے اور اس نے لوگوں‌ کے اندر اشتعال پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔ اسی لئے امریکہ میں‌ دو بڑے گروہ ہیں۔ ایک پرو لائف اور دوسرا پرو چوائس۔ پرو لائف نہ صرف مظاہرے کرتے ہیں‌ بلکہ کئی ڈاکٹرز اور نرسوں‌ کو ابارشن فراہم کرنے پر جان سے بھی مار چکے ہیں۔

شروع میں‌ میڈیکل جرنل یہی کہتے تھے کہ دل کا دورہ مردوں‌ کو پڑتا ہے کیونکہ ریسرچ کرنے والے ڈاکٹرز خود بھی مرد تھے اور جن پر وہ ریسرچ کررہے تھے وہ بھی مرد تھے تو انہوں‌ نے نہ صرف یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ ہارٹ اٹیک خواتین کو نہیں ہوتا بلکہ اسی طرح ہیلتھ کئر میں‌ پیسہ بھی لگایا گیا۔ یہ منتخب تعصب (selection Bias) کی ایک مثال ہے۔ اسی لئے خواتین ڈاکٹرز کی ضروت ہے تاکہ وہ ان نظرانداز کئے ہوئے شعبوں پر توجہ دے سکیں۔ حال ہی میں‌ ہارورڈ میڈیکل اسکول میں‌ کی جانے والی ریسرچ کے مطابق خواتین ڈاکٹرز کے زیر علاج افراد میں ہسپتال دوبارہ بیمار ہوکر جانے کی شرح‌ کم دیکھی گئی بلکہ ان مریضوں‌ میں‌ موت کی شرح‌ بھی کم پائی گئی۔

سپریم کورٹ کا جج قائم کرنے کی طاقت صدر کو ہوتی ہے۔ اوبامہ نے اپنی ٹرم میں‌ دو خواتین سپریم کورٹ جسٹس نامزد کیں جو روشن خیال اور اقلیت دوست ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس کی جاب تمام زندگی کی ہوتی ہے اور وہ ملک کے مستقبل کے لئے بڑے فیصلے کرتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں‌ نے خواتین کے ابارشن کے حق اور ہم جنس امریکیوں کو شادی کرنے کی اجازت دی جو کہ شخصی آزادی میں‌ سنگ میل سمجھے جاتے ہیں۔ ہم جنس افراد چونکہ ہر معاشرے کا صرف 5 فیصد ہیں اور دنیا کے بڑے مذاہب کے لیڈران ان کو یہ حق نہیں دینا چاہتے، یہ ایک بہت بڑی کامیابی تسلیم کی گئی۔ اس وقت ایک سپریم کورٹ جج کی جگہ خالی ہے اس کی جگہ اگر ٹرمپ نے کسی تنگ نظر انسان کو بٹھا دیا تو وہ آنے والی کئی نسلوں‌ کی زندگی خراب کرے گا۔

ٹرمپ کی صدارت میں‌ جن لوگوں‌ کو طاقت حاصل ہورہی ہے ان میں‌ تنگ نظر اور چرچ اینڈ اسٹیٹ کی علیحدگی کے مخالف نائب صدر پینس جیسے افراد شامل ہیں۔ جو حقوق خواتین نے بہت برسوں کی جدوجہد اور سیاسی لڑائی سے حاصل کئے وہ یکدم چھینے جاسکتے ہیں۔ خواتین اس ملک کا نصف سے زیادہ حصہ ہیں۔ خواتین سے سب کچھ جڑا ہے۔ اگر امریکہ کی خواتین میں‌ موت کی شرح، بیماری کی شرح‌اور ان کے خلاف گھریلو تشدد یا کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی میں‌ اضافہ ہوا تو امریکہ کو اندر سے تباہ ہونے سے کون روکے گا؟

(جاری ہے۔)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments