چار بھاری کتابیں اور ہلکے پھلکے سے ہم


\"\"

ہماری جہالت کچھ زیادہ ہی بدنام ہو گئی ہے۔ اب نہایت عالم فاضل لوگ ہمیں سمجھانے بجھانے اور پڑھانے لکھانے پر کمربستہ ہو چکے ہیں اور انہوں نے ہمیں چند پند نامے بصورت کتاب ارسال کیے ہیں۔ ہم نے ابھی صرف ایک کتاب ہی پڑھی ہے، مگر ہم تو وہ مبینہ دانشور ہیں جو لفافہ دیکھ کر مضمون جان لیتا ہے، اڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے، پر کا کوا بنا دیتا ہے اور رائی کا پہاڑ بنانے سے بھی نہیں کتراتا۔

ایک صاحب کسی وجہ سے ہمیں مولوی سمجھ بیٹھے ہیں اور انہوں نے بصد مشکل ہمیں ایک ہدایت نامہ ارسال کیا ہے کہ ’اسلام کو مولوی سے بچاؤ‘۔ کتاب پڑھی۔ یہ کتاب کافی محنت سے لکھی گئی ہے اور اس میں قرآن و حدیث اور تاریخی حوالوں سے اسلامی میں پاپائیت کے در آنے کا ذکر کرتے ہوئے بعض حلقوں کی جانب سے مذہب کو ذاتی منافعت کے لئے استعمال کرنے اور اسلام کے نام پر دنیاوی فائدہ حاصل کرنے پر ان کو اسلامی مواخذ کی روشنی میں خبردار کیا گیا ہے اور علمائے حق کے کردار کی بات کی گئی ہے کہ اسلام کے اصل راہبر وہ ہیں۔ کتاب کا عنوان گمراہ کن ہے۔ ہم فاضل مصنف کو یقین دلاتے ہیں کہ نہ تو ہم ان علمائے سو میں سے ہیں اور نہ ہم علمائے حق میں شامل ہونے کے اہل ہیں کیونکہ ہم کم علمی کا شکار ہیں۔ بہرحال رانا تنویر عالمگیر صاحب کی اس عنایت پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

\"\"ایک دوسرے صاحب نے تو سیدھی ہم پر ہی کتاب لکھ دی ہے۔ اس کا عنوان ہے ’آپ‘۔ ابھی ہم نے فہرست عنوانات پر ہی نگاہ ڈالی ہے مگر کور پیج سے ہمیں یقین ہو چکا ہے کہ یہ کتاب ہم پر ہی لکھی گئی ہے۔ گمان یہ بھی ہے کہ عمار مسعود صاحب ہم سے جس قدر محبت کرتے ہیں، انہوں نے ضرور ہمارا قصیدہ ہی لکھا ہو گا۔ مگر اپنی کم عمری کے باوجود عمار مسعود علمی لحاظ سے ایک بزرگ شخص ہیں تو خدشہ یہ بھی ہے کہ ہمیں راہ راست پر لانے کے لئے پند و نصائح کے انبار لگائے گئے ہوں گے۔

یعنی دو فاضل مصنف ہماری اصلاح پر اپنا کافی وقت اور سرمایہ صرف کر چکے ہیں۔

ہمیں ان کے قابو نہ آتے دیکھ کر اور اصلاح سے بھاگتا پا کر ایک اور نیک خو مصنفہ نے ہمیں برے وقت سے ڈرانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ایک کتاب دی ہے، ’آخری زمانہ‘۔ غالباً ہمیں بتانے کی کوشش کی ہے کہ عدنان صاحب، وقت کم ہے، یہ آخری زمانہ چل رہا ہے، سدھر جائیں۔ شاید انہیں علم نہیں ہے کہ ہم تو شادی کے کھانوں پر ٹوٹ پڑنے والے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کو پتہ چلے کہ آخری قاب آ رہی ہے، تو بے تابی سے اس پر جھپٹ پڑتے ہیں کہ آخری ہے، اس کے بعد نہ جانے کیا ہو، بس جتنی موج کرنی ہے، کر لو۔ لوٹ لو جو لوٹنا ہے۔ لیکن یہ حقیقت اس طرح سے بتانا تو مناسب نہیں ہے کہ ہم معزز بننے کی کوشش میں ہیں۔ اب آمنہ مفتی صاحبہ کو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ

نو روز و نو بہار و مے و دلبرے خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

یعنی نیا سال چڑھ رہا ہے، بہار آئی ہے، مے ہے، خوبصورت محبوب ہے، بابر بس عیش کر لے کہ دنیا دوبارہ نہیں ملنے کی۔

ہمیں اس سب سے نہ گھبراتے دیکھ کر اور ڈھٹائی پر تلے پا کر ہمارے ایک اور خیر خواہ میدان میں آن کودے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بھائی، سنبھل جاؤ، ورنہ علاقہ غیر میں پہنچا کر ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘ بنا ڈالیں گے۔ پھر چکی پیسا کرنا اور توبہ کیا کرنا۔ اب بھائی فیض اللہ خان کیا سمجھیں کہ ہم نے نہ تو کبھی افغانستان دیکھا ہے اور نہ کسی کو چکی پیستے دیکھا ہے، تو ڈر کاہے کا؟ ان سے کچھ ایسا مکالمہ ہوا کہ

کہا سرحد پہ جا بیٹھیں، کہا سرحد پہ جا بیٹھو
کہا افغان کا ڈر ہے، کہا افغان تو ہوگا

اب جلد ہی ہم ان کتابوں کر پڑھ کر یہ تصدیق کر دیں گے کہ ان کتابوں کا سرورق دیکھ کر ہم نے جو اندازے باندھے ہیں وہ صد فیصد درست ہیں اور ناقابل اصلاح رہ کر یہ بھی ثابت کر دیں گے کہ ہمارے ان خیر خواہاں کو ہماری بھلائی کے لئے مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments