مغرب بھی کبھی قدامت پسند تھا۔۔۔


\"\"مغرب کو دینا میں روشن خیال معاشرہ تصور کیا جاتا ہے اور اسی ٹیگ لائن کے باعث وہ کافی جانا اور پہچانا بھی جاتا ہے لیکن اسکا ماضی آج کے دور سے کافی مختلف رہا ہے ۔قدامت پسند ی کا ٹائٹل آج کل بڑی آسانی سے کچھ خاص سوچ یا نظریہ رکھنے والے لوگوں کے ساتھ چسپاں کر دیا جاتا ہے، حالانکہ اگر روشن خیال معاشروں کا ماضی دیکھا جائےتو بہت سارے ایسے واقعات ملیں گے جن میں ان کی قدامت پسندی کی بےشمار جھلکیاں نظر آئیں گی۔ ایک جائزے میں مغرب معاشرے کی شرم و حیا کے پہلو پہ نظر ڈالی گئی ہےکہ کس طرح ایک انتہائی قدامت پسند مغربی معاشرہ آج کا بھیانک ترین آزاد معاشرہ بن گیا ہے۔

بات شروع ہوتی ہے 1907 کے ایک واقعے سے کہ جب مغرب معاشرے میں ایک عورت کو محض اس بات پہ گرفتار کر لیا گیا تھا کہ اس نے سویم سوٹ عوامی جگہ (public place) پر پہن رکھا ہے جو کہ اس کے جسم کو مکمل طور پہ ڈھانپے ہوئے تھا۔ لیکن گرفتار کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ لباس تنگ ہونے کی وجہ سے جسمانی خدوخال کو نمایاں کر رہا ہے۔ مردوں کو دوران سوئمنگ اپنا سینہ ننگا رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ سوئمنگ پول پہ آنے والی خواتین کی پیمائش ٹیپ کے ذریعے تصدیق کی جاتی تھی کہ لباس لازمی رانوں تک ڈھانپا ہوا ہو۔ اس مقصد کے لیے لباس کو چیک کیا جاتا تھا، اگرلباس ا یک دو انچ اوپر ہو جاتا تو جرمانہ لگایا جاتا تھا۔ 1934 میں مغرب میں میڈیا سکرین پہ پہلی بار ایک مرد بغیر شرٹ کے نمودار ہوا تو بہت شور مچایا گیا ناظرین کی طرف سے۔ کیونکہ ایسا ہونا ان کے معاشرتی روایات اور اقتدار کے خلاف تھا۔ 1956میں جب بکنی لباس کی تخلیق ہوئی تو کوئی ماڈل میسر نہیں تھی اس معاشرے میں جو اتنا واہیات لباس زیب تن کر سکے ۔ اس کے علاوہ اگر تمباکو نوشی (سگریٹ) کی تاریخ دیکھی جائے تو کس طرح اس کلچر کوعورتوں میں لانے کے لیے پہلے پہل ماڈلز اور ایکٹرز میں عام کیا گیا جو کہ پہلے اس معاشرے کا کبھی حصہ نہیں تھا۔

مارکٹینگ میں کچھ ٹیگ لائنز یا اور ایسی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے جس سے لوگوں کا رحجان بڑھے اس پروڈکٹ کو خریدنے میں۔ بکنی بنانے والے نے یہ نہیں دیکھا کہ سوسائٹی کے اپنے کچھ اصول و قواعد ہیں، اس کی کچھ اپنے معاشرتی اقدار ہیں جس پہ وہ معاشرہ اپنی تہذیب و تمدن کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ۔ اس نے ایک پروڈکٹ بنا دی اب اس کی مارکیٹنگ کے لیے طرح طرح کے طریقے اور ہربے اپنائے گئے کہ \” باتھنگ سوٹ\” کو سوئمنگ پول میں لے جانا مشکل ہے ۔ عوام کی آسانی کے لیے ایک ایسا لباس بنایا جا رہا ہے جسکو لے سوئمنگ پول لے جانے کی بجائے پہلے پہن لیا جائے ۔جس کو لے کے جانا یا اوڑھنا بالکل آسان ہے۔

اسی طرح اگر سگریٹ کا معاملہ دیکھا جائے تو اس کی مارکیٹنگ ماڈلز اور ایکٹرز کے ذریعے کر وائی گئی ۔اس کو پینے سے عورتیں سلم و سمارٹ ہو سکتی ہیں، ایک عورت ہاتھ میں سگریٹ تھامے اپنی من چاہی زندگی بسر کر سکتی ہے حتی کہ اس کو ایلٹ کلاس کا status symbol سمجھا جانے لگا۔ ظاہر ہے ایک بزنس کی حیثیت سے دونوں پروڈکٹس کی ٹیگ لا ئن بہت ہی لوجیکل (منطقی) تھی ۔

 مغربی معاشرے میں آج بے حیائی ان کی پہچان بن گئی ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں شرم و حیا تھی آج اس شرم و حیا کو دقیانوسی کا نام دیا جانے لگا۔ روشن خیالی اور انسانی آزادی کے چکروں میں معاشرے نے سب کچھ قربان کرنے کی ٹھان لی۔ اپنے اقدار،سوچ ، رسم و رواج، رویے سب کو کہیں کھو دیا۔ آج مغرب معاشرے کو جہاں روشن خیالی کے نام پہ جانا جاتا ہے وہیں بے حیائی کے نام پہ بھی اسے پہنچانا جانے لگا ہے۔ بہت آہستہ آہستہ سے بے حیا ئی کو لوگوں میں متعارف کروایا گیا۔ لوگوں میں آہستہ آہستہ ان سب بے حیائی کو تسلیم کرنے کی صلاحیتوں کو پیدا اور اجاگر کیا گیا۔ اب بے حیائی ان کا کلچر بن کے ابھری ہوئی ہے، کہتے ہیں ہر معاشرے کا کوئی نہ کوئی شعار ہوتا ہے جس سے وہ معاشرہ پہچانا جاتا ہے۔ مغربی معاشرہ کا شعار روشن خیالی کے لبادے میں بے حیائی بن گئی ہے۔ آج بے حیائی ان کی پہچان بن گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments