سیاسی جماعتوں میں اصلاحات کی ضرورت


\"\"پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کا سہرا کس کے سر سجائیں، یہ ایک مشکل کام ہے۔ کیونکہ ماضی قریب میں بننے والی جماعتیں بھی اس کی دعویدار بنی نظر آتی ہیں۔ بعضوں کی بے شرمی تو دیدنی ہے، وہ تو سقوط ڈھاکہ سے پہلے یحییٰ خان اور ایوب خان کے دور کی جمہوری سیاسی جدوجہد بھی اپنے کھاتے میں ڈال لیتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جمہوریت کے لئے قیام پاکستان سے لے کر ماضی قریب تک سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں سمیت عام کارکنوں نے بہر حال قربانیاں دی ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مختلف ادوار میں جمہوریت کی بحالی کے لئے قربانیاں دینے یا اس کی دعویدار جماعتوں نے اپنے اندر بھی جمہوری اقدار کو فروغ دیا۔ جماعت کے اندر میرٹ کا ایک ایسا نظام متعارف کرایا، جہاں ایک عام پاکستانی اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر کسی معروف سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکے؟ جواب ہم سب جانتے ہیں۔

آئینی اور قانونی نقطۂ نظر سے اس سلسلے میں کچھ کام تو ہوا ہے۔ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ موجود ہے۔ ریکارڈ کی درستگی کے لئے اور اپنے آپ کو قوانین کی گرفت سے بچانے کے لئے اس پر عمل بھی ہوتا ہے، لیکن وہ ناکافی ہے۔ قوانین کے ہوتے ہوئے بھی تنظیمی معاملات بہتری کی بجائے ابتری کا شکار ہوئے ہیں۔ اور تمام سیاسی جماعتیں موروثی جماعتیں بن کر رہ گئیں ہیں۔ اور عام کارکنوں کو نہ تو تبدیلی دیکھنے کو ملی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے اندر تنظیمی لحاظ سے میرٹ کی جانب گامزن ہو سکی ہیں۔

ہمارے ملک میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں اکثر تنظیمی بناوٹ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ عہدوں کے نام سے لے کر ایک بنیادی ممبر و یونٹ تک کا نظام ایک جیسا نہیں۔ بعضوں نے تو مخصوص مفادات کے پیش نظر مخصوص تنظیمی بناوٹ اپنا رکھا ہے۔ عہدیداروں کی مدت عہدہ بھی ایک جیسی نہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کے لئے مضبوط سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے اور مضبوط سیاسی جماعتیں بنانے کے لئے ان میں اصلاحات کی اس سے زیادہ ضرورت ہے۔

جس طرح ملک میں انتظامی تقسیم موجود ہے یعنی مرکز، صوبے، ڈویژن، ضلع، تحصیل، میونسپل کمیٹی، وراڈ یا یونین کونسل، بالکل سیاسی جماعتوں کی تنظیم بھی اس کے مطابق ڈھال دینی چاہئے۔ یہاں یہ بات واضح کروں کہ مرکز اور صوبوں کے بعد ڈویژن کی ضرروت انتظامی لحاظ سے رہتی ہی نہیں۔ یہ نظام ایک سازش کے تحت اپنایا گیا تھا، یہ عوام کے مسائل کے حل میں ایک غیر ضروری انتظامی رکاوٹ ہے لیکن جب تک یہ تقسیم موجود ہے، سیاسی جماعتوں کو تنظیمی لحاظ سے اس کی پیروی کرنی چاہئے۔

کچھ سیاسی جماعتوں نے ڈویژن کی تنظیمیں بنائی ہوتی ہیں جب کہ چند ایک سیاسی جماعتوں نے ایسی صوبائی تنظیمیں بھی بنا رکھی ہیں جن کا آئین پاکستان میں کوئی ذکر نہیں۔ کیا یہی جماعتیں جب متعلقہ صوبے میں اقتدار میں آتی ہیں تو انتظامی امور چلانے کے لئے دو یا تین وزرائے اعلیٰ رکھتی ہیں؟ اس معاملے میں آئین کے مطابق عمل ہو نا ضروری ہے۔

اب ان جماعتوں کے امور چلانے کی باری آتی ہے یہاں بھی اپنا اور ایک دوسرے سے علیحدہ طریقہ کار نہیں ہونا چاہئے۔ بالکل ملک کے پارلیمانی نظام کے مطابق ہونا چاہئے۔ مرکز میں قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کے عین مطابق، مرکزی کونسل اور مرکزی کابینہ جیسا کہ تمام جماعتوں نے اس کو اپنا رکھا ہے، ہونا چاہئے۔ مرکز میں مختلف صوبوں سے نمائندگی، جہاں قومی اسمبلی میں آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے بالکل اسی طرح سیاسی جماعتیں، متعلقہ صوبے میں اپنی ممبرشپ کے تناسب سے طے کیا کریں۔ یہی اصول صوبوں میں متعلقہ ضلعوں کو لے کر ہونی چاہئے۔ اور ضلعوں سے نیچے بھی۔
یہاں ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں ایک صوبے میں واضح اکثریت رکھتی ہیں۔ جس طرح قومی اسمبلی میں پنجاب کو اکثریت حاصل ہے۔ لیکن پارلیمانی طرز میں صوبوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے سینٹ موجود ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتوں میں مرکزی کونسل اور کابینہ کے علاوہ سینٹ کے طرز پر ایک ایسا فورم ہونا چاہئے جس میں تمام صوبوں کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی حاصل ہو۔ تاکہ ایک صوبائی تنظیم دیگر صوبوں کے مفادات کو بلڈوز نہ کر سکے۔

پارٹیوں میں عہدیداروں کا طریقہ انتخاب بھی ایک جیسا ہونا چاہئے۔ ان کی مدت عہدہ بھی ایک ہونی چاہئے۔ ایک جماعت بنیادی یونٹ سے لے کر مرکز تک انتخاب کراتی ہے جب کہ پہلے مرکز میں انتخاب کرانے اور پھر نچلی طرف آتے ہوئے یونٹ تک تنظیمیں بنانے کی روایت بھی موجود ہے۔ دونوں کے حق اور خلاف میں دلائل دیے جاتے ہیں۔ لیکن پارٹیوں میں عہدیداروں اور تنظیم بنانے کا طریقہ انتخاب بھی ایک جیسا ہونا چاہئے۔ ان کی مدت عہدہ بھی ایک ہونی چاہئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پارٹیوں میں ایک شخص کئی عہدوں پر فائز ہوتا ہے۔ ضلع سے لے کر مرکزی کونسل تک کا ممبر ہوتا ہے۔ اس پر پابندی ہونی چاہئے۔ ایک شخص ایک وقت میں ایک ہی فورم کا ممبر ہونا چاہئے تاکہ دوسرے کارکنوں کو نہ صرف آگے آنے کا موقع ملے بلکہ وہ بھی اپنے مخصوص موقف کو لے کر جمہوری طریقہ کار کو سبوتاژ کرنے سے بھی باز رہے۔

سیاسی جماعتوں میں ذیلی تنظیموں پر پابندی ہونی چاہئے۔ اگر وہ کام کی بہتر انجام دہی چاہتے ہیں تو اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے طرز کو اپنانا چاہئے۔ ایک پابندی جماعتوں کے ناموں پر بھی ہونی چاہئے۔ تمام ایسی جماعتیں جن کے نام سے، فرقہ، مسلک، قومیت، قبیلہ، برادی وغیرہ کی بو آ رہی ہو، کام کرنے کی اجازت یا رجسٹریشن نہیں ہونی چاہئے۔ مختلف اتحادوں کے نام سے کام کرنے والے پریشر گروپوں کی بھی بیخ کنی ہونی چاہئے۔

ایک جیسے نظام سے عوام کو سیاسی جماعتوں کو سمجھنے اور جانچنے میں آسانی ہوگی۔ ہماری سیاسی جماعتیں نہ صرف مضبوط ہوں گی بلکہ وہ اداروں کی شکل اختیار کر لیں گی۔ اس سے جہاں سیاسی کارکنوں کی تربیت ہو گی وہاں جمہوری نظام مضبوط تر ہو گا اور ہمیں ایسی سیاسی اور پارلیمانی قیادت میسر آئے گی، جنہیں ہر سطح کے مسائل کا نہ صرف ادراک ہو گا بلکہ وہ ان کے حل کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں گے۔ مقامی سطح کے حکومتی نظام سے لے کر وفاق کی سطح تک، وہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کی تربیت رکھتے ہوں گے۔ ہمیں برداشت کی بنیادوں پر قائم جمہوری معاشرہ چاہئے جہاں جمہوریت اپنے ارتقائی مراحل سے گزر کر مضبوط تر ہو سکے۔ ایک ایسا سیاسی معاشرہ، جہاں ایک دوسرے کی برائی بیان کر کے سبقت لے جانے کی بجائے، دوسرے کے مقابلے میں اپنا بہترین وژن اور پروگرام دے کر بڑھنے کا رواج ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments