الوداع 2016


محمد ٖفیاض حسرت سردار

\"\" کچھ ہی دن پہلے 2016 کی آمد تھی۔ ہر کوئی نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ مجھے بھی کئی اپنوں نے نئے سال کی آمد کے پیغامات بھیجھے۔ ہر کسی کی نئی چاہتیں، تمنائیں، آرزوئیں اور خواہشیں نئے سال سے وابستہ تھیں۔ ایسا ہی کچھ میرا بھی حال تھا۔ میری سب وہ خواہشیں، وہ تمنائیں، وہ آرزوئیں اور وہ چاہتیں وقت لے گیا اپنے ساتھ۔ اور بدلے میں مجھے ایسا درد دے گیا جو ہر گزرتے  دن بڑھتا ہی جا رہا۔ وقت تو گزر جاتا ہے پر اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے کچھ دکھ درد ایسے دے جاتا ہے جو ہمیشہ کے لیے ساتھ رہتے ہیں۔ اس گزرتے سال میں جہاں بہت سب ملا بھی پر بہت سے اپنوں کو کھو بھی دیا جن کا تصور بھی شاید ذہن نہیں کر سکتا تھا۔

سال کے آغاز میں میرا دوست ’’جمال عاشق‘‘ جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اک حادثے کی نذر ہو گیا۔ اس سے وابستگی اتنی تھی کہ آج تک میں اسے اپنے احساسات و جذبات سے الگ نہیں کر پایا۔ مجھے ایسے لگتا ہے وہ پہلے کی طرح میرے ساتھ ہے۔ پھر اسی سال کے وسط میں میرے ماموں کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ چل بسے۔ کچھ یوں ہوا کہ بھائی کے چہرے کا رنگ کال رسیو کرنے کے ساتھ بدل چکا تھا۔ میں نے جب پوچھا کہ خیریت ہے، اس کا کچھ دیر چپ رہنا ہی میں سمجھ گیا تھا کہ کچھ نا کچھ ہو گیا ہے، اس کے یہ الفاظ دھیمی سی آواز میں سننے تھے کہ  میری قدموں تلے زمین نکل گئی، ماموں کی ڈیتھ ہو گئی ہے! مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں خود کو  تسلیاں دیتا رہا کہ کسی نے جھوٹ کہا ہو گا یا کسی نے مذاق کیا ہو گا۔ مجھے اب کنفرم بھی ہو چکا تھا پھر بھی میں رب سے دعائیں کر رہا تھا کہ اے اللہ میرے ماموں کو بہتر کرنا۔ مجھے آخری کال آئی کہ کس وقت تم گاوں آ رہے ہو۔ بس پھر مجھے یقین ہو گیا کہ ماموں ہمیں چھوڑ کے جا چکے ہیں۔ مجھے کیا خبر تھی یہ زندگی کچھ ایسا درد دے جائے گی کہ میں اس درد کو کبھی خود سے الگ نا کر پاؤں گا۔ وہ اتنا بڑا درد تھا کہ دنیا کی ساری خوشیاں چلی آتی میرے پاس پھر بھی مجھے اس درد کی شدت سے باہر نہیں نکال سکتیں تھیں۔

میری آنکھوں سے مسلسل آنسو  بہ رہے تھے۔ مجھے اس شدت سے پہلی دفعہ درد محسوس ہوا، شاید تھی کوئی ایسی بات ان میں کہ ان کے جانے سے اک نا امیدی سی چھا گئی تھی۔ ہر طرف سب کچھ بجھا بجھا سا لگ رہا تھا، کوئی ادھربیٹھ کے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا کوئی ادھر بیٹھا سسکیاں لے رہا تھا۔ وہ پل ایسا تھا کہ بس خود کا جینا بے مقصد لگ رہا تھا پر ہمارے بس میں تھا تو کچھ نہیں۔ ہم ان خوشیوں کو واپس تو نا لا سکتے تھے نا جو ان کے جانے کے ساتھ ختم ہو گئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ خوشی اور غم ساتھ ساتھ ہیں پر اتنا نہیں پتا تھا کہ اتنا بھی فاصلہ ہو سکتا ہے ان کے درمیان۔ انسان کو دکھ درد اسی چیز کا ہوتا ہے جس کی قیمت زیادہ ہو۔ ہم سے بھی ایسی چیز بچھڑ چکی تھی جو بہت پیاری تھی ہمیں۔

کہتے ہیں نا اللہ جب اپنے بندے سے محبت کرتا ہے ہے تو اس بندے کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے، یقیناً ایسے ہی تھے وہ ہر چھوٹا بڑا ان کی عزت کرتا تھا۔

میرے چند اشعار ان کی نذر:

تھا نا شاید یقیں مجھ کو کہ فاصلہ ہے اتنا

کہ اک پل مجھے پل پل رلانے کو تھا

خوشی اور غمی ہیں لازم و ملزوم لیکن

فاصلہ ہے اتنا، وقت یہ بھی دکھانے کو تھا

اک دیا جو جلا روشنی ہی روشنی تھی ہرطرف

تھا ہوا کا اک جھونکا جو اسے بجھانے کو تھا

وہ جو اوروں کی تکلیفیں خود کی سمجھتا تھا

تھا اتنا اچھا پر کیوں ہمیں چھوڑ جانے کو تھا

اب بیٹھے غم میں ہم اس قدر ڈوب چکے کہ

کوئی لے رہا سسکیاں اور کوئی اشک بہانے کو تھا

لوگ کہتے ہیں سب اچھا ہو جائے گا وقت کی ساتھ

کیسا وقت اچھا؟چھن تو گیا سب اور کیا رہ جانے کو تھا

اللہ کرے کہ آنے والے سال میں گزرتے سال کی طرح نا دہشتگردی میں سینکڑوں قیمتیں جانیں قربان ہوں اور نا ہی بہت سے لوگ ہوائی جہاز کی کریشنگ کی نذر ہوں۔ رب سے دعا ہے کہ 2017 ہم سب کے  لیے ہر لحاظ سے بہتر ہو۔ آمین    ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments