نظریہ پاکستان، ایک مبہم اصطلاح


\"\"جی ہاں نظریہ اضافت کے بارے میں سنا ہے اور پڑھا بھی ہے۔ مارکسی نظریہ بھی ہوتا ہے۔ شاید اسلامی نظریہ بھی ہوتا ہو، شاید اس لیے کہ اگر ایسا ہے تب تو عیسائی، یہودی، ہندو غرض بہت سے نظریے ہوں گے۔ نظریہ کسے کہتے ہیں؟ لغوی معانی میں نظری نقطہ نظر کو یعنی تھیوری کو۔ وسیع معانی میں نظریہ محکم یقین کے ایک مجموعے کا نام ہے جو زندگی کے بہت سے شعبوں مثال کے طور پر سماج، سیاست اور معیشت کے حوالے سے مروج کیے جانے کی خاطر اصولوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ہر شخص کا زندگی، سماج، سیاست، معیشت یا دوسرے شعبوں کے متعلق مختلف نقطہ نگاہ ہو سکتا ہے۔ یہ عقائد یا مجموعہ ایقان خاندانی پس منظر، ذاتی تجربات یا جیسا کے مارکسیوں کا خیال ہے معاشی حیثیت کے باعث اذہان میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ چونکہ معاشرہ انسانوں کے مجموعے کا نام ہے اور ایسے کسی بھی مجموعے میں بہت سی سیاسی پارٹیاں اور گروہ بر سر کار ہوتے ہیں چنانچہ وہ اپنے کارکنوں کو متحد اور منظم کیے جانے کی خاطر کوئی ایسا نظریہ اپنا لیتے ہیں جو پہلے سے مروج ہوتا ہے جیسے کنزرویٹزم، لبرلزم، سوشلزم، کمیونزم، کیپٹلزم یا پھر مروج نظریات میں کوئی اضافت لگا کر اپنا لیتے ہیں جیسے اسلامی سوشلزم۔

ملکوں کو چلانے کے لیے ضروری نہیں کوئی نظریہ اپنایا جائے۔ روس اس کی ایک مثال ہے جہاں ستّر برس سے زائد عرصے تک حکومتی نظریہ سوشلزم رہا، درمیان کے عرصے میں چند سال کے لیے دعوٰی کیا گیا کہ سوشلزم کمیونزم کی شکل اختیار کر چکا ہے لیکن پھر اس دعوے کو واپس لے لیا گیا تھا اور سویت یونین کا نظریہ سوشلزم ہی رہا یہی وجہ ہے کہ اسے یو ایس ایس آر یعنی یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلکس کا نام دیا گیا تھا، اگرچہ مخالف دنیا اسے کمیونسٹ ہی گردانتی رہی تھی۔ بہر طور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اب تک روس کا کوئی سرکاری نظریہ نہیں تھا البتہ کچھ عرصے سے کہا جانے لگا ہے کہ روس کی حکومت کا نظریہ قدامت پسندانہ آزاد خیالی یعنی کنزرویٹو لبرلزم ہے، اس کے برعکس برطانیہ کا سرکاری نظریہ کنزرویٹزم ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا لبرلزم اور ماڈریشن۔

ریاست کے نظریے سے ضروری نہیں کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں، سماجی طبقات یا افراد متفق ہوں۔ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ اس نظریے سے متعلق لوگوں، پارٹیوں یا مقننہ کے ایوانوں کے اراکین کو پابند بنایا جائے۔ بہر حال مجموعی طور پر ریاست کا اقتدار سنبھالنے والی پارٹی اپنی داخلہ پالیسیوں خاص طور پر خارجہ پالیسی کو مدون کرتے ہوئے اس نظریے کی اساس سے منحرف نہیں ہوتی۔

نظریہ پاکستان کے بارے میں اکثر دوقومی نظریے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں \”مقہور\” ایاز امیر کا یہ کہنا بالکل مناسب ہے کہ پاکستان بنانے تک تو دو قومی نظریہ کسی حد تک درست تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی مجموعی ترقی کی خاطر کسی اور محکم نظریے کی ضرورت ہے۔ اگر آج بھی دو قومی نظریے پہ ضد کی جاتی ہے تو یہ کسی عسکری ریاست کا ہی نظریہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دوسری \”قوم\” کی اکثریت والی ہمسایہ ریاست سے برسر پیکار رہنے پہ تلی ہوئی ہے۔ آج کی دنیا میں اس قسم کا نظریہ شمالی کوریا جیسی سخت گیر ریاست کا ہی ہو سکتا ہے۔ چین بھی ہندوستان کے ساتھ علاقائی سرحدی تنازعات اور اپنے سیاسی نظریے کے باوجود تعلقات کو بخوبی استوار کیے ہوئے ہے۔ رہی بات قوم کی تو پاکستان کے مسلمان شاید بطور مسلمان ایک قوم کہلانا پسند کر سکتے ہوں جب کہ ایسا نہیں ہے، بلوچستان اور کسی حد تک سندھ کے حالات اس حقیقت کے غماز ہیں لیکن ایران، افغانستان، عرب امارات، قطر، اردن، کویت، عراق، شام، سعودی عرب کے ملکوں کے لوگوں کی قوم عرب ہے۔ اسی طرح لیبیا کے لوگ بربر یا عرب ہیں، علٰی ہذالقیاس۔ وہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ بطور ایک \”قوم\” کے یک جہتی کرنے کی خاطر ہرگز تیار نہیں ہیں۔

نظریہ پاکستان کے ضمن میں دوسرا بیان اسلام کو نظریہ پاکستان قرار دینا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان کی 25 % شیعہ آبادی کی اسلام کے بارے میں تفصیل 75% سنیوں سے خاصی مختلف ہے اور اس 75% سنی آبادی میں دیوبندیوں، بریلویوں، اہل حدیث، چکڑالویوں اور نجانے کتنے ہی اور فرقوں کے آپس میں اختلاقات کہیں درمیانی نوعیت کے ہیں۔ کہیں شدید اور کہیں متشددانہ بلکہ مبنی بر معاندت ہیں۔ ایسے میں جب اسلام بطور مذہب لوگوں کو اکٹھا نہیں رکھ پا رہا تو کیا بطور نظریہ لوگوں کو یکجا کرنے کا باعث بن سکتا ہے، یہ خیال ہی لغو ہے۔

نظریہ پاکستان سے پہلے نظریے کی جامع اور متفقہ تشریح کیا جانا ضروری ہے۔ پھر نظریہ بطور قوم وہاں کارآمد ہوتا ہے جہاں مختلف خطوں میں بسنے والے لوگ خود کو علیحدہ علیحدہ \”قوم\” نہ تصور کرتے ہوں۔ قومیت اور قوم میں تخصیص کرنا بعض اوقات بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ ایک مخصوص جغرافیے میں محدود کسی ملک میں بسنے والے لوگوں کو مجموعی طور پر قوم کہا جاتا ہے، یکسر غلط اور بہت سوں کے لیے موجب آزردگی ہوگا۔ قوم کے اجزاء میں ثقافت ایک بہت اہم جزو ہے، دوسرا اہم جزو زبان ہے۔ ثقافت کی بوقلمونی میں اگر یگانگت کے انگ نہ ہوں تو ایک قوم تشکیل نہیں پا سکتی، اسی طرح اگر علاقائی زبانوں کو ان کا مناسب حق نہ دیا جائے تو سبھی پہ مسلط کی جانے والی زبان نہ تو قومی زبان کہلا سکتی ہے اور نہ ہی ملک میں بسنے والے سبھی لوگوں کو ایک متحدہ \”قوم\” بنا سکتی ہے۔ چنانچہ یوں ضروری ہو جاتا ہے کہ نظریے کی جامع تعریف سے پہلے \”قوم\” کی جامع تعریف پہ بھی متفق ہونا لازمی ہوگا۔

نظریہ پاکستان میری نگاہ میں اس لیے ایک مبہم اصطلاح بلکہ ترکیب ہے کہ جس دو قومی نظریے کو بنیاد بنا کر ملک حاصل کیا گیا تھا وہ دو ملک وجود پا جانے کے بعد ختم ہو چکا ہے۔ سندھ یا ملک کی محدودے چند ہندو برادری کو تو اب ہم \”ہندو قوم\” کہنے سے رہے کیونکہ وہ بھی اسی طرح پاکستانی یا پاکستانی \”قوم\” کے فرد ہیں جس طرح میں اور آپ۔ پاکستان کو اگر کوئی نظریہ یا تصور چننا تھا تو وہ تو کب کا چنا جا چکا ہے یعنی سرمایہ دارانہ نظریہ کیونکہ نہ تو ملک میں سوشلزم مروج ہے اور نہ ہی اسلامی شرعی معیشت ہے، نہ ہی اسلامی معاشرہ ہے اور نہ ہی سیکیولر معاشرہ۔ اگر کچھ ہے تو چوں چوں کا مربہ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیچے سے شروع کیا جائے۔ پہلے تمام اکائیوں کے لوگوں کو مساوی حقوق و مواقع فراہم کیے جائیں۔ ملک کو مجموعی طور پر سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کیا جائے۔ ملک کی آبادی میں ایک قوم ہونے کا تصور راسخ کیا جائے، پھر قوم طے کرے گی کہ ملک کی ترقی و پیشرفت کی خاطر کونسا معاشی، سماجی،سیاسی نظریہ اپنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments