تماش بین تو اچھے ہوتے ہیں!


\"\"آغا نے ایک مرتبہ کچھ تصویریں لا کر دیں، ناریل کے خول پر بنی ہوئی تھیں، دل سے لگا کر رکھ لیں، پھر فریم کروائیں اور گھر میں سجا دیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے دو بہت خوب صورت سے چھوٹے برتن تحفہ دئیے جس میں یونانی شاید قہوہ پیتے ہوں یا اپنی مرضی سے کچھ بھی پیتے ہوں، حرز جاں کیا اور بیٹھک میں رکھ دئیے۔ پھر ایک مرتبہ 1930 میں بنے تاش کے دو پیکٹ دئیے جو ایک خوب صورت سے کیس میں تھے۔ لال ریکسین کا کیس اور اس پر سنہری نقاشی کی گئی تھی، وہ کیس اب تک نظروں کے سامنے ہر وقت رہتا ہے۔ رئیس امروہوی کی ایک کتاب عطا کی جس پر ان کے دستخط تھے، وہ بھی دوسری کتابوں کے ساتھ حنوط ہوئی۔ ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ یہ سب چیزیں آپ خود کیوں نہیں رکھتے، کہنے لگے، میاں ہم تو تماشبین ہیں، جو تماشہ اچھا لگا، کھڑے ہو کر دیکھا، تالیاں بجائیں اور آگے نکل پڑے۔ اب یہ چیزیں سنبھال سنبھال کر کون رکھے۔

تماش بینی بہرحال ایک مشکل کام سہی، ناممکن نہیں ہے۔ جناح باغ میں جائیں تو پتہ نہیں کتنا آگے جا کر، لیکن کینٹین کے آس پاس ایک درخت ہے۔ اسے بدھا کا درخت کہتے ہیں۔ ڈھول کی شکل کا تنا، پھیلی ہوئی ایبسٹریکٹ سی شاخیں، ہر شاخ پر بے شمار کانٹے اور ان سب چیزوں کے ساتھ یہ بڑے بڑے سفید پھول۔ ایک مرتبہ آندھی طوفان آیا تو اس درخت پر بجلی گری اور وہ آدھا جل گیا۔ پھر سے ہرا ہوا۔ لیکن اب وہ ایک ایسا ماسٹر پیس ہے جس پر گزرتے وقت کے تمام آثار نقش ہیں۔ سو برس پرانا وہ درخت ایک سیزنڈ قدرتی فن پارہ ہے۔ نومبر دسمبر میں \"\"اگر اسے دیکھا جائے تو وہ اپنی بہترین شکل میں نظر آتا ہے۔ تمام پتے جھاڑ کر صرف بڑے سفید پھول پیش کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آؤ، دیکھو، یہ جو بینچ میرے پاس پڑا ہے، اس پر بیٹھو، تصویریں کھینچو، وقت گزارو، دھوپ سینکو لیکن جو کچھ ہے بس یہیں ہے۔ یہ مزہ تم اپنے گھر کے آنگن میں نہیں اٹھا سکتے، اب لگاؤ گے تو سو برس بعد ہی جا کر ایسی چھتنار چیز بنے گی اور اس پر بجلی بھی گرے، کون چاہے گا؟ تو یہ درخت اپنی تمام تر خوب صورتی کے ساتھ تماش بینی کا ایک سبق دیتا ہے۔ دنیا کا ہر پسندیدہ منظر دیکھا جائے، اس سے لطف لیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔

ایسے درخت وہاں بہت سارے ہیں، کسی میں گلابی پھول لگتے ہیں، کوئی سفید پھولوں والا ہے، لمبی لمبی قطاریں ہیں لیکن یہ مہاتما قسم کا بدھا صرف ایک ہی ہے۔

آپ چڑیا گھر میں جائیں اور مور کے پنجرے کے سامنے گھنٹوں کھڑے رہیں۔ وہ تب ناچے گا جب اس کا دل چاہے گا۔ مور گھر میں پال لیجیے، دن رات اس کے پیچھے لگے رہیں، اسے پر پھیلانے کا حکم نہیں دے سکتے۔ یہ بھی تماش بینی کا ایک درس ہے۔ بھئی زندگی میں اگر ایک بار بھی ناچتا مور دیکھنے کو ملے تو اسے اتنا جی بھر کے دیکھا جائے کہ آنکھیں بند ہوں اور مور سامنے کھڑا ہو۔ جہاں مور خود پالا، اس کے مالک ہوئے، ساری تماش بینی وہیں بھنگ ہو گئی۔

گانے کی بات کریں، اگر آپ گانا جانتے ہیں تو اس دنیا کے چند خوش قسمت انسانوں میں سے ہیں۔ نہیں جانتے لیکن کن رس ہیں، اچھی آواز، \"\"سر، تال، لے آپ پر اثر کرتا ہے تو یقین جانیے آپ زیادہ خوش قسمت ترین لوگوں میں ہیں۔ گانوں کا بھی یوں ہے کہ ان پر ملکیت کا دعوی کوئی نہیں کر سکتا۔ ایک گانا آپ کو پسند ہے، آپ نے اسے اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ وہی گانا دنیا میں لاکھوں دوسرے انسانوں کو بھی پسند ہو گا۔ ہم میں سے کبھی کوئی یہ نہیں سوچتا کہ لتا نے جو گایا وہ بس میرے لیے گایا، ام کلثوم صرف مصریوں کے لیے گاتی رہیں، گوگوش پر صرف ایرانیوں کا اجارہ ہے یا جارج مائیکل صرف گوروں کا سنگر تھا، یہ سب لوگ، ہم سب کی مشترکہ ملکیت تھے۔ ہم سے پہلے کی نسلیں، ہمارے بعد آنے والے، سب انہیں سنیں گے اور مل کر رقص بھی کریں گے۔ تو یہ تماش بینی کا ایک اور منظر ہے۔ ہاں اگلے زمانے کے تماش بینوں نے سالم گانے والے بھی رکھے لیکن ملکیت میں آتے ہی تماش بینی نے پر پھیلائے، مزا جاتا رہا اور مقصد فوت ہو گیا۔۔۔ کیا قافلہ جاتا ہے۔

 اسی طرح جب آپ ایک خوب صورت منظر کا حصہ ہوئے اور اس کی تصویر بنا لی تو وقت آپ نے قید نہیں کیا۔ یہ وقت ہے جس کے ہاتھوں آپ قید ہو گئے۔ جب بھی تصویر سامنے آئے گی، ایک دم وہ سارا کا سارا منظر دماغ میں گھومنے لگ جائے گا، دل چاہے گا کہ بھئی کسی بھی طرح اس منظر کا حصہ دوبارہ بنا جائے۔ دوبارہ وہاں جانے پر سب کچھ مل جائے گا، وقت لیکن گزر چکا ہو گا۔ تو کیمرہ بازی جو ہے، یہ بھی ہماری تماش بینی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ جب کسی منظر کا حصہ بننا ہو تو انسان تصویر نہ کھینچے، اس وقت سے لطف اندوز ہو۔ آنکھ کیمرے کے پیچھے گئی اور سمجھیے منظر نے آپ کو چائے سے مکھی کی طرح باہر نکال پھینکا، اب لاکھ کوشش کیجیے، دوبارہ وہ کنسنٹریشن نہیں ملنے والی۔ ایک برا فوٹو گرافر کئی بار بہت سی بہترین تصویریں دماغ کے پردے پر اتار لیتا ہے، کیمرے کو زحمت نہیں دیتا، وہ بھی تماش بین ہوتا ہے، قید نہیں ہونا چاہتا۔ ہاں، اچھا فوٹو گرافر بننا ہے تو منظر سے رخصت لینا شرط ہے، کامیابی آپ کے قدموں میں ہو گی۔\"\"

ایک عادی تماش بین کے لیے ہر چیز کی حیثیت بس اتنی رہ جاتی ہے کہ وہ اسے گزرتا وقت سمجھے لیکن اس کے ساتھ بندھنے کا قائل نہ ہو۔ وہ یہ گر جان لیتا ہے کہ وہ جس وقت میں زندہ ہے اسے کیسے گزارا جائے نہ کہ آنے والے وقت کے لیے پسندیدہ چیزوں کے ڈھیر جمع کیے جائیں اور ان پر سانپ کی طرح پھن کاڑھے چوبیس گھنٹے کنڈلی مار کر بیٹھا جائے۔ تماش بین کوئی سادھو، سنت، فقیر نہیں ہوتا، وہ تو ان سب کو بھی منظر کا حصہ سمجھتا ہے۔ خواہشیں اس کے دل میں جاگتی ہیں، لیکن وہ ان کا غلام نہیں بن پاتا۔ وہ کسی ایک دائرے میں کھڑا ہو کر سب کو اس دائرے سے باہر نہیں پھینکنا چاہتا، وہ سب دائروں سے باہر ایک کونے میں کھڑا لاتعلقی سے سب تماشے دیکھتا رہتا ہے۔ دل کا جانا ٹھہرتا ہے تو اگلے تماشے کا رخ کرتا ہے۔

زندگی ایک فن ہے لمحوں کو

اپنے انداز سے گنوانے کا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments